اس عالم ربانی نے اپنی ساری عمر ،بحرین کے دوسرے بزرگ علماء کے ساتھ مل کر اس ملک کے مسلمانوں کے حقوق کو حاصل کرنے میں خرچ کی اور ان کی سعی و کوشش کو کبھی بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔
علمائے دین اور حوزہ علمیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کا فکری اور ثقافتی مقابلہ کرے اور ہمیں ثابت کرنا چاہئے کہ یہ دشمنوں کے آلہ کار ہیں اور ان کے افکار ونظریات بھی اسلام کی برخلاف ہیں ۔
حال ہی میں عرب حکمرانوں کی طرف سے تعجب خیز بات جو سننے کو ملی ہے وہ یہ تھی کہ ان لوگوں نے ایک نشست میں حزب اللہ لبنان کو دہشت گرد گروہوں کا جزء قرار دیا ہے ، وہی حزب اللہ جو تمام عرب ممالک کے لئے بزرگ ترین افتخار ہے ۔
حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام کی شہادت کے موقع پر مدرسہ امیرالمومنین (ع) میںجمعرات سے اتوار تک چار روزہ مجلس عزاء کا اہتمام کیا گیا ہے ۔
میں خداوندعالم سے دعاگو ہوں کہ وہ مسئولین کوتوفیق عنایت فرمائے کہ وہ پہلے سے بہتر عمل کریں اور لوگوں کی مشکلات کو دور کرنے کی کوشش کریں ۔
یہ کتاب جیسا کہ اس کے نام سے معلوم ہے کہ اس کو بحار الانوار سے منتخب کیا گیا ہے اور اس کا انتخاب بہت ہی عالمانہ اور مدبرانہ ہے اور یہ علامہ مجلسی (رحمة اللہ علیہ) کی ارزشمند کتاب بحار الانوار سے ماخوذ ہے ۔
تمام مسئولین ، لوگوں کی قدر کو پہچانیں اور ان کی مشکلات کو حل کرنے کی کوشش کریں ، ان ریلیوں میں لوگوں کا حاضر ہونا اسلام اور انقلاب کے دشمنوں کی آنکھوں میں کانٹا ہے اور اسلامی انقلاب کے چاہنے والوں کی امیدوں کیلئے ایک وسیلہ ہے ۔
میں امید کرتا ہوں کہ آپ کے اس سفر سے دونوں مراکز میں زیادہ سے زیادہ نزدیکی اور اتحاد قائم ہوگا اور ہم خوشحال ہیں کہ آپ صلح و عدالت کو اہمیت دیتے ہو اور یہ وزارت خانہ بھی اسی ہدف کو مدنظر رکھتے ہوئے بنایا گیا ہے ۔
ہماری عقل و روح میں حضرت عالی کی وہ بلند و بالا ہمت و کوشش ہمیشہ باقی رہے گی جس میں محبت و بخشش کی نشانیاں پائی جاتی ہیں اور ایسا نور جو آپ کی روح سے ساطع ہوتا ہے ۔
اگر ان فتنوں اور سازشوں کی آگ آج خاموش ہوجائے تو تکفیری تحریکوں کے جرائم سے حاصل شدہ نقصانات اور خرابیوں کی تلافی کرنے میں دسیوں سال لگ جائیں گے۔
ایک جملہ میں یہ کہنا ضروری ہے کہ تکفیر کا نظریہ ، عقل ، نص اور قرآن کریم کے برخلاف ہے اور اسلامی بزرگ علماء کے لئے ضروری ہے کہ اس تکفیر کی جڑوں کو صحیح منطق کے ذریعہ قطع کریں اور جوانوں کو ان کی طرف مجذوب ہونے سے روکیں ۔
٢٨ جنوری ٢٠١٦ کو ''مسلمین اور تمام انسانیت کو تکفیری تحریکوں سے لاحق خطرات'' کے سلسلہ میںدوسری کانفرس منعقد کی گئی اور اس میں بہت سے شیعہ اور سنی علماء کو دعوت دی گئی اور شدت پسند لوگوں کی مذمت کرتے ہوئے کچھ اصول و قوانین معین کئے گئے
مسلمین اور تمام انسانیت کو تکفیری تحریکوں سے لاحق خطرات کے سلسلہ میں منعقد ہونے والی دوسری کانفرنس کچھ دیر پہلے آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی کی تشریف آوری سے شروع ہوئی ۔
دنیا جانتی ہے کہ یمن کے لوگ مظلوم ہیں اور آل سعود اس قوم پر بے گناہ ظلم کر رہی ہے ، لیکن تیل کے ڈولر ، سیاسی حکمرانوں اور بین الاقوامی مراکز کو بولنے کی اجازت نہیں دیتے ۔
سعودی عرب کی ظالم حکومت کو جان لینا چاہئے کہ اس شیخ کی شہادت کے نتیجہ میں تمہیں بہت بڑا نقصان اٹھانا پڑے گا اور آخرکار خداوندعالم کے انتقام کا ہاتھ اس کے عدل کی آستین سے باہر آئے گا اور ان حملہ کرنے والوں اور قتل کرنے والوں کو مزہ چکھائے گا ۔
ہمارے ایسے دشمن بھی موجود ہیں جو پوری دنیا میں ہماری ترقی کو روکنا چاہتے ہیں ،لیکن انشاء اللہ وہ اپنے غلط اہداف میں کامیاب نہیں ہوں گے ۔
ایک دن وہ آئے گا کہ یہی لوگ شرمندگی کے ساتھ واپس آئیں گے اور ڈپلومیٹک روابط کو برقرار کرنے کی درخواست کریںگے ، شجاع اور بے گناہ عالم دین کو شہید کرنے پر پوری دنیا نے ان کی مذمت کی ہے ۔
شیخ نمر نے اسلحہ نہیں اٹھایا ، ان کا اسلحہ ان کی زبان اور ان کا قلم تھا ، شیخ نمر کی گردن مارنے اور ان کے لاشہ کو سولی پر چڑھانے کا جو کام وہی تھا جو داعش کے لوگ انجام دیتے ہیں ۔
ہم اس ہولناک جرم کی شدید مذمت کرتے ہیں اور یقینا اس کا انتقام لیا جائے گا اور ہم جانتے ہیں کہ آل سعود نے عراق ، شام اور یمن میں اپنی شکست کا انتقام اس طرح لیا ہے ۔
میں ہمیشہ آپ کو پرامید نگاہ سےدیکھتا تھا اور دیکھتا ہوں، آج بھی آپ سے امید رکھتا ہوں کہ آپ ٹھوس طریقے سے اس انحراف کا سد باب کریں گے اور الازہر کی ساکھ کو دشمنان اسلام ، وہابیوں اور تکفیریوں کے ہاتھوں داؤ پر لگنے سے بچائیں گے اس لیے کہ ممکن ہے آپ کے اطراف میں کچھ ایسے مفتن قسم کے افراد موجود ہوں جو آپ کو مختلف وسوسوں کے ذریعے خط اعتدال سے منحرف کر دیں.
تکفیری گروہ مسلمانوں کا خون بہا رہے ہیں اور اسلامی ممالک کی جڑوں کو کاٹ رہے ہیں ، دشمن ، مسلمانوں کو ایک دوسرے سے لڑا کر خود تماشہ دیکھ رہے ہیں، تکفیریوں نے مسلمانوں کی صفوف میں دشمنی ایجاد کردی ہے اور دنیا میں اسلام کو برعکس ظاہر کر رہے ہیں اور اسلام کو سخت اور خونریزی کے دین کے عنوان سے پہچنوا رہے ہیں ۔
حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی نے پوری دنیا کے مسلمانوں کیلئے تکفیری گروہوں کے خطرات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تاکید فرمائی کہ اس خطرہ کو کامل طور پر صرف فکری اور ثقافتی مقابلہ کے ذریعہ دور کیا جاسکتا ہے اور ضروری ہے کہ اس سلسلہ میں میڈیا اپنا بنیادی کردار ادا کرے ۔
تکفیریوں کا خطرہ انحرافی مکتب اور تفکر سے وجود میں آیا ہے اور علمائے اسلام کو چاہئے کہ وہ اس فکر کی اصل و اساس کو ختم کردیں اور سب سے تعجب کی بات تو یہ ہے کہ آل سعود کی کتابوں اور نصاب تعلیم میں تکفیری نظریوں کو پڑھایا جاتا ہے ۔
حال ہی میں شیخ الازہر نے جو کہ اتحاد اور تقریب مذاہب کی طرف مائل ہیں ، شیعوں کے خلاف بہت سخت تقریر کی ہے اور اس کی اصل وجہ بعض ٹی وی چینل بتائی ہے جو دوسرے مذاہب کے مقدسات کی توہین کرتے ہیں ۔
بین الاقوامی برادری نے پیرس کے حادثہ میںاس قدر عکس العمل ظاہر کیا تھا لہذا اس بڑے جرم کے سامنے انہوں نے کیا عکس العمل ظاہر کیا ہے اور آئندہ کیا کریںگے ؟البتہ بے گناہ لوگوں کو جس جگہ بھی قتل کیا جائے اس کی مذمت ضروری ہے لیکن کیا یوروپ والوں کا خون مسلمانوں کے خون سے زیادہ قیمتی ہے؟
ہم اپنی شرعی ذمہ داری کی بنیاد پر اسلامی ملک آذربایجان کے حکمرانوں کو یاد دہانی کراتے ہیں کہ اپنے لوگوں کے دینی احساسات اور عواطف کا زیادہ سے زیادہ احترام کریں اور ان کے دینی حقوق کی رعایت کریں ۔
مجھے امید ہے کہ اسلامی ممالک کے مفتی اور بزرگ علمائے اسلام اس سلسلہ میں موثر قدم اٹھائیں گے اور ایسا کام کریں گے کہ قیامت کے روز خدا کی بارگاہ میں سرخرو ہوجائیں '' فَبَشِّرْ عِبادِ ، الَّذینَ یَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَیَتَّبِعُونَ أَحْسَنَہُ أُولئِکَ الَّذینَ ہَداہُمُ اللَّہُ وَ أُولئِکَ ہُمْ أُولُوا الْأَلْباب'' ۔
جنگ کی آگ صرف اسلامی ممالک میں محدود نہیں رہے گی ۔ آج کی دنیا ایک دہکدہ میں تبدیل ہوگئی ہے ،ایسا نہیں ہو سکتا کہ ایک جگہ بدامنی ہو اور دوسری جگہ امنیت اور چین وسکون ہو ، بلکہ پیرس میںدہشت گردی کے بعد پورے یوروپ میں وحشت پھیل گئی ہے ، البتہ اس کے شعلہ یوروپ اور غیر یوروپ کے دوسرے حصوں میں بھی جائیں گے ۔