چند اہم نکات

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 12
انفاق و بخشش میں اعتدال چھ اہم احکام

۱۔ ”ذی القربیٰ“ سے یہاں کون لوگ مراد ہیں؟
”ذی القربیٰ “ جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں وابستہ اور نزدیکی افراد کے معنی میں ہے ۔ مفسرین نے اس بارے میں بحث کی ہے کہ یہ لفظ یہاں مخصوص افراد کے لیے ہے یا عام ہے ۔
بعض کا نظریہ یہ ہے کہ تمام مومنین و مسلمین مخاطب ہیں اور انہیں اپنے زشتہ داروں کا حق ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ بعض دیگر کہتے ہیں کہ مخاطب پیغمبر اکرم صلی الله علیہ آلہ وسلم ہیں اور آپ سے کہا گیا ہے کہ اپنے نزدیکیوں کو ان کا حق ادا کریں ۔ مثلا خمس غنائم اور خمس سے باقی متعلقہ چیزوں میں سے اور کلی طور پر بیت المال میں جو ان کے حقوق ہیں وہ ادا کریں ۔
متعدد روایات جو شیعہ اور سنی طرق سے نقل ہوئی ہیں ان کے مطابق جب یہ آیت نارل ہوئی تو رسول اکرم صلی الله علیہ آلہ وسلم نے حضرت فاطمہ سلام الله علیہا کو بلایا اور فدک کی سرزمین آ پکو بخشش دی ۔ (1)
جب اس علاقے کے یہودیوں نے جنگ کیے بغیر ہتھیار ڈال دیئے اور انھوں نے اپنے تئیں آنحضرت کی خدمت میں پیش کردیا تو معتبر اسناد اور تواریخ کے مطابق آنحضرت نے یہ زمین حضرت فاطمہ زہر(ص) کو بخش دی لیکن آنحضرت کی رحلت کے بعد مخالفین نے اسے غصب کرلیا، سالہا سال تک یہ علاقہ ایک سیاسی حربے کے طور پر ان کے ہاتھ میں رہا لیکن بعض خلفاء نے اسے اولادِ فاطمہ(ص) کو واپس کردیا ۔
(بعض تواریخ کے مطابق فدک کا علاقہ تقریباً دس مرتبہ چھینا گیا اور واپس کیا گیا) ۔
اہل سنت کی منابع سے ایک حدیث مشہور صحابی رسول ابو سعد خددی سے منقول ہے :
لما نزل قولہ تعالیٰ: ”واٰتِ ذا القربی حقہ“ اعطی رسول الله فاطمة فدک-
جب یہ آیت نازل ہوئی :”واٰتِ ذا القربی حقہ“ تو رسو ل اللہنے فدک کا علاقہ فاطمہ(ص) کودے دیا ۔ (2)
بعض روایات سے یہ معلوم ہوتاہے کہ یہاں تک کہ حضرت سجاد علیہ السلام نے اسیری کے دوران شام میں اسی آیت سے شامیوں کے سامنے استدلال کر تے ہوئے فرمایا :
آیت ”اٰتِ ذا القربی حقہ“سے مراد ہم میں کہ جن کے بارے میں خدا نے اپنے پیغمبر کو حکم دیا ہے کہ ان کا حق انہیں اداکر ہم (جبکہ شامیو!تم نے ہمارے سب حقوق ضائع کردیئے ہیں ) ۔ (3)
لیکن ان تمام چیزوں کے باوجود ،جیساکہ ہم نے پہلے بھی کہا ہے کہ یہ دونوں تفاسیر ایک دوسرے کے مخالفت نہیں ہیں ۔
سب لوگوں کا فرض ہے کہ ذی القربیٰ کا حق ادا کریں ۔رسول اللہ چونکہ اسلامی معاشرت کے رہبر ہیں لہٰذا ان کی بھی ذمہ داری ہے کہ اس عظیم خدائی فریضہ پر عمل کریں ۔
در حقیقت اہل بیت رسول ”ذی القربی ٰ “ کے واضح ترین مصداق ہیں اور رسول اللہ خود اس آیت کے روشن ترین مخاطب ہیں ۔لہٰذا پیغمبر اکرم نے ذی القربیٰ کا حق کہ جو خمس ،فدک یا اسی طرح دوسری چیزوں کی صورت میں تھا انہیں دے دیا کیونکہ زکوہٰ کہ جو درحقیقت عمومی اموال میں شمار ہو تی ہے اس کا لینا ان کے لیے ممنوع تھا ۔
۲۔اسراف کے بُرے اثرات :
اس میں شک نہیں کہ کرہٴ ارض میں موجود نعمتیں اس میں رہنے والوں کے لیے کافی ووافی ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ انہیں بے ہودہ اور فضول استعمال نہ کیا جائے بلکہ صحیح اور معقول طریقے سے ہر قسم کی افراط وتفریط سے بچ کران سے استفادہ کیا جائے ورنہ یہ نعمات اس قدر غیر محدود بھی نہیں کہ ان کے استعمال کے مہلک نتائج نہ نکلیں ۔
افسوس کا مقام ہے کہ اکثر اوقات زمین کے ایک علاقے میں اسراف اور فضول خرچی کے باعث دوسرا علاقہ محرومیت کا شکار ہوجاتا ہے یاایک زمانے کے لوگوں کا اسراف آیندہ نسلوں محرومیت کا باعث بن جاتاہے ۔
جس زمانے میں آج کے دَور کی طرح لوگوں کے پاس آبادی کے اعداد وشمار مو جود نہ تھے ، اسلام نے خبر دار کیا تھا کہ خدائی نعمتوں سے استفادہ کرتے ہوئے اسراف اور فضول چرخی نہ کرو۔
قران حکیم نے بہت سی آیات میں مسرفین کی بڑی شدت سے مذمت کی ہے ۔
ایک جگہ فرمایا ہے:
<وَلَاتُسْرِفُوا إِنَّہُ لَایُحِبُّ الْمُسْرِفِینَ
اسراف نہ کرو کہ اللہ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔ (انعام ۔۱۴۱،اعراف۔۳۱) ۔
ایک اور مقام پر فرمایاہے:
<وَاَنَّ الْمُسْرَفِینَ ھُمْ اٴَصْحَابُ النَّارِ
اور یقینا مسرفین اصحاب دوزخ ہیں ۔ (مومن ۔۴۳) ۔
ایک اور مقام پر مسرفین کی پیروی سے روکتے ہوئے فرمایا ہے ۔
<وَلَاتُطِیعُوا اٴَمْرَ الْمُسْرِفِینَ
اور مسرفین کے حکم کی پیروی کی اطاعت نہ کرو ۔ (شوراء۔۱۵۱) ۔
ایک ا ور جگہ فرماتاہے :
<مُسَوَّمَةً عِنْدَ رَبِّکَ لِلْمُسْرِفِینَ
مفسرین پر تیرے پروردگا ر کی طرف سے نشان لگا دیئے گئے ہیں ۔ (ذارعات ۔۳۴)
ایک اور مقام پر ارشاد فرماتا ہے :
<وَإِنَّ فِرْعَوْنَ لَعَالٍ فِی الْاٴَرْضِ وَإِنَّہُ لَمِنَ الْمُسْرِفِینَ
شک نہیں کہ فرعون روئے زمین پر بڑا بن بیٹاٹھاتھا اور اس میں بھی شک نہیں کہ وہ مسرفین میں سے تھا ۔ (یونس۔۸۳)
ایک اور جگہ فرماتاہے :
<إِنَّ اللهَ لَایَھْدِی مَنْ ھُوَ مُسْرِفٌ کَذَّابٌ
یقینا اللہ جھو ٹے مسرف کہ ہدایت نہیں کرتا ۔ (مومن ۔۲۸)
اور آخر کا ر ان کا انجام ہلاکت ونابودی بتا یا گیا ہے :
<وَاٴَھْلَکْنَا الْمُسْرِفِینَ
اور ہم نے مفسرین کو ہلاکت کر ڈالا ۔ (انبیاء ۔۲۸)
نیز جیسا کہ ہم نے لکھا ہے کہ زیر بحث آیت میں مسرفین کو شیطان کا بھائی اور ہمنشین شمار کیاگیا ہے ۔
”اسراف“اپنے وسیع معنی کہ لحاظ سے ہر قسم کے کام میں تجاوز کا مفہوم رکھتا ہے لیکن عام طو ر پر اخراجات میں حد سے تجاوز کے لیے بولا جاتا ہے ۔
خود آیات سے اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ اسراف کنجوسی اور تنگی کا متضاد ہے ۔
قرآن کہتا ہے :
<وَالَّذِینَ إِذَا اٴَنفَقُوا لَمْ یُسْرِفُوا وَلَمْ یَقْتُرُوا وَکَانَ بَیْنَ ذٰلِکَ قَوَامًا
وہ لوگ کہ خرج کرتے وقت اسراف کرتے ہیں اور نہ بخل سے کام لیتے ہیں بلکہ میانہ روی سے کام لیتے ہیں ۔ (فرقان ۔۴۷)
۳۔”اسراف “اور ”تبذیر“میں فرق :
اس سلسلہ میں مفسّرین کی طرف سے کوئی واضح بحث نظر سے نہیں گزری لیکن ان دونوں الفاظ کے بنیادی معانی پر نظر کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ جس و قت یہ دونوں ایک دوسرے کے مقابلے پر ہوں تو اسراف حد اعتدال سے نکل جانے کے معنی میں ہے بغیر اس کے کہ ظاہراً کسی چیز کو ضائع کیا ہو۔مثلاًیہ کہ ہم ایسا گراں قیمت لباس پہنتے ہیں کے جو ہماری ضرورت کے لباس سے سوگنا زیادہ قیمت کا ہے یا اپنی ایسی گراں قیمت غذا تیار کرتے ہیں کہ جتنی قیمت سے بہت سے لوگون کو عزت وآبرو سے کھانا کھلایا جاسکتا ہے ۔ایسے موقع پر ہم حد سے تجاوز کر گئے ہیں لیکن ظاہراًکوئی چیز ختم اور ضائع نہیں ہوئی۔
جبکہ ”تنذیر “اس طرح سے خرچ کرنے کو کہتے ہیں کہ جو اتلاف اور ضیاع کی حد تک پہنچ جائے مثلاًدو مہمانو ں کے لیے دس افراد کا کھا نا پکالیں جیساکہ بعض نادان کے تے ہیں اور پھر اس پر فخر کے تے ہیں اور بچے ہوئے کھا نے کو کُوڑ ے کرکٹ میں پھینک کر ضا ئع کرتے ہیں ۔
حضرت علی علیہ السلام نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں :
”الا اٴن اٴعطاء المال فی غیر حقہ تبذیر واسراف وھو یرفع صاحبہ فی الدنیا ویضعہ فی الآخرة ویکرمہ فی الناس ویھینہ عند الله“
خبر دار !مال کو اس کے مقام استحقاق کے علاوہ خرچ کرنا تبدیر واسراف ہے ۔ ہوسکتا ہے یہ کام انسان کو دنیا میں بلند مرتبہ کردے لیکن آخرت میں وہ یقینا پست وحقیر ہوگا ۔ہو سکتا ہے عام لوگوں کی نظر میں اسے عزت واکرام حاصل ہو جائے مگر بارگاہ الٰہی میں یہ کام انسان کی تنزلی اور سقوط کا سبب ہے ۔
زیر بحث آیات کی تشریح میں ہم نے پڑھا ہے کہ احکام اسلامی میں اسراف اور تبذیر کی اس قدر ممانعت کی گئی ہے کہ وضوکے لیے زیادہ پانی ڈالنے سے بھی منع کیا گیا ہے اگرچہ وضو کرنے والا لب دریا ہی کیوں نہ بیٹھا ہو ۔اسی طرح امام (ص)نے خر مے کی گٹھلیاں تک دُور پھینکنے سے منع کیاہے ۔
آج کی دنیا میں بعض مواد کی کمی کے احساس نے اس امر کی طرف اتنی شدت سے توجہ دلائی ہے کہ اب ہر چیزسے استفاوہ کیا جارہا ہے ۔یہاں تک کہ کو ڑاکرکٹ سے کھا دتیار کی جا رہی ہے اور پھوک سے اشیائے ضرورت تیار کی جارہی ہیں ۔استعمال شدہ گندے اور بچے ہوئے پانی سے زراعت کے لیے استفادہ کیا جارہا ہے کیو نکہ آج لوگ محسوس کرتے ہیں کہ عالم طبیعی میں موجود مواد غیر محدود نہیں ہے کہ جس کے باعث اس امر سے آسانی سے صرف نظر کرلیا جائے بلکہ لوگ سمجھتے ہیں ہر چیز سے دو ہر ا استفادہ کرناچاہیے ۔
۴۔کیا میانہ روی ایثار کے منا فی ہے :
زیر بحث آیات کہ جو انفاق میں اعتدال ملحوظ رکھنے کا حکم کر نے والوں کی تعریف اور توصیف اور مدح وثنا کی گئی ہے یہاں تک کہ انتہائی مشکل کا حالات میں بھی اپنی ذات کو فراموش کر کے دوسرں کے لیے ایثار کر نے کی تشویق کی گئی ہے ۔لہٰذا یہ دونوں با تیں آپس میں کس طرح ہم آہنگ ہوسکتی ہیں ۔
زیر بحث آیات کی شان نزول پرغور و خوص کرنے سے اور اسی طرح دیگر قرائن کو سامنے رکھنے سے مسئلہ واضح ہو جاتا ہے اور وہ یہ کہ اعتدال ملحوظ رکھنے کا حکم وہاں ہے جہاں زیادہ بخشش انسان کی اپنی بے سروسامانی کا سبب بن جائے اور اصطلاح کے مطابق وہ ”ملوم و محسور “ہو جائے ۔یا ایثار اس کی اولاد کے لیے نا راحتی، پریشانی دباوٴ اور تنگی کابا عث ہو جائے اور اس کے اپنے گھر کا نظام خطرے میں پر جائے لیکن اگر ایسا نہ ہو تو یقینا ایسے میں ایثار بہترین راہ ہے ۔
ا س سے قطع نظر اعتدال ملحوظ رکھنے کا حکم عمومی ہے جبکہ ایثار ایک خواص حکم جو معین مواقع سے مربوط ہے لہٰذا یہ دونوں حکم ایک دوسرے سے متضاد نہیں ہیں ۔

 

۳۱ وَلَاتَقْتُلُوا اٴَوْلَادَکُمْ خَشْیَةَ إِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُھُمْ وَإِیَّاکُمْ إِنَّ قَتْلَھُمْ کَانَ خِطْئًا کَبِیرًا
۳۲ وَلَاتَقْرَبُوا الزِّنَی إِنَّہُ کَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِیلًا
۳۳ وَلَاتَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِی حَرَّمَ اللهُ إِلاَّ بِالْحَقِّ وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُومًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّہِ سُلْطَانًا فَلَایُسْرِفْ فِی الْقَتْلِ إِنَّہُ کَانَ مَنصُورًا
۳۴ وَلَاتَقْرَبُوا مَالَ الْیَتِیمِ إِلاَّ بِالَّتِی ھِیَ اٴَحْسَنُ حَتَّی یَبْلُغَ اٴَشُدَّہُ وَاٴَوْفُوا بِالْعَھْدِ إِنَّ الْعَھْدَ کَانَ مَسْئُولًا
۳۵ وَاٴَوْفُوا الْکَیْلَ إِذَا کِلْتُمْ وَزِنُوا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِیمِ ذٰلِکَ خَیْرٌ وَاٴَحْسَنُ تَاٴْوِیلًا

ترجمہ

۳۱۔ اور اپنی اولاد کو فقر وفاقہ کے خون سے قتل نہ کرو ۔ہم انہیں اور تمہیں رزق دیتے ہیں انہیں قتل کر نا ایک بہت بڑا گناہ ہے ۔
۳۲۔ اور زنا کے قریب نہ جاوٴ کہ یہ بہت بڑا گناہ ہے ۔
۳۳۔ اور جس شخص کا خون خدا نے حرام قرار دیا ہے اسے سوائے حق کے قتل نہ کرو اور جو شخص مظلوم ما را گیا ہے اس کے ولی کو ہم نے (حق قصاص )پر تسلط دیا ہے لیکن وہ قتل میں اسراف نہ کرے کیونکہ وہ مدد دیا گیا ہے ۔
۳۴۔اور سوائے احسن طریقے کے مالِ یتیم کے قریب نہ جاؤ یہاں تک کہ وہ حدّ بلوغ کو پہنچ جائے اور اپنے عہد کو ایفا کرو کیونکہ عہد کے بارے میں سوال کیا جائے گا ۔
۳۵۔اور جب تم ناپ تول کرو تو پیمانہ کا حق ادا کرو اور ترازو سے وزن صحیح کرو یہ تمہارے لیے بہتر ہے اور اس کا انجام بہت اچھا ہے ۔

 


1۔ فدک خیبر کے پاس اور مدینہ سے تقریباً ۱۴۰ کلو میٹر کے فاصلے پر ایک آباد اور زرخیز زمین ہے، خیبر کے بعد حجاز کے یہودیوں کا یہ واحد سہارا شمار ہوتی تھی۔ (کتاب ”مراصد الاطلاع“ کے مادہ ”مادہ فدک“ کی طرف رجوع کریں) ۔
2۔ بزاز ابو بعلی، ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے یہ حدیث ابو سعید سے نقل کی ہے (کتاب میزان الاعتدال، ج۲، ص۲۸۸ اور کنز العمال، ج۲، ص۱۵۸ کی طرف رجوع کریں)
مجمع البیان میں اور اسی طرح درمنثور میں زیرِ بحث آیت کے ذیل میں شیعہ اور سنن طرق کے حوالے سے نقل کیا گیا ہے ۔
3۔ نور الثقلین، ج۳، ص۲۵۵-
انفاق و بخشش میں اعتدال چھ اہم احکام
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma