زندگی کی ابتداء و انتہا کے لئے ایک مثال

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 12
سوره کهف / آیه 45 - 46 ۱۔ دنیا کی ناپائیدار خوشنمایاں


زندگی کی ابتداء و انتہا کے لئے ایک مثال

کزشتہ آیات میں مادی دنیا کی نا پائدار نعمتوں کے بارے میں گفتگو تھی اور اس حقیقت کا ادراک چونکہ ۶۰ یا ۸۰ سال کی عمر میں عام افراد کے لیے آسان نہیں ہے لہٰذا قرآن نے زیرِ نظر آیت میں اس کے لیے ایک بڑی زندہ اور منہ بولتی مثال پیش کی ہے ۔ یہ وہ مثال ہے جو لوگ اپنی زندگی میں عموماً دیکھتے رہتے ہیں ۔ یہ مثال مغرور و غافل افراد کو بیار کرنے کے لیے بیان کی گئی ہے ۔
ارشاد ہوتا ہے: حیاتِ دنیا کے لیے ان سے آسمان سے برسنے والے بارش کے قطروں کی مثال بیان کر (وَاضْرِبْ لَھُمْ مَثَلَ الْحَیَاةِ الدُّنْیَا کَمَاءٍ اٴَنزَلْنَاہُ مِنَ السَّمَاءِ) ۔
بارش کے یہ حیات بخش قطرے پہاڑوں،صحراوٴں او رمیدانوں میں گرتے ہیں ۔ زمین کے اندر موجودہ دانے جن میں صلاحیت ہوتی ہے ان میں ان قطروں سے جان پڑجاتی ہے اور وہ اپنی زندگی کا ارتفائی سفر شروع کردیتے ہیں ۔
دانے اگرچہ سخت ہوتے ہیں ان کی جلد مضبوط ہوتی ہے لیکن وہ بارش کی نرمی کے ساتھ نرم ہو جاتے ہیں ۔ ان میں سے پودے پھوٹتے ہیں اور آخر کار شاخیں مٹی سے نکالتی ہیں ۔ سورج چمکتا ہے، بادِ نسیم چلتی ہے، زمین میں مواد بھی مدد کرتا ہے اور یہ نورس شاخیں ان تمام عوامِل حیات سے قوت پاکر رشد و نمو کا سفر جاری رکھتی ہیں ۔ اس طرح سے ”کچھ مدت بعد پودے ایک دوسرے سے مِل جُل جاتے ہیں ایسے کہ جیسے گلے مل رہے ہوں“ (فَاخْتَلَطَ بِہِ نَبَاتُ الْاٴَرْضِ) ۔
کوہ و صحرا میں زندگی لہلہانے لگتی ہے ۔ پھول اور پھل شاخوں کو زینت بخشے ہیں تو ہر طرف خوشیاں اور مسرتیں بکھر جاتی ہیں ۔ لیکن یہ دلربا منظر زیادہ دیر نہیں رہتا ۔ پھر بادِ خزاں چلنے لگتی ہے ۔ موت کی گرد اُن کے سروں پر آپڑتی ہے ۔ ہوا خنک ہوجاتی ہے اور پانی کم ہوجاتا ہے ”زیادہ دیر نہیں گزرتی کہ وہ مسکراتے ہوئے سر سبز و شاداب پودے پژمردہ اور بے فروغ شاخوں اور پتوں میں بدل جاتے ہیں“(اٴَصْبَحَ ھَشِیمًا) ۔(۱)
وہ پتے کہ جنھیں فصلِ بہار کی تیز ہوائیں بھی جدا نہیں کرسکتی تھیں آج اس قدر بے جان ہوگئے ہیں کہ ”ہوا کے جھونکے انھیں جدا کرکے اِدھر اُدھر لیے پھرتے ہیں“(تَذْرُوہُ الرِّیَاحُ) ۔(۲)
جی ہاں! خدا ہر چیز پر قادر تھا اور قادر ہے (وَکَانَ اللهُ عَلیٰ کُلِّ شَیْءٍ مُقْتَدِرًا) ۔
مال و ثروت ارو افرادی قوت کہ جو دنیاوی زندگی کے دو اصلی رکن ہیں، ان کے بعد اگلی آیت میں فرمایا گیا ہے: مال و اولاد حیاتِ دنیا کی زینت ہیں (الْمَالُ وَالْبَنُونَ زِینَةُ الْحَیَاةِ الدُّنْیَا) ۔
یہ حیات دنیا کے شجر کی شاخوں کے پھول ہیں جن کی عمر بہت کم ہے ۔ راہِ خدا میں رنگِ جاوداں نہ پالیں تو یہ بہت بے اعتبار ہیں ۔
در حقیقت اس آیت میں دنیاوی زندگی کے سرمائے کے و اہم ترین حصوں کی نشاندہی کی گئی ہے ۔ دنیاوی زندگی کی باقی چیزیں انہی دو سے وابستہ ہیں ۔ ایک اقتصادی قوت ہے اور دوسری افرادی قوت۔ ہر مادی مقصد تک پہنچنے کے لیے حتماً ان دو قوتوں کو جمع کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ خصوصاً گزشتہ زمانے میں جس شخص کے زیادہ بیٹے ہوتے تھے وہ اپنے آپ کو زیادہ قوی محسوس کرتا تھا ۔ گزشتہ آیات میں بھی جس بے ایمان دولت مند کا ذکر کیا گیا ہے وہ اپنے مال اور افرادی قوت کا ذکر دوسروں کے سامنے بڑے غرور سے کرتا تھا اور کہتا تھا:
”انا اکثر منک مالاً و اعز نفراً“
”میرے پاس تجھ سے زیادہ مال اور زیادہ آدمی ہیں“۔
پہلے ”بنون“ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جو ”ابن“کی جمع ہے جس کا معنی ہے بیٹا ۔ کیونکہ وہ بیٹیوں کو انسانی سرمایہ اور فعال قوت سمجھتے تھے نہ کہ بیٹیوں کو ۔
بہر حال جیسا کہ ہم نے دیکھا ہے باغات، کھیتیاں اور پانی کے چشمے چند لمحوں میں نابود ہوگئے جو ظاہراً بہت مستحکم دولت تھی ۔ اولاد کی زندگی اور سلامتی بھی ہمیشہ خطرے میں ہونے کے علاوہ بعض اوقات وہ دشمن ہوجاتی ہے اور مددگار ہونے کی بجائے تکلیف رساں ہوجاتی ہے ۔
اس کے بعد مزید فرمایا گیا ہے: باقیاتِ صالحات (پائیدار اور شائستہ کاموں اور نیکیوں کا)ثواب تیرے پروردگار کے ہاں بہتر اور زیادہ امید بخش ہے

 (وَالْبَاقِیَاتُ الصَّالِحَاتُ خَیْرٌ عِنْدَ رَبِّکَ ثَوَابًا وَخَیْرٌ اٴَمَلًا) ۔
بعض مفسرین نے ”باقیات الصالحات“کا بالکل محدود مفہوم بیان کیا ہے ۔ مثلاً بعض نے کہا ہے کہ اس سے مراد نمازِ پنجگانہ ہے ۔کچھ نے کہا ہے کہ اس سے یہ ذکر مراد ہے:
”سبحان اللّٰہ و الحمد للّٰہ ولا الٰہ الا اللّٰہ و اللّٰہ اکبر“
اسی طرح بعض لوگوں نے دیگر محدود مفاہیم بیان کیے ہیں لیکن واضح ہے کہ اس تعبیر کا مفہوم اس قدر وسیع ہے کہ ہر صالح اور اچھا عقیدہ، نظریہ، گفتار اور کردار شامل ہے کہ جو باقی رہ جاتا ہے اور جس کے اثرات و برکات لوگوں پر اور معاشرے پر مرتب ہوتے ہیں ۔
یہ جو ہم دیکھتے ہیں کہ بعض روایات میں اس سے نمازِ تہجد یا موٴدتِ اہلِ بیت مراد لی گئی ہے یہ بلاشبہ واضح مصادیق کا بیان ہے اور ان روایات سے یہ مراد نہیں کہ باقیات الصالحات کا مفہوم ان امور میں منحصر ہے خصوصاً ان روایات میں لفظ ”مِن“ استعمال ہوا ہے جو اِن کے ایک مفہوم کے ایک پہلو پر دلالت کرتا ہے ۔ مثلاً ایک روایت میں امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ(ع) نے فرمایا:
”لا تستصغر مودتنا فانھا من الباقیات الصالحات“
”ہماری محبت و مودت کو کم تر نہ سمجھو کہ یہ بھی باقیات الصالحات میں سے ہے“۔
ایک اور حدیث میں پیغمبرِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا:
تسبیحاتِ اربعہ پڑھنے میں تنگدلی نہ دکھاؤ کیونکہ یہ باقیات الصالحات میں سے ہے ۔
یہاں تک کہ وہ نا پائیدار اموال اور اولاد کہ جو کبھی فتنے اور آزمائش کا باعث ہوتے ہیں اللہ کی راہ میں ہوں تو وہ بھی باقیات الصالحات کے رنگ میں رنگ جاتے ہیں کیونکہ خدا کی پاک ذات جاوداں ہے اور جو چیز اس کے لیے اور اس کی راہ میں ہو وہ جاوداں ہوجاتی ہے ۔

 

 


 

۱۔ ”ھشیم“”ھشم“کے مادہ سے توڑنے کے معنی میں لیا گیا ہے اور یہاں ایسی خشک گھاس پھونس کے لیے استعمال ہوا ہے کہ جسے توڑدیا گیا ہو ۔
۲۔ ”تذروہ“مادہ ”ذرو“سے منتشر کرنے اور بکھرنے کے معنی میں ہے ۔
سوره کهف / آیه 45 - 46 ۱۔ دنیا کی ناپائیدار خوشنمایاں
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma