قرض کے احکام. 1953 _1938

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
توضیح المسائل
احکام جعاله .1937_1932 حوالہ (ڈرافٹ) کے احکام. 1963_1954

مسئلہ ۱۹۳۸: قرض دینا بہت ہی مستحب کام ہے۔ قرآن مجید اور احادیث ائمہ معصومین میں اس کی بہت تاکید آئی ہے۔ حضرت رسول اکرم سے روایت ہے جو شخص اپنے برادر مومن کو قرض دے گا اس کا مال زیادہ ہوگا۔ ملائکہ اس پر رحمت کی دعاکریں گے۔ اگر اپنے قرض دار سے نرمی کا برتاو کرے تو بغیر حساب اور بڑی جلدی سے پل صراط سے گزرجائے گا اور جس مسلمان سے اس کا مسلمان بھائی قرض مانگے اور وہ نہ دے تو جنت اس پر حرام ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ صدقہ کا ثواب دس گناہے اور قرض کا ثواب اٹھارہ گناہے۔
مسئلہ ۱۹۳۹: قرض کی قرارداد کو لفظی صیغہ سے انجام دیاجاسکتا ہے۔ اور اس طرح بھی ہوسکتا ہے کہ کسی کو قرض کی نیت سے دے اور وہ اسی نیت سے لے۔ غرض کہ دونوں طرح صحیح ہیں۔
مسئلہ۱۹۴۰: قرض میں مقدار اور مدت و جنس کو معین اور واضع ہونا چاہئے اور قرض دینے والا اور لینے والا دونوں بالغ و عاقل ہوں۔ لا ابالی نہ ہوں اپنے مال میں تصرف کا حق رکھتے ہوں اور اس کام کو قصد و ارادے سے انجام دین، مذاق، جبر و غیرہ نہ ہو۔
مسئلہ ۱۹۴۱: اگر قرض کی قرارداد میں واپسی کی مدت معین ہو تو قرض دینے والا اس مدت سے پہلے مطالبہ نہیں کرسکتا لیکن اگر مدت معین نہ ہو تو جس وقت چاہے مطالبہ کرسکتاہے۔
مسئلہ ۱۹۴۲: اگر قرض کی واپسی کی مدت معین ہو اور قرض لینے والا اس وقت سے پہلے اپنا قرض واپس کرنا چاہے تو قرض دینے والا قبول کرنے پر مجبور نہیں ہے۔ لیکن اگر مدت کی تعین محض مقروض کے ساتھ رعایت کیلئے کی گئی ہو اور وہ وقت سے پہلے اپنا قرض واپس کرنا چاہے تو قرض دینے والے کو قبول کرنا ہوگا۔
مسئلہ ۱۹۴۳: اگر قرض دینے والا اپنے قرض کو طے شدہ وقت پر واپس مانگے تو قرض دار کو فورا قرض ادا کردینا چاہئے۔ اس میں تاخیر گناہ ہے۔ لیکن اگر قرض دار کے پاس مکان (جس میں وہ رہتاہے( اور اثاث البیت (گھیر ملو سامان) اور ضروریات مکان اور جن چیزوں کی اس کو ضرورت ہو ان کے علاوہ کچھ نہ ہو تو قرض دینے والے کو صبر کرنا چاہئے اور قرض دار کو اس بات پر مجبور نہیں کرنا چاہئے کہ وہ اپنی ضرورت کی چیزوں کو بیچ دے لیکن اسکے ساتھ مقروض کو بھی چاہئے کہ قرض ادا کرنے کے لئے کوئی ملازمت یا جائز ذریعہ ی آمدنی تلاش کرکے اس کا قر ض ادا کرے۔
مسئلہ ۱۹۴۴: جو مقروض شخص قرض دینے والے تک رسائی نہ حاصل کرسکتا ہو اور اس کے ملنے کے ملنے کی امید بھی نہ ہو تو احتیاط واجب ہے کہ حاکم شرع (قاضی) سے اجازت لے کر مقدار قرض کو کسی فقیر کے حوالے کردے فقیر چاہے سید ہو یا غیر سید۔
مسئلہ ۱۹۴۵:۔ اگر میت کاتر کہ واجب کفن، دفن، قرض سے زیادہ نہ ہو تو ترکہ کو ان ہی چیزوں (کفن، دفن، قرض) میں صرف کردینا چاہئے۔ ورثآء کو کچھ بھی نہیں ملے گا۔
مسئلہ ۱۹۴۶:۔ سونے یا چاندی کے رائج الوقت یا غیر رائج الوقت سکوں کو اگر قرض لے اور بعد میں ان کی قیمت کم ہوجائے یا زیادہ ہوجائے تو اس کو اتنی ہی مقدار واپس کرنی ہوگی جتنی لی ہے چاہے قیمت زیادہ ہوگئی ہو یا کم ہوگئی ہو۔
مسئلہ ۱۹۴۷:۔ اگر ادائیگی قرض کا وقت آجائے اور قرض لی ہوئی چیز بعینہ موجود ہو اور قرض دینے والا اسی کو مانگ رہا ہو جب بھی ضروری نہیں ہے کہ اسی کو دیدے اگر چہ احتیاط مستحب یہی ہے کہ وہی دیدے۔
مسئلہ ۱۹۴۸:۔ اگر قرض دینے والا شرط کرے کہ جتنا دے رہاہوں اس سے زیادہ لوں گا تو وہ سود ہے اور حرام ہے۔ خواہ چیز کو قرض دے رہاہے۔ وہ وزن و پیمانے سے خرید و فروخت ہوتی ہو یا عدد سے بلکہ اگر یہ طے کرلیں کہ قرض لینے والا اس کے لئے کوئی کام انجام دے یا جو جنس لے رہاہے اس کے علاوہ دوسری جنس بھی دینا ہوگا۔ یا طلای نساختہ دے کر شرط کرے کہ اتناہی طلائے ساختہ واپس کرنا ہوگا تو یہ سب سودہے اور حرام ہے۔ البتہ مقروض اپنی طرف سے کچھ زیادہ دیدے بغیر کسی شرط کے تو جائز ہئے بلکہ مستحب ہے۔
مسئلہ۱۹۴۹: سود کا لینا دینا دونوں حرام ہے۔ سود پر قرض دینے والا اور لینے والا اس کا مالک نہیں ہو تا اور نہ اس میں تصرف جائزہے۔ البتہ اگر ایسا ہو کہ قرارداد میں سودکی شرط نہ بھی ہوتی اور وہ زیادہ نہ بھی دیتا تب بھی مالک راضی تھا کہ اس میں تصرف کرے تو تصرف کرنا جائزہے۔
مسئلہ۱۹۵۰: اگر گیہوں یا کسی اور چیز کا سودی بیج قرض لے کر کھیتی کرے تو اس کھیت سے جو بھی پیدا وار ہو مالک کی ہوگی قرض لینے والے کی تہ ہوگی۔
مسئلہ ۱۹۵۱: اگر لباس خرید کر اس کی قیمت میں سود پرلی ہوئی رقم دے یا جو رقم سودی مال سے مخلوط ہو اس کو مالک لباس کو دیدے تو اگر خرید تے وقت ہی اس کی نیت یہ رہی ہو کہ اس قسم کی رقم اس کودے گاتب تو اس لباس کا پہننا اس میں نماز پڑھنا محل اشکال ہے لیکن اگر خرید تے وقت یہ نیت نہ رہی بلکہ بعد مین ایسا ارادہ کرلیا ہو تب کوئی حرج نہیں ہے لیکن مال حرام دے کر وہ برئی الذمہ نہیں ہوگا۔
مسئلہ ۱۹۵۲: انسان یہ تو کرسکتاہے کہ ایک مقدار رقم کسی کودے کر دوسرے شہر میں اس کے آدمی سے کم لے لے اس کو (صرف برات) کہتے ہیں۔ گویا اس نے اپنے مال کی تھوڑی سی مقدار سے صرف نظر کرلیا لیکن یہ نہیں کرسکتا کسی کو ایک مقدار میں رقم دے کر دوسرے شہر میں اس کے آدمی سے زیادہ لے مثلا یہاں سے ہزار روپیہ دے کر دوسرے شہر میں گیارہ سورو پے لے ۔ کیونکہ یہ سودہے۔
مسئلہ ۱۹۵۳: مقروض کے مرنے پر اس کے تمام قرضوں کو ادا کرنا ضروری ہے چاہے ابھی ان قرضوں کا وقت نہ آیا ہو اور قرض دینے والے بھی اپنے قرض کا مطالبہ کرسکتے ہیں۔

احکام جعاله .1937_1932 حوالہ (ڈرافٹ) کے احکام. 1963_1954
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma