شیطانوں کو اپنا سر پرست نہ بناؤ

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 12
سوره کهف / آیه 50 - 53 ۱۔ کیا شیطان فرشتہ تھا؟


شیطانوں کو اپنا سر پرست نہ بناؤ

 

قرآن میں کئی مقامات پر خلقتِ آدم(ع) کی داستان بیان ہوئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ فرشتوں نے انھیں سجدہ کیا مگر ابلیس نے حکمِ خدا کی مخالفت کی ۔ جیسا کہ ہم اشارہ کرچکے ہیں یہ تکرار ہمیشہ کسی مقصد کے پیش نظر ہے اور ہر موقع پر کوئی خاص نکتہ پنہاں ہوتا ہے ۔ اور یہ عین ممکن ہے کہ کسی ایک اہم واقعے کے مختلف پہلوہوں اور جب بھی اس واقعے کا ذکر ہو تو کوئی ایک پہلو ملحوظ نظ ہو ۔
گزشتہ مباحث میں مستکبر و مغرور دولت مندوں کے بارے میں ایک مثال بیان کی گئی ہے ۔ اس مثال میں تہی دست مستضعفین کے بارے میں ان کے خیالات بیان کیے گئے ہیں اور پھر ان کے انجام کی تصویر کشی کی گئی ہے ۔
در اصل روزِ اوّل سے غرور و تکبر ہی انحراف، کفر اور سر کشی کی بنیاد رہا ہے لہٰذا زیرِ بحث آیات میں ابلیس کا ذکر ہے کہ اُس نے حضرت آدم(ع) کو سجدہ کرنے سے انکار کردیا ۔ اس امر کا ذکر اس لیے کیا گیا ہے تاکہ ہم جان لیں کہ شروع ہی سے غرور و تکبر کفر و سرکشی کا سرچشمہ رہا ہے ۔ علاوہ ازیں اس داستان سے واضح ہوتا ہے کہ انحرافات کا باعث شیطانی وسوسے ہیں اور اس کے وسوسوں کے سامنے سر جھکا دینا کس قدر احمقانہ حرکت ہے کہ جس نے پہلے دن ہی سے ہماری دشمنی پر کمر باندھ رکھی ہے ۔
ارشاد ہوتا ہے: وہ دن یاد کرو کہ جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے نافرمانی کی ( وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِکَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلاَّ إِبْلِیسَ) ۔
اس استثناء سے ہو سکتا ہے یہ وہم پیدا ہو کہ ابلیس فرشتوں میں سے ہے حالانکہ فرشتے معصوم ہیں لہٰذا اس نے کیونکر سرکشی کی ۔ اس لیے ساتھ فرمایا گیا ہے: وہ جنّوں میں سے تھا اس لیے اپنے رب کی اطاعت سے نکل گیا (کَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ اٴَمْرِ رَبِّہِ) ۔
وہ فرشتوں میں سے نہیں تھا لیکن اللہ کی بندنگی، اطاعت اور قرب کی وجہ سے اس نے فرشتوں کی صف میں جگہ پالی تھی ۔ یہاں تک کہ شاید ان کا استاد ہوگیا تھا لیکن لمحہ بھر کے غرور، تکبر نے اسے ایسا گرایا کہ اُس کا تمام تر روحانی مقام جاتا رہا اور بارگاہِ خدا سے ٹھکرادیا گیا اور وہ خدا کے نزدیک سب سے بڑھ کر قابلِ نفرت ہوگیا ۔
اس کے بعد فرمایا گیا ہے: کیا اِس کے باوجود تم میری بجائے اسے اور اس کی اولاد کو اپنا سرپرست بناتے ہو (اٴَفَتَتَّخِذُونَہُ وَذُرِّیَّتَہُ اٴَوْلِیَاءَ مِنْ دُونِی) ۔حالانکہ وہ تمھارے دشمن ہیں (وَھُمْ لَکُمْ عَدُوٌّ) ۔
اُس نے تمھاری گمراہی اور تباہی کے لیے قسم کھارکھی ہے اور تمھارے باپ کے بارے میں اس کی دشمنی پہلے روز ہی آشکار ہوگئی تھی ۔
خدا کے بدلے شیطان اور اس کی اولاد کو اپنانا کتنا بُرا ہے (بِئْسَ لِلظَّالِمِینَ بَدَلًا) ۔(۱)
واقعاً کس قدر بُری بات ہے کہ انسان عالم و آگاہ، رحیم و مہربان اور فیض رساں خدا کو چھوڑ کر شیطان اور اس کے حواریوں کو اپنا لے ۔ یہ بدترین انتخاب ہے، کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک عقلمند انسان ایسے کو اپنا ولی، راہنما اور سہارا سمجھ لے کہ جس نے روزِ اول سے اس کی دشمنی پر کمر باندھ رکھی ہے ۔
اگلی آیت میں اس غلط خیال کے ابطال کے لیے ایک اور دلیل پیش کی گئی ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے: آسمانوں اور زمین کی خلقت کے وقت ہم نے ابلیس اور اولادِ ابلیس کو نہیں بلایا یہاں تک کہ ان کی اپنی تخلیق کے وقت بھی انھیں شریک نہیں کیا (مَا اٴَشْھَدْتُھُمْ خَلْقَ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ وَلَاخَلْقَ اٴَنفُسِھِمْ) ۔ کیونکہ اِس عالم کی خلقت میں ان کی مدد درکار تھی اور نہ اُنھیں آگاہ کیا جانا ضروری تھا ۔ لہٰذا جس کا اس عالم کی آفرینش سے کوئی تعلق ہے اور نہ اپنی تخلیق میں کوئی دخل ہے اور نہ رموزِ خلقت کی جسے کچھ خبر ہے وہ ولایت و پرستش کے لائق کیسے ہوسکتا ہے اور اصولی طور پر اس کے بس میں ہے ہی کیا ؟ وہ تو ایک ناتوان موجود ہے یہاں تک کہ خد اپنے مسائل سے نا آگاہ ہے تو پھر وہ دوسروں کی کیا رہبری کرسکتا ہے اور دوسروں کو مشکلات سے کیا نجات دلا سکتا ہے؟
آخر میں مزید فرمایا گیا ہے: میں ہرگز گمراہ کرنے والوں کو اپنا مددگار نہیں بناتا(وَمَا کُنتُ مُتَّخِذَ الْمُضِلِّینَ عَضُدًا) ۔یعنی خلقت تو وستی اور ہدایت کی بنیاد پر ہے لہٰذا جس کا کام ہی گمراہی کرنا ہو اس نظامِ خلقت کو چلانے میں اس کا دخل نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ تو آفرینش وہستی کے اس نظام کی بالکل مخالفت سمت میں گامزن ہے تو خرابیاں پیدا کرتا ہے اور ویرانیاں لاتا ہے نہ کہ اصلاح، تکامل اور ارتقاء کے لیے کچھ کرتا ہے ۔
زیرِ بحث آخری آیت ایک مرتبہ پھر خبردار کرتی ہے: اس وقت کا سوچو جب اللہ فرمائے گا کہ جنھیں تم میرا شریک خیال کرتے تھے انھیں اب اپنی مدد کے لیے آواز دو (وَیَوْمَ یَقُولُ نَادُوا شُرَکَائِی الَّذِینَ زَعَمْتُمْ) ۔ ایک عمر تم ان کا دم بھرتے رہے اور ان کے آستانے پر سجدہ کرتے رہے ۔ اب جب کہ تمھیں عذاب کی موجوں نے گھیر لیا ہے تو انھیں آواز دو کہ ایک لمحے کے لیے تو تمھاری مدد کو آجائیں ۔
وہ لوگ گویا انہی دنیاوی افکار کے مطابق ”انھیں پکاریں گے لیکن یہ خیالی اور جعلی معبود انھیں جواب تک نہیں دیں گے“ چہ جائیکہ مدد کو آئیں (فَدَعَوْھُمْ فَلَمْ یَسْتَجِیبُوا لَھُمْ) ۔اور ان کے درمیان ہم مرکز ہلاکت بنائیں گے (وَجَعَلْنَا بَیْنَھُمْ مَوْبِقًا) ۔(2)
زیرِ بحث آخری آیت میں شیطان کے پیرو کاروں اور مشرکین کا انجام واضح کیا گیا ہے: اس دن گنہگار جہنم کی آگ دیکھیں گے (وَرَاٴَی الْمُجْرِمُونَ النَّارَ) ۔ وہ آگ کہ جس کے بارے میں انھیں کبھی یقین نہ آتا تھا ان کے آنکھوں کے سامنے ہوگی ۔ اس موقع پر انھیں اپنی گزشتہ غلطیوں کا انداز ہوگا ”اور اب انھیں یقین آئے گا کہ وہ آگ میں ڈالے جائیں گے اور آگ ان پر ڈالی جائے گی “(فَظَنُّوا اٴَنَّھُمْ مُوَاقِعُوھَا) ۔ پھر انھیں یقین آجائے گا کہ اب اس سے بچ نکلنے کی کوئی راہ نہیں ہے (وَلَمْ یَجِدُوا عَنْھَا مَصْرِفًا) ۔
نہ ان کے خود ساختہ معبود ان کی فریاد کو پہنچیں گے نہ شفاعت کرنے والوں کی شفاعت ان کے بارے میں موٴثر ہوگی اور نہ جھوٹ، زر یا زور سے وہ جہنم کی آگ سے بچ سکیں گے، وہ آگ کہ جوان کے اعمال و کردار نے ہکائی ہے ۔
اس نکتے کی طرف توجہ ضروری ہے کہ ”ظنوا“ اگر چہ”ظن“ کے مادہ سے ہے لیکن یہا ں اور بہت سے دیگر مواقع پر یہ لفظ یقین کے معنی میں استعمال ہواہے اسی لیے سورہٴ بقرہ کی آیت ۲۴۹ میں حضرت طالوت(ع) کے ساتھی حقیقی مومنین اور ثابت قدم مجاہدین کہ جوجابروظالم جالوت کے خلاف جنگ کے لیے نکلے، ان کے بارے میں ہے:
<قَالَ الَّذِینَ یَظُنُّونَ اٴَنَّھُمْ مُلَاقُو اللهِ کَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِیلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً کَثِیرَةً بِإِذْنِ اللهِ
جو اللهسے ملاقات پر ایمان رکھتے انھوں نے کہا کا ایسا بہت مرتبہ ہوا ہے کہ چھوٹے سے( باایمان ) گروہ نے بڑے گروہ پر کا میابی حاصل کی ہے ۔
ضمناً لفظ ”مواقعوھا “ کہ جو ”مواقعقہ “کے مادہ سے ہے ایک دوسرے پر واقع ہونے کے معنی میں ہے ، اس طرف اشارہ ہے کہ وہ بھی آگ میں گریں گے اور آگ بھی پر گرے گی، وہ بھی آگ میں داخل ہوں گے اور آگ ان پر گرے گی، وہ بھی آگ میں داخل ہوں گے اور آگ بھی ان میں داخل ہوگی ۔ کیونکہ قرآن کی دوسری آیات میں ہے کہ:
گنہگار خود آگ کا ایندھن ہیں ۔(بقرہ۔۲۴)

 


۱۔ ”بَدَلًا“ترکیب نحوی کے لحاظ سے تمیز ہے اور ”بِئْسَ“کا فاعل شیطان اور اس کا لاؤ لشکر ہے یا شیطان اور اس کے لاؤ لشکر کی عبادت فاعل ہے-
2۔ ”موبق“ ”وبوق“ (بروزن ”نبوع“)کے مادہ سے ہے کہ جو ہلاکت کے معنی میں ہے اور ”موبق“ جائے ہلاکت کو کہتے ہیں ۔
سوره کهف / آیه 50 - 53 ۱۔ کیا شیطان فرشتہ تھا؟
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma