سوال ۵۱۸۔ کتاب ”تحریر الوسیلہ“ اور کتاب ”منہاج الصالحین“ اور اس طرح کی دیگر کتابوں میں، معاملہ سلف کی اس طرح تعریف کی گئی ہے: ”ابتیاع کلی موٴجل بثمن حال“ یہاں پر دو سوال پیدا ہوتے ہیں:
الف) ۔اگر کسی معاملہ میں جنس مشخص ہو کُلی نہ ہو اور قیمت کلی کے طور پر کسی کے ذمہ (کلی فی الذمہ) ہو اور دونوں (جنس اور قیمت) کے لین دین کا وقت ایک مہینہ کے بعد ہو، کیا شریعت کی رُو سے اس قسم کا معاملہ صحیح ہے؟ یہ بتادینا ضروری ہے کہ بازار میں اس قسم کے معاملات کافی مقدار میں انجام دیئے جاتے ہیں ۔
جواب: مشخص معاملہ سے مراد یہ ہے کہ جنس ابھی اس وقت موجود ہو اور اس کو دینے پر قدرت رکھتا ہو، اس صورت میں اگر قیمت ادا کرنے کی وجہ سے جنس کو روکے رہے تو کوئی اشکال نہیں ہے اور اس طرح کے موقعوں پر بہتر یہ ہے کہ بیعانہ کے عنوان سے کچھ رقم پہلے سے ادا کردی جائے ۔
ب) ۔مذکورہ تعریف میں جملہٴ ”ابتیاع کلی“ آیا ہے جس میں بظاہر کلی سے مراد ”کلی فی الذمہ“ ہے کیا ”کلی فی المعین“ یہاں پر ”کلی فی الذمہ“ کا حکم رکھتی ہے ۔ یا شخصی کا حکم رکھتی ہے؟
جواب: ”کلی فی المعین“ (معین میں کلی)، عین شخصی کا حکم رکھتی ہے ۔
سوال ۵۱۹۔ کوئی آدمی کسی ایسے پلازے میں تیسری منزل کے ایک فلیٹ کو جو ابھی تعمیر نہیں ہوا ہے لیکن اس کا نقشہ بن چکا ہے، دوسرے شخص کو فروخت کردیتا ہے، برائے مہربانی درج ذیل سوالوں کے جواب عنایت فرمائیں:
الف)۔کیا یہ معاملہ صحیح ہے؟
جواب: اگر نقشہ، سازوسامان اور اس کے تمام صفات اور امتیازات معین ہوجائیں، تب کوئی حرج نہیں ہے لیکن ان چیزوں کے معین کئے بغیر جائز نہیں ہے ۔
ب)۔ اگر باطل ہو، تو کیا کسی عقد یا لازم معاہدہ کے عنوان کے تحت اس کام کو انجام دیا جاسکتا ہے؟