سوال ۴۸۶۔ سیاسی شور شرابا جو مختلف نشستوں میں بیان ہوتا رہتا ہے اور جان بوجھ کر یا سمجھے بغیر ان باتوں کو لوگ اس کی یا اُس کی طرف منسوب کردیتے ہیں، کیا یہ بھی غیبت میں شمار ہوتا ہے؟
جواب: اڑی ہوئی باتوں کی ایک دوسرے کی طرف نسبت دینا، غیبت سے بڑھ کر ہے، ہاں اگر پوشیدہ عیب کو آشکار کئے بغیر بیان کرے تو غیبت ہوتی ہے ۔
سوال ۴۸۷۔ اگر یہ کہا جائے کہ ”فلاں ادارہ یا کمپنی لوگوں پر ظلم کرتی ہے یا بہت زیادہ اشکال و اعتراضات کرتی ہے“ اور اسی طرح کے دیگر جملے کیا یہ باتیں بھی حرام ہیں؟
جواب: اگر ان کا ظلم آشکار ہو تو کوئی اشکال نہیں ہے ۔
سوال ۴۸۸۔ اگر غیبت کرنے والا اس شخص کو نہ جانتا ہو جس کی غیبت ہو رہی ہے لیکن غیبت سننے والا اس کو پہچانتا ہو، کیا اس کا شمار غیبت میں ہوگا؟ مثال کے طور پر کسی نے کسی دکان سے کوئی چیز خریدی ہے، کوئی دوسرا آدمی جو دکاندار کو نہیں جانتا، اس چیز کے عیب اور کمیاں بیان کردیتا ہے اور اس طرح کے جملہ کہتا ہے: ”وہ دکاندار دھوکہ باز ہے“، ”اس نے تجھے ٹوپی پہنا دی ہے“ کیا اس آدمی کا ایسا کرنا جائز ہے؟
جواب: جائز نہیں ہے مگر یہ کہ اس کا یہ عمل ظاہر، آشکار یا ظلم وزیادتی ختم کرنے کی غرض سے یا پھر مشورہ کے طور پر ہو ۔
سوال ۴۸۹۔ایسے موقعوں پر جہاں عقلائی مقصد درکار ہوتا ہے، جیسے دوسروں سے مشورہ کرنے کے موقعہ پر کسی شخص سے اپنی بدگمانی کا اظہار کریں؟ مثال کے طور پر کسی جگہ پر چوری یا کسی کا قتل ہوگیا ہے اور ہمارے نزدیک امکان ہو کہ فلاں آدمی چور یا قاتل ہوسکتا ہے، اس صورت میں چنانچہ جب پولیس ہم سے پوچھ تاچھ یا مشورہ کررہی ہو اس موقعہ پر یا ویسے ہی اس آدمی کی نسبت اپنی بدگمانی کا اظہار کردیں تو اس کا کیا حکم ہے؟