زیرِ نظر آیت میں خدا کی تین قسم کی صفات کی طرف اشارہ ہوا ہے ۔ نیز آیت کے ذیل کی طرف توجہ کی جائے تو کُل چار صفات ہوجاتی ہیں:
پہلی صفت: یہ ہے کہ اس کی کوئی اولاد نہیں کیونکہ اولاد کا ہونا نیاز و احتیاج کی دلیل ہے ۔ جسمانی ہونے کی دلیل اور شبیہ و نظیر رکھنے کی دلیل ہے ۔ جسمانی ہونے کی دلیل اور شبیہ و نظیر رکھنے کی دلیل ہے جبکہ اس کا جسم ہے نہ وہ احتیاج رکھتا ہے اور نہ شبیہ و نظیر۔
دوسری صفت: یہ ہے کہ اس کا کوئی شریک کا وجود قدرت و حکومت کی محدودیت یا عجز و توانائی یا شبیہ و نظیر ہونے کی دلیل ہے اور اس کی کوئی شبیہ و نظیر بھی نہیں ہے ۔
تیسری صفت: یہ ہے کہ مشکلات اور ناتوانیوں کے لیے اس کا کوئی ولی نہیں کیونکہ اس خدائے عظیم و لامتناہی سے اس صفت کی نفی بھی واضح ہے ۔
دوسرے لفظوں میں یہ آیت اللہ سے ہر قسم کے مددگار اور شبیہ کی نفی کرتی ہے چاہے وہ اس سے کم تر ہو مثلاً اولاد یا اس جیا ہو مثلاً شریک یا اس سے بالا تر ہو مثلاً ولی۔
مرحوم طبرسی نے بعض مفسرین سے کہ جن کے نام انہوں نے نہیں لکھے، نقل کیا ہے کہ یہ آیت تین انحرافی گروہوں کے اعتقاد کی نفی کرتی ہے ۔ پہلے عیسائی اور یہودی کہ جو خدا کے بیٹے کے قائل تھے ۔ دوسرے مشرکین عرب جو اس کے لیے شریک خیال کرتے تھے، یہی وجہ ہے کہ صبح کے وقت اپنے مراسم عبادت میں کہتے تھے:
لبیک لا شریک لک الاشریکا ہولک
تیسرے ستارہ پرست اور مجوسی کہ جو خدا کے لیے ولی اور مددگا کے قائل تھے ۔