مندرجہ بالا واقعے میں ہم نے بارہا دیکھا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام بھول گئے ۔ پہلے تو اس مچھلی کو جو انھوں نے کھانے کے لیے رکھی تھی ۔ دوسری اور تیسری مرتبہ آپ اپنے عالم دوست سے کیے گئے معاہدہ کو بھول گئے ۔ ان امور کو دیکھ کر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا انبیاء کے لیے نسیاں ممکن ہے؟
بعض کا نظر یہ ہے کہ انبیاء سے ایسے نسیان کا صدور بعید نہیں ہے کیونکہ یہ دعوت نبوّت کی بنیاد اور اصول سے مربوط ہے اور نہ اس کی فروع ہے اور نہ ہی اس کا تعلق تبلیغ نبوت کے ساتھ ہے بلکہ اس کا تعلق صرف روز مرہ کی معمول کی زندگی سے ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ جو کچھ مسلّم ہے یہ ہے کہ کوئی نبی نبوت کی دعوت اور اس سے متعلقہ امور میں ہرگز خطا و اشتباہ کا آشکار نہیں ہوتا اور ان کا مقام عصمت انھیں اس قسم کی چیزوں سے محفوظ رکھتا ہے لیکن اس میں کیا مانع ہے کہ موسی(ع) کو جو بڑے اشتیاق سے اس عالم کی تلاش میں جارہے تھے اپنے کھانے بھول گئے اور یہ ایک معمول کا مسئلہ ہے نیز اس میں کیا مانع ہے کہ کشتی میں سوراخ، نوجوان لڑکے کے قتل اور بخیلوں کے شہر کی دیوار کی بے وجہ تعمیر، جیسے بڑے واقعات نے ایسا ہیجان زدہ کیا کہ انھوں نے اپنے عالم دوست سے جو ذاتی عہد کیا تھا اسے بھول گئے ۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ نہ ایک پیغمبر سے بعید ہے اور نہ مقام عصمت کے منافی ہے ۔
بعض مفسرین نے یہ احتمال بھی ذکر کیا ہے کہ نسیان یہاں مجازی معنی میں یعنی ترک کرنے کے معنی میں آیا ہے کیونکہ انسان جب کسی چیز کو ترک کرتا ہے تو وہ ایسے ہی ہے جیسے اسے بھول گیا ہو اور اس کے بارے میں اس نے نسیان کیا ہو ۔حضرت موسی(ع) نے اپنی غذا کو اس لیے ترک کیا کیونکہ وہ اس بارے میں بے اعتناء تھے اور اپنے عالم دوست سے کیے ہوئے معاہدے کو انھوں نے اس لیے ترک کیا کیونکہ حوادث کو ظاہری حوالے سے دیکھنے کی وجہ سے اصلاً یہ بات ان کے لیے قابل نہ تھی کہ کوئی شخص بلاوجہ لوگوں کے جان و مال کو نقصان پہنچائے لہٰذا انھوں نے اعتراض کرنا اپنی ذمہ داری سمجھا اور ان کے نزدیک یہ معاہدے کا مقام نہ تھا ۔
لیکن واضح ہے کہ ایسی تفاسیر ظاہرِ آیات سے ہم آہنگ نہیں ہوسکتیں(1)