قرآن کی نگاہ میں نئی زندگی کی طرف بازگشت

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
روحوں سے رابطہ کی حقیقت
چوتھی دلیل : سرگردان روحیں میز کی سرگرمی

قرآن کی نگاہ میں نئی زندگی کی طرف بازگشت
تمام اسلامی فرقے اس بات پر متفق ہیں کہ روح اپنی حیات کے اتمام کے بعد دوبارہ اس جہان میں پلٹ کر کسی دوسرے بدن میں حلول کر کے اپنی حیات کو ادامہ نہیں دے سکتی ، شیعہ اور سنی تمام دانشمندوں نے عقیدہ تناسخ کو باطل قرار دیا ہے جو ادیان ہند کی بدعتوں میں سے ہے ۔
اسلامی فرقوں کے درمیان تنہا ایک فرقہ تناسخیہ کا نام ملتا ہے جو اس نظریہ کا قائل تھا لیکن آج مسلمانوں کے درمیان اس گروہ کا کوئی وجود نہیں ہے بلکہ کتابوں کے اوراق میں خاموش نظر آتا ہے ، شائد ان لوگوں کا وجود اس وقت ظاہر ہو اکہ جب یونانی کتابوں کا ترجمہ کیا جارہا تھا اور بحث و مباحثہ اور مجادلہ کا بازار گرم تھا لہذا مذہبی بحثوں کے سرد پڑتے ہی تناسخیہ نے دم توڑدیا اور آج صرف ان کا تذکرہ کتاب ملل و نحل میں ثبت ہے ۔
بیسویں قرن کی دائرہ معارف (١٠ ص ١٨١) میں درج ہے کہ:
روحوں کی بازگشت کا عقید بڑا پرانا ہے جو پہلی مرتبہ ہندوستان میں اٹھا اور آج بھی یہ عقیدہ وہاں کے بت پرستوں کے درمیان پایاجاتا ہے لیکن اسلام میں کسی نے اس عقیدہ کو نہیں مانا ، تنہا فرقہ تناسخیہ کا نام ملتا ہے ، جنہوں نے اس عقیدہ کو مانا ہے جسے انھوں نے ہندوؤں اور عرب میں شائع فلسفہ کے ذریعہ قبول کیا تھا ۔
ہمیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ تناسخ کا عقیدہ زیادہ تر ان اقوام کے درمیان پایاگیا ہے کہ جن کا معاد اور قیامت پر ایمان نہیںتھا، اس لئے کہ روحوں کی بازگشت اور خطاؤں کی سزا پانے اور اس سے عبرت حاصل کرنے کے بعد قیامت اور روز جزا کی کوئی ضرورت نہیں رہتی۔
اس عقیدہ کے طرف داروں کے قول کے مطابق جب ایک فقیرد ولتمند کی صورت میں یاایک ظالم امیر ایک فقیر اور مجبور کی صورت میں لوٹے گا ، یاعشق میں ناکام افراد لوٹنے کے بعد کامیاب ہوجائیں گے اور عشق میں خیانت کرنے والے ہجران و فراق میں گرفتار ہوجائیں گے یا مثلاً(نائب حسین کاشی) اپنے اعمال کے نتائج کو دیکھنے کے لئے اسی کے مطابق حالات سے دوچار ہوں گے تو پھر اس صورت میں روز جزا کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی ،حقیقت میں ان لوگوں کی قیامت اسی دنیا میں برپا ہوگی اور پھر دوسری قیامت کو برپا کرنا بے سود ہوگا بلکہ لوگوں کا اسی دنیا میں سزا پالینے کے بعد دوبارہ انہیں کٹہرے میں کھڑا کرنا ایک ظلم ہوگا۔
اسی وجہ سے ہمارے بزرگان دین اور ائمہ علیہم السلام نے اس عقیدہ کو انکار قیامت کی وجہ سے باطل قرار دیا ہے ۔
مرحوم صدوق جہان اسلام کے عظیم محدث ہیں ، وہ اپنی کتاب عیون اخبار الرضا میں امام رضا علیہ السلام سے نقل فرماتے ہیں کہ امام علیہ السلام نے تناسخ کے متعلق مامون کی طرف سے کئے گئے سوالات کے جواب میں فرمایا : من قال بالتناسخ فھو کافر باللہ العظیم یکذب بالجنة والنار؛ جو بھی تناسخ کو مان لے تو گویا اس نے خدا کا اور جنت و دوزخ کا انکار کردیاہے ۔
اس حدیث میں ایک نکتہ جس کی طرف امام نے توجہ دلائی ہے وہ یہ ہے کہ خدا پر ایمان نہ رکھنے کو عقیدہ تناسخ کے برابرسمجھا گیا ہے اور ان دونوں کے درمیان موجو درابطہ صرف ایک موضوع کی طرف توجہ کے ذریعہ معلوم ہوجاتا ہے اوروہ موضوع یہ ہے کہ تاریخ و ادیان میں ہم پڑھتے ہیں کہ عقیدہ تناسخ کے طرفدارصرف چند مادی گرا افراد تھے ، وہ لوگ صرف اس وجہ سے تناسخ کے قائل ہوگئے تھے کہ وہ خداکے منکرتھے ۔
لہذا اس طرح روحوں کو ازلی و ابدی قرار دینا چاہتے تھے ، اس صور ت میں معلوم ہے کہ یہ روحیں اپنی جاودانی زندگی کی خاطر ایک مدت گذرجا نے کے بعد کسی دوسرے بدن کو اپنا آشیانہ بنائیں گی اور زمانہ کے گذرتے ہوئے اپنا مسکن بدلتی رہیں گی ،یوں اپنی جاودانی زندگی کو ادامہ دیں گی ( غورکریں ) اور اس طرح مادہ پرست حضرات اور اس عقیدہ کے درمیان رابطہ کا پتہ لگایا جاسکتاہے ۔
اسلامی تہذیب و معارف کا سرچشمہ قرآن مجید نے اپنی متعدد آیتوں میں اس عقیدہ پر خط بطلان کھینچتے ہوئے فرمایا ہے :
١۔ ( حتی اذا جاء ھم الموت قال رب ارجعون لعلی اعمل صالحا فیما ترکت کلا انھا کلمة ھو قائلھا) ؛ یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کی موت کا وقت قریب ہوتا ہے تو وہ کہتا ہے : میرے پروردگار مجھے واپس لوٹادے تاکہ شاید جو کچھ ترک کردیا ہے اسے دوبارہ انجام دے سکوں لیکن اسے جواب دیا جائے گا کہ ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا ، یہ ایک بات ہے جسے وہ کہہ رہا ہے ۔
٢۔ (کیف تکفرون باللہ وکنتم امواتا فاحیا کم ثم یمیتکم ثم یحییکم ثم الیہ ترجعون) تم کس طرح خدا کا انکار کر رہے ہو جب کہ اسی نے تم لوگوں کو مردہ ہونے کی صورت میں دوبارہ زندہ کیاہے پھر تمہیں مارڈالے گا اور پھر زندہ کرے گا اس کے بعد تم اسی کی طرف لوٹا دئے جاؤگے ۔
یہ آیت بیان کرتی ہے کہ تم لوگ مرنے کے بعد صرف ایک مرتبہ زندہ کئے جاؤگے اور تمہارا زندہ کیا جانا روز جزا ، خدا کی طر ف بازگشت اور ا س دنیا کی جاودانی زندگی میں ورود کے ہنگام ہوگا ، اس بیان سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ جو شخص روحوں کی بازگشت اور اس جہان میں ایک نئی زندگی کی شروعات کا معتقد ہو اسے مذکورہ باتوں کے برخلاف ایک دوسری موت و حیات کا قائل ہونا چاہئے جب کہ یہ اعتقاد گذشتہ آیت کے برخلاف ہے ۔
٣۔ ( اللہ الذی خلقکم ثم رزقکم ثم یمیتکم ثم یحییکم ) ؛ خدا وہی ہے کہ جس نے ( پہلی مرتبہ) تمہیں خلق کیا اور پھر رزق دیا ، اس کے بعد مارڈالے گا اور پھر دوبارہ زندہ کرے گا ۔
اس آیت میں بھی انسان کی پہلی خلقت کے بعد صرف ایک مرتبہ موت و حیات کو بیان کیا گیا ہے ۔
٤۔ ( وھو الذی احیاکم ثم یمیتکم ثم یحییکم ان الانسان لکفور ) ؛اور وہی ہے کہ جس نے تمہیں زندہ کیا اور پھر مارڈالے اورپھر زندہ کرے گا ، یقینا انسان بہت ناشکرا ہے ۔
اس آیت میں بھی پہلی مرتبہ حیات کے بعد صرف ایک بار اور زندہ کئے جانے کا ذکرہوا ہے۔
٥۔ ( قالو اربنا امتنا اثنتین و احییتنا اثنتین فاعترفنا بذنوبنا فھل الی خروج من سبیل) ؛( اس دن کافر) کہیں گے کہ اے ہمارے پالنے والے تونے ہمیں دوبار پیدا کیا اور دوبار مارااب ہم اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہیں ،کیا ( دوزخ ) سے رہائی کا کوئی راستہ ہے ۔
اس آ یت میں موجود ( تونے دوبار ہمیں مارا ) کو دستاویز قرار دیتے ہوئے شائد بعض حضرات یہ کہیں کہ یہ جملہ اس جہان میں دوبارہ لوٹنے کی طرف اشارہ ہے جس میں ایک بار اور حیات و موت واقع ہوگی لیکن گذشتہ آیات کو دیکھتے ہوئے یہ مطلب کاملا ًروشن ہے کہ پہلی موت خلقت سے پہلے والی ہے کہ جس میں انسان ایک بے جان موجود کی طرح ہوتا ہے اور پھر اسے زندگی کا لباس پہنایا جاتا ہے اور اگر ( مارڈالنے ) کی تعبیر استعمال ہوئی ہے تو تغلیب کے باب سے ہے ۔
اسی طرح یہاں پر بھی ایک مرتبہ مارنے اور ایک مرتبہ زندہ کرنے کی تعبیر کے بدلے دونوں کو (مارڈالنے ) کی تعبیر سے یا د کیا گیا ہے ۔( غور کریں)ہمارے اس مطلب کا ترجمان بعد والا جملہ ہے اس لئے کہ اس آیت میں حیات و مرگ کو دو مرتبہ ذکرکیا گیا ہے جب کہ اگر آخرت میں حیات کے علاوہ اس دنیا میں ایک نئی زندگی کو مان لیا جائے تو پھر اس صورت میں تین بار زندہ ہونا لازم آجائے گا لہذا یہ آیت بھی تناسخ کو باطل کرتی ہے ۔
نہج البلاغہ میں بھی امام علی علیہ السلام کی طرف سے ایسی تعبیرات وارد ہوئی ہیں جو تناسخ کو باطل قرار دیتی ہیں : لاعن قبیح یستطیعون انتقالا ولا فی حسن یستطیعون ازدیادا ؛ ان کے پاس اب نہ تو برے کاموں کے جبران کا وقت رہا اور نہ ہی ان میں نیکیوں میں اضافہ کرنے کی طاقت باقی بچی ۔
اس بیان سے یہ مطلب واضح ہو جا تا ہے کہ وہ لوگ جو معتقد ہیں کہ انسان مرنے کے بعد اس جہان میں لوٹ آتا ہے تاکہ اپنے گذشتہ اعمال کا جبران اور اپنے ناقص کمال کو کامل کرسکے اس مقام پر اور بھی مطلب ہے جس سے کلام کے طولانی ہونے کی وجہ سے صرف نظرکیا جا تا ہے ۔
چوتھی دلیل : سرگردان روحیں میز کی سرگرمی
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma