۳۔ اس واقعے کے تربیتی اور تعمیری پہلو

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 12
۲۔”غار“ کہاں ہے؟سوره کهف / آیه 28 - 31


۳۔ اس واقعے کے تربیتی اور تعمیری پہلو:


اس عجیب و غریب تاریخی واقعے کو قرآن نے تمام طرح کے خرافات اور بے بنیاد باتوں سے پاک کرکے ٹھیک ٹھیک بیان کردیا ہے ۔ یہ واقعہ بھی قرآن کے دیگر تمام واقعات کی طرح تربیتی اور تعمیری نکات سے معمور ہے ۔ تفسیر بیان کرتے ہوئے ہم نے ان نکات کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ ایک مرتبہ مجموعی طور پر ان نکات کی طرف اشارہ کیا جائے تاکہ ہم قرآن کے اصلی مقصد کے زیادہ قریب ہوجائیں ۔
الف۔ اس داستان کا پہلا سبق تقلید کے بند توڑنا ہے ۔ اس داستان کا تقاضا ہے کہ فاسد ماحول کے رنگ میں نہیں رنگے جانا چاہیے ۔ جیسا کہ ہم نے دیکھا ہے کہ معاشرے کی اکثریت گمراہ تھی لیکن اس کے مقابلے میں جوانمرد اصحابِ کہف نے اپنی آزادی فکر کو گنوایا نہیں اور یہی امران کی نجات و فلاح کا سبب بن گیا ۔
اصولی طور پر انسان کو معاشرہ ساز ہونا چاہیے نہ کہ اس کی برائیوں کا شریکِ کار سست، کمزور اور بے حیثیت لوگ وہ ہوتے ہیں جو کہتے ہیں:
خواہی نشوی رسوا ہم رنگِ جماعت شو
اگر تم ذلیل نہیں ہونا چاہتے تو جیسے لوگ ہیں ویسے ہوجاؤ۔
جبکہ اہلِ ایمان اور حریتِ فکر رکھنے والے افراد کہتے ہیں:لوگوں کا ہم رنگ ہونا تیرے لیے باعثِ ننگ و عار ہے ۔
ب۔ اس عبرت انگیز واقعے کا دوسرا سبق بُرے ماحول سے ہجرت اختیار کرنا ہے ۔ ان کا شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ تھا، خوشحال زندگی تھی، مادی نعمتیں ان کے لیے فراواں تھیں ان کے گھر بھرے پُرے تھے ۔ ایسی زندگی کو انھوں نے ٹھکرادیا اور اس غار میں جا ڈیرہ کیا کہ جہاں طرح طرح کی محرومیاں تھیں ۔ یہ سب کچھ انھوں نے اس لیے کیا تاکہ اپنے ایمان کی حفاظت کرسکیں اور ظلم و جور اور کفر و شرک کی تقویت کا باعث نہ بنیں ۔ (1)
ج۔ اس داستان کا تیسرا درس تقیہ ہے ۔ وہ تقیہ کہ جو تربیتی ، اصلاحی اور تعمیری ہے ۔ وہ اس بات پر زور دیتے تھے کہ شہر والوں کو ان کے بارے میں پتہ نہ چلے اور وہ اسی طرح پروہ اسرار میں رہ جائیں کہ مبادا ان کے جان بے کار ہیں ضائع چلی جائے یا انھیں جبری طور پر اس بُرے ماحول کی طرف پلٹا دیا جائے ۔
ہم جانتے ہیں کہ تقیہ اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ انسان اپنے حقیقی مقام یا موقف کو ایسے مقام پر مخفی رکھے کہ جہاں ظاہر کرنا بے نتیجہ ہوتا کہ مقابلے کے لیے اور دشمن پر ضرب لگانے کے موقع کے لیے اپنی قوت کو محفوظ رکھا جاسکے ۔(2)
د۔ اللہ کی راہ میں سب انسان برابر ہیں ۔ وزیرا اور چرواہا اکھٹے ہیں ۔ بلکہ ان کی حفاظت کرنے والا کُتّا بھی ان کے ساتھ ہے ۔ یہ بھی اس واقعے کا ایک درس ہے ۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ مادی دنیا کے امتیازات اور مقام و منصب راہِ حق کے مسافروں کو ایک وسرے سے جدا نہیں کرتے اور راہِ توحید تمام انسانوں میں مساوات کا راستہ ہے ۔
ھ۔ اس داستان کا ایک درس یہ بھی ہے کہ مشکلات کے مواقع پر اللہ کی طرف اس کے بندوں کی تعجب انگیز طور پر امداد کی جاتی ہے ۔ ہم نے دیکھا ہے کہ کیسے، جب معاشرے کے حالات ناساز گار تھے تو اللہ تعالیٰ نے اصحابِ کہف کو سالہا سال سُلائے رکھا اور جب حالات سازگار ہوئے تو انھیں بیدار کر دیا ۔ اور لوگوں نے ان کا توحید پرستوں کی حیثیت سے احترام کیا ۔ نیز ہم نے دیکھا کہ کس طرح اس طویل مدت میں ان کے جسموں کو ہر قسم کے نقصان سے محفوظ رکھا اور ان کے اندر ایک ایسا رعب پیدا کردیا کہ جس نے حملہ آوروں کے مقابلے میں ڈھال بن کر ان کی حفاظت کی ۔
و ۔ اصحابِ کہف نے ان سخت ترین حالات میں بھی ہمیں پاکیزہ غذا کھانے کا درس دیا کیونکہ جسم انسان کی غذا کا انسانی روح، فکر اور دل پر گہرا اثر ہوتا ہے ۔ انسان جب حرام اور ناپاک غذا سے آلودہ ہوتا ہے تو وہ راہِ خدا سے دور ہوجاتا ہے ۔
ز۔ مشیتِ خداپر بھروسہ اور اعتماد ضروری ہے ۔ اس کے لطف و کرم سے مدد طلب کرنا اور آئندہ کے امور کے لیے انشاء اللہ کہنا ۔ یہ درس بھی ہم نے اس کے ضمن میں سیکھا ہے ۔
ح۔ ہم نے دیکھا ہے کہ قرآن انھیں جوانمرد (فتیة)کہہ کریاد کررہا ہے حالانکہ بعض روایات کے مطابق عمر کے لحاظ سے وہ جوان نہیں تھے ۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ پہلے وہ اس دَور کے ظالم بادشاہ کے وزیر تھے تو ماننا پڑے گا کہ وہ اچھی خاصی عمر کے تھے ۔ یہ امر نشاندہی کرتا ہے کہ قرآن جوانی کو جوانمردی کے اصول پر دیکھتا ہے یعنی قرآن پاکیزگی، جراٴت و ایثار کے حوالے سے جوانی کو ماپتا ہے ۔
ط۔ اس واقعے سے ایک اور اصلاحی سبق یہ ملتا ہے کہ مخالفین سے سابقہ پڑے تو ضروری ہے کہ بحث منطقی بنیاد پر کی جائے ۔ کیونکہ جب اصحاب کہف اس شرک آلودہ ماحول پر تنقید کرتے تو منطقی دلائل کا سہارا لیتے ۔ اس کے کچھ نمونے ہم نے اسی سورہ کی آیات ۱۵ اور ۱۶ میں دیکھے ہیں ۔
اصولی طور پر تمام انبیاء اور ہادیانِ الٰہی کا طریقِ کار یہ تھا کہ وہ مخالفین سے مقابلے اور آمنا سامنا ہونے کی صورت میں آزاد اورمنطقی بنیاد پر گفتگو کرتے تھے ۔ طاقت وہ صرف اسی صورت میں استعمال کرتے جب فتنہ و فساد کے خاتمے کے لیے منطقی بحث موٴثر نہ رہتی تھی یا یہ کہ جب مخالفین منطقی گفتگو میں رکاوٹ بن جاتے تھے ۔
ی ۔ دسواں درس اس داستان کا معادِ جسمانی اور قیامت کے دن انسان کی حیاتِ نو کے امکان کا ہے ۔ اس تشریح آئندہ مباحث میں تفصیل کے ساتھ آئے گی ۔
ہم یہ نہیں کہتے کہ اس داستان کے تربیتی، اصلاحی اور تعمیری نکات انھیں میں منحصر ہیں لیکن ان دس درسوں میں سے ایک بھی ہو تو ایسی داستان بیان کرنے کے لیے کافی ہے چہ جائیکہ یہ سب موجود ہوں ۔
بہر حال مقصد خواہ مخواہ کی مشغولیت اور داستان گوئی نہیں ہے بلکہ مقصد یہ ہے کہ انسانوں کو مجاہد، بہادر، یا ایمان، آگاہ اور شجاع بنانا ہے اور ان کی اصلاح کرنا ہے ۔ اس کے لیے دیگر تبلیغی طریقوں کے علاوہ ایک یہ ہے کہ انسان کی گزشتہ تاریخ سے حقیقی نمونے پیش کیے جائیں ۔
اصحابِ کہف کا واقعہ علمی اعتبار سے
یہ بات مسلّم ہے کہ اصحاب ِ کہف کا واقعہ کسی گزشتہ آسمانی کتاب میں نہیں تھا (چاہے وہ اصلی ہو یا موجودہ تحریف شدہ) اور نہ اسے ان کتابوں میں ہونا ہی چاہیے تھا کیونکہ تاریخ کے مطابق یہ واقعہ ظہورِ حضرت مسیح(ع) کے صدیوں بعد کا ہے ۔
یہ واقعہ ”دکیوس“ کے دور کا ہے، جسے عرب ”دقیانوس“کہتے ہیں ۔ اس کے زمانے میں عیسائیوں پر سخت ظلم ہوتا تھا ۔
یورپی موٴرخین کے مطابق یہ واقعہ ۴۹ تا ۲۵۱ عیسوی کے درمیان کا ہے ۔ ان موٴرخین کے خیال میں اصحابِ کہف کی نیند کی مدتت ۱۵۷ سال ہے ۔ یورپی موٴرخین انھیں ”افسوس کے سات سونے والے“کہتے ہیں (3)جبکہ ہمارے ہاں انھیں ”اصحابِ کہف “کہا جاتا ہے ۔
اب دیکھتے ہیں کہ ”افسوس“شہر کہاں ہے؟ سب سے پہلے کن علماء نے ان سونے والوں کے بارے میں کتاب لکھی اور وہ کس صدی کے تھے؟
”افسوس“ یا اُفْسُس ایشیائے کوچک کا ایک شہر تھا (موجودہ تر کی جو قدیم مشرقی روم کا ایک حصہ تھا)یہ دریائے کا ستر کے پاس ”ازمیر“شہر کے تقریباً چالیس میل جنوب مشرق میں واقع تھا ۔ یہ ”الونی“بادشاہ کا پایہٴ تخت شمار ہوتا تھا ۔ افسوس اپنے مشہور بُت خانے ارطامیس کی وجہ سے بھی عالمی شہرت رکھتا تھا ۔ یہ دنیا کے سات عجائبات میں تھا ۔ (4)
کہتے ہیں کہ اصحابِ کہف کی داستان پہلی مرتبہ پانچویں صدی عیسوی میں ایک عیسائی عالم نے لکھی ۔ اس کا نام ”ژاک“تھا ۔ وہ شام کے ایک گرجے کا متولی تھا ۔ اس نے سریانی زبان کے ایک رسالے میں اس کے بارے میں لکھا تھا ۔ اس کے بعد ایک اور شخص نے اس کا لا طینی زبان میں ترجمہ کیا ۔ اس کا نام ”گوگویوس“تھا ۔ ترجمے کا نام اس نے ”جِلال شہداء“ کا ہم معنی رکھا ۔(5)
اس سے ظاہر ہوتا ہے ظہورِ اسلام مصادر میں اس کی جو تفصیلات آئی ہیں وہ مذکورہ عیسائیوں کے بیانات سے کچھ مختلف ہیں ۔ جیسے ان کے سونے کی مدت۔ کیونکہ قرآن نے صراحت کے ساتھ یہ مدت ۳۰۹ سال بیان کی ہے ۔
یاقوت حموی نے اپنی کتاب ”معجم البدان“ج ۳ ص ۸۰۶ پر، ابنِ خرداد بہ نے اپنی کتاب ”المسالک و الممالک“ ص ۱۰۶ تا ص ۱۱۰ میں اور ابوریحان بیرونی نے اپنی کتاب ”الآثار الباقیہ“ص ۲۹۰ پر نقل کیا ہے کہ قدیم سیاحوں کی ایک جماعت نے شہر ”آبس“میں ایک غار دیکھی ہے جس میں چند انسانی ڈھانچے پڑے ہیں ۔ ان کا خیال ہے کہ ہوسکتا ہے یہ بات اسی داستان سے مربوط ہو ۔
سورہٴ کہف میں قرآن کے لب و لہجہ سے اور اس سلسلے میں اسلامی کتب میں منقول شانہائے نزول سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ داستان یہودی علماء میں بھی ایک تاریخی واقعے کے طور پر مشہور تھی ۔ اس سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ طولانی نیند کا یہ واقعہ مختلف قوموں کے تاریخی ماخذ میں موجود رہا ہے ۔ (6)
شہر افسوس میں سالہا سال تک سوئے رہنے والے اصحابِ کہف کی اس طویل نیند کے بارے میں ہوسکتا ہے کچھ افراد شک کریں کہ یہ بات سائنسی معیار پر پوری نہیں اترتی لہٰذا وہ اسے ایک افسانہ قرار دیں کیونکہ:
اولاً: اس قسم کی طولانی عمر تو جاگتے افراد کے لیے بعید معلوم ہوتی ہے چہ جائیکہ سوئے ہوئے افراد کے لئے ۔
ثانیاً: اگر یہ قبول کرلیا جائے کہ بیداری کے عالم میں ایسی عمر ممکن ہے تب بھی سوئے ہوئے تو ممکن معلوم نہیں ہوتی کیونکہ کھائے پیٴے بغیر اتنا طویل عرصہ انسان کیونکر زندہ رہ سکتا ہے ۔ اگر فرض کیا جائے کہ ایک انسان کو ہر روز کے لیے ایک کلو کھانا اور ایک لیٹر پانی کی ضرورت ہوتی ہے تو اصحابِ کہف کی عمر کے لیے سوٹن غذا اور ایک لاکھ لیٹر پانی کی ضرورت ہے اور اتنا ذخیرہ ایک بدن میں ممکن نہیں ۔
ثالثاً: اگر ان تمام چیزوں سے صرف نظر بھی کر لیا جائے تو بھی انسانی بدن طویل عرصہ ایک جیسا کیسے رہ سکتا ہے انسانی آرگانزم Organism کے لیے اتنی طولانی مدت یقینا نقصان وہ ہے اور جسم کے اعضاء و اجزاء کا بہت سا حصّہ اتنے طویل عرصے میں ضرور ضائع ہوتا ہے ۔
ہوسکتا ہے پہلی نظر میں ان اشکالات اور موانع کے باعث ایسا ہو نا قابلِ عمل دکھائی دے ۔ لیکن ایسا نہیں کیونکہ:
اولاً: لمبی عمر کا مسئلہ کوئی غیر سائنسی نہیں ہے کیونکہ ہم جانتے ہیںکہ کسی زندہ موجود کی عمر کی طوالت کے لئے سائنسی حوالے سے کوئی ایسا معیار نہیں ہے کہ جس کے باعث موت حتمی اور یقینی ہو ۔
دوسرے لفظوں میں یہ صحیح ہے کہ انسان کے جسمانی قویٰ جس قدر بھی ہوں آخر محدود اور اختتام پذیر ہیں لیکن اِس کا یہ معنی نہیں کہ ایک انسانی بدن یا کسی اور زندہ شے کا بدن معمول سے زیادہ زندہ رہنے کی توانائی نہیں رکھتا ۔
اس کی مثال پانی کی سی نہیں کہ جب اس کا درجہٴ حرارت سو تک پہنچ جاتا ہے تو وہ ابلنے لگتا ہے اور صفر تک پہنچ جاتا ہے تو برف بن جاتا ہے ۔ ایسا نہیں کہ جب انسان سو ، یا ڈیڑھ سو سال تک پہنچ جائے تو ضروری ہے کہ اس کے دل کی دھڑکن بند ہوجائے اور اس پر موت طاری ہوجائے ۔ بلکہ زندہ موجودات کی عمر کا تعلق زیادہ تر اس کی کیفیتِ زندگی اور اندازِ بودو باش سے ہے اور حالات کی تبدیلی سے مکمل طور پر قابلِ تغیّر ہے ۔ اس بات کا زندہ شاہد یہ امر ہے کہ ایک طرف تو دنیا کے کسی سائنسدان نے انسانی عمر کے لیے کوئی معین معیار مقرر نہیں کیا جبکہ دوسری طرف تجربہ گاہوں میں یہ ثابت کی جاچکی ہے کہ بعض زندہ موجودات کی عمر دوگنا، کئی گنایہاں تک کہ بارہ گنا اور اس سے بھی زیادہ ہوسکتی ہے ۔ بلکہ اب تو امید بھی دلائی جارہی ہے کہ بعض نئے عملی طریقے پیدا ہونے سے انسان کی عمر کی نسبت کئی گنا بڑھ جائے گی ۔
یہ تو طولِ عمر کے بارے میں گفتگو تھی ۔
ثانیاً: اس طولانی نیند میں آب و غذا کے بارے میں اگر تو معمول کی نیند ہو تو ہوسکتا ہے کہ اعتراض کرنے والے کو حق بجانب سمجھا جائے کہ یہ بات سائنسی اصول سے ہم آہنگ نہیں کیونکہ انسانی بدن میں اجزاء کی کمی بیشی نیند کی حالت میں عام حالت کی نسبت اگر چہ کم ہے پھر بھی اتنی طویل مدت میں تو بہت زیادہ ہوگی لیکن توجہ رہے کہ مادی دنیا میں ایسی نیندیں بھی ہیں کہ جن میں بدن کی غذا کا مصرف بہت کم ہوتا ہے اس کے لیے ان جانوروں کی مثال پیش کی جاسکتی ہے جو موسم سرما میں سوجاتے ہیں ۔ اس مسئلے کو ہم ذرا تفصیل سے دیکھتے ہیں:
بعض جانوروں کی سردیوں کی نیند:
بہت سے جانور اایسے ہیں جو سارے موسم سرمامیں سوئے رہتے ہیں ۔ اسے سائنسی اصطلاح میں ”سردیوں کی نیند“کہتے ہیں ۔
ایسی نیند میں علاماتِ حیات تقریباً ختم ہوجاتی ہیں ۔ زندگی کا معمولی سا شعلہ روشن رہتا ہے ۔ دل کی دھڑکن تقریباً رُک جاتی ہے اور اتنی خفیف ہوجاتی ہے کہ بالکل محسوس نہیں ہوتی ۔ ایسے مواقع پر بدن کو ایک ایسے بڑے بھٹے سے تشبیہ دی جاسکتی ہے کہ جسے بجھا کر چھوٹا سا شعلہ بھڑکتا رہے ۔ واضح ہے کہ آسمان سے باتیں کرتے ہوئے شعلوں کے لیے بھٹے کو جتنے تیل یا گیس کی خوراک کی ایک دن کے لیے ضرورت ہوتی ہے ایک خفیف سے شعلے کے لیے اتنی برسہا برس یا صدیوں کے لیے ضرورت ہوتی ہے ۔ البتہ اس میں جلتے ہوئے بھٹے کی مقدار اور خفیف سے شعلے کی مقدار کے لحاظ سے فرق ہوسکتا ہے ۔
سائنس دان بعض جانوروں کی سردیوں کی نیند کے بارے میں کہتے ہیں:
کوئی مینڈک جب سردیوں کی نیند میں ہو تو اسے اگر اس جگہ سے باہر نکال لیں تو مردہ معلوم ہوگا ۔ اس کے پھیپھڑوں میں ہوا نہیں ہوتی ۔ اس کے دل کی حرکت اس قدر کمزور ہوتی ہے کہ اس کا پتہ نہیں چلایا جاسکتا ۔ خون سرد جانوروں Cool Blooded Animal میں سے بہت سے ایسی سردیوں کی نیند سوتے ہیں ۔ اس سلسلے میں کئی طرح کے کیڑے مکوڑوں، حشرات الارض، گھونگھوں اور رینگنے والے جانوروں کے نام لیے جاسکتے ہیں ۔ بعض خون گرم جانوروں Warm Blooded Animal کی بھی سردیوں کی ایسی نیند ہوتی ہے ۔ اس نیند کے عالم میں حیاتی فعالیتیں بہت سست پڑجاتی ہیں اور بدن میں ذخیرہ شدہ چربی آہستہ آہستہ صرف ہوتی رہتی ہے ۔(7)
مقصد یہ ہے کہ ایک ایسی نیند بھی ہے کہ جس میں غذا کی انتہائی کی ضرورت ہوجاتی ہے اور حیاتی فعالیتیں تقریباً صفر تک پہنچ جاتی ہیں ۔ اتفاق کی بات ہے کہ یہی صورتِ حال اعضا کو فرسودگی سے بچانے اور جانوروں کی طوالتِ عمر میں مدد کرتی ہے ۔
اصولی طور پر جو جاندار احتمالاً سردیوں میں اپنی غذا حاصل کرنے کی طاقت نہیں رکھتے ان کے لیے سردیوں کی نیند بہت غنیمت چیز ہے ۔
ایک اور نمونہ۔ یوگا کے ماہرین:
یوگاکے ماہرین کے بارے میں دیکھا گیا ہے کہ ان میںسے بعض کو یقین نہ کرنے والے حیرت زدہ افراد کی آنکھوں کے سامنے بعض اوقات تابوت میں رکھ کر ہفتہ بھر کی مدت کے لیے مٹی کے نیچے دفن کردیتے ہیں اور مذکورہ مدت ختم ہونے کے بعد انھیں باہر نکالتے ہیں ۔ ان کی ما لش کی جاتی ہے اور مصنوعی سانس دی جاتی ہے اور وہ رفتہ رفتہ معمولی کی حالت میں پلٹ آتے ہیں ۔ لتنی مدت کے لیے اگر ضرورت غذا کا مسئلہ اہم نہ ہو بھی آکسیجن کا مسئلہ تو بہت اہم ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ دماغ کے خلیے آکسیجن کے معاملے اتنے حساس اور ضرورت مند ہوتے ہیں کہ اگر چند سیکنڈ بھی اس سے محروم ہوو جائیں ۔ لہٰذا سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک یوگی پورا ہفتہ کس طرح آکسیجن کی اس کمی کو برداشت کر لیتا ہے ۔
ہم جو وضاحت کرچکے ہیں اس کی طرف تو جہ کرنے سے ایک سوال کا جواب زیادہ مشکل نہیں رہتا ۔ بات یہ ہے کہ یوگی کے بدن کی حیاتی فعالیت اس عرصہ میں تقریباً رک جاتی ہے ۔ اس دوران میں خلیے کو آکسیجن کی ضرورت اور اس کا مصرف بہت کم ہوجاتا ہے ۔ یہاں تک کہ وہی ہوا جو تابوت کے اندر والے حصے میں ہوتی ہے بدن کے خلیوں کی ہفتہ بھر کی غذا کے لیے کافی ہوتی ہے ۔
زندہ انسان کے بدن کو منجمد کردینا:
جانداروں بلکہ انسان کو منجمد کرکے ان کی عمر بڑھانے کے بارے میں آج تو بہت سے نظریے اور بحثیں چل پڑی ہیں ۔ ان میں بعض تو عملی جامہ بھی پہن چکی ہیں ۔
ان نظریوںTheories کے مطابق یہ ممکن ہے کہ ایک انسان یا حیوان کے بدن کو ایک خاص طریقے کے تحت صفر سے کم درجہ حرارت پر رکھ کر اس کی زندگی کو ٹھہرا دیا جائے، اس طرح سے کہ وہ واقعاً مر نہ جائے پھر ایک ضروری مدت کے بعد اسے مناسب حرارت دی جائے اور وہ حالت معمولی پر لوٹ آئے ۔
ایسے کُرّے جو بہت دُور ہیں ان تک کا فضائی سفر جو کئی سو یا کئی ہزار سال تک کی مدت کا ہوسکتا ہے، کے لیے کئی منصوبے پیش کیے جا چکے ہیں ۔ ان میں سے ایک یہی ہے کہ خلانورد کے بدن کو ایک خاص تابوت میں رکھ دیا جائے اور اسے منجمد کردیا جائے اور جب سالہا سال کی مسافت کے بعد وہ مقررہ کُرّات کے قریب پہنچے تو ایک خودکار نظام کے تحت ایک تابوت میں حرارت پیدا ہوجائے اور خلانورد حالتِ معمولی پر لوٹ آئے بغیر اس کے کہ اس کی عمر ضائع ہو ۔
ایک سائنسی مجلے میں ایک خبر شائع ہوئی ہے کہ حال ہی میں انسانی بدن کو لمبی عمر کے لیے منجمد کرنے کے بارے میں رابرٹ نیلسن نے کتاب لکھی ہے ۔ سائنسی دنیا میں یہ کتاب بھی اہمیت اختیار کر گئی ہے اور اس کے مندرجات کے بارے میں بہت کچھ کہا گیا ہے ۔
مجلے کے اس مقالے میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ حال ہی میں اس عنوان کے تحت ایک خاص سائنسی شعبہ قائم ہوگیا ہے ۔
مذکورہ مقالے میں لکھا گیا ہے:حیات جاوداں پوری تاریخ انسانی میں ہمیشہ انسان کا سنہرا خواب رہی ہے لیکن اب یہ خواب حقیقت میں بدل گیا ہے ۔ یہ امر ایک نئے علم کی خوشگوار او رحیرت انگیز ترقی کا مرہونِ منت ہے اس علم کا نام کر یانک ہے ۔(یہ علم انسانی بدن کو منجمد کر کے زندہ رکھنے کے بارے میں ہے ۔اس کے مطابق انسان کے بدن کو منجمد کرکے اسے بچایا جاسکتا ہے یہاں تک کہ سائنسدان اسے پھر سے زندہ کردیں) ۔
کیا یہ بات قابلِ یقین ہے؟
بہت سے اہم او رممتاز سائنسدان کئی پہلووٴں سے اس مسئلے پر غور کر رہے ہیں ۔ اس کے بارے میں کئی کتا بیں مثلاً”لائف“ اور”اسکوایر“ چھپ چکی ہیں ۔ پوری دنیا کے اخبارات پوری شد ومد سے اس مسئلے پر بحث کر رہے ہیں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس سلسلے میں اب تجربات شروع ہوچکے ہیں ۔(8)
واضح ہے کہ حالت انجماد میں علامات حیات موت کی طرح بالکل ختم نہیں نہیں ہوجائیں کیونکہ اس صورت میں بھی تو پھر زندگی نہیں مل سکتی بلکہ اس عالم میں حیاتی فعالیتیں بہت سست رفتار ہوجاتی ہیں ۔
ان تمام باتوں سے ہم یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ انسانی زندگی کو ٹھہرایا یا بہت ہی سست کیا جاسکنا ممکن ہے اور مختلف سائنسی تحقیقات اس امکان کی کئی حوالوں سے تائید کرتی ہیں ۔اس حالت میں غذا کا مصرف بدن میں تقریباً صفر تک جا پہنچتا ہے اور غذا کا تھوڑا سا ذخیرہ جو بدن میں موجود ہوتا ہے اس کی سست زندگی کے لئے طویل برسوں تک کافی ہوسکتا ہے ۔(9)
غلط فہمی نہیں ہونا چاہیے ہم ان باتوں کے ذریعے اصحاب کہف کی نیند کے اعجاز کے پہلوکا انکار نہیں کرنا چاہتے بلکہ ہم چاہتے ہیں کہ سائنسی حوالے سے اس واقعے کوہم ذہن کے قریب کردیں کیونکہ تسلیم شدہ امر ہے کہ اصحاب کہف ہماری طرح نہیں سوئے ۔ جیسے ہم معمول کے مطابق رات کو سوتے ہیں ان کی نیند ایسی نہ تھی بلکہ وہ استثنائی پہلو رکھتی تھی ۔
ہوسکتا ہے کہ اصحابِ کہف کے واقعے سے انسان کے ذہن میں منجمد کرنے کی ایجاد ہو یا قدرت نے اسے منجمد کرنے کا اشارہ دیا ہو ۔
لہٰذا اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں کہ وہ ارادہٴ الٰہی کے ما تحت ایک طویل زمانے تک سوئے رہے ۔
اس دوران نہ انھیں غذا کی کمی لاحق ہوئی اور نہ ان کے بدن کے اجزاء Organism کو کوئی نقصان پہنچا ۔
یہ بات قابل توجہ ہے کہ سورہٴ کہف کی آیات سے ان کی سر گزشت کے بارے میں یہ نتیجہ بر آمد ہوتا ہے کہ ان کی نیند عام طریقے کی نیند اور معمول کی نیند سے بہت مختلف تھی ۔ ارشاد ہوتا ہے:
<وَتَحْسَبُھُمْ اٴَیْقَاظًا وَھُمْ رُقُودٌ ۔۔۔ِ لَوْ اطَّلَعْتَ عَلَیْھِمْ لَوَلَّیْتَ مِنْھُمْ فِرَارًا وَلَمُلِئْتَ مِنْھُمْ رُعْبًا
”وہ ایسے لگتے تھے جیسے جاگ رہے ہوں(ان کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں) اگر تو انھیں دیکھتا تو گھبرا کے بھاگ اٹھتا اور تیرے پورے وجود پر خوف چھا جاتا“۔(کہف۔۱۸)
یہ آیت اس بات کی گواہ ہے کہ ان کی نیند عام کی سی نہ تھی بلکہ ایسی نیند تھی جو حالت موت کے مشابہ تھی ان کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں ۔
علاوہ ازیں قرآن کہتا ہے:سورج کی روشنی ان کے غار کے اندر نہیں پڑتی تھی ۔
نیز اگر اس امر کی طرف توجہ کی جائے کہ ان کی غار احتمالاً ایشیائے کوچک کے کسی بلند اور ٹھنڈے مقام پر واقع تھی ان کی نیند کے استثنائی حالات اور زیادہ واضح ہوجاتے ہیں ۔
دوسری طرف قرآن کہتا ہے:
<وَنُقَلِّبُھُمْ ذَاتَ الْیَمِینِ وَذَاتَ الشِّمَالِ
”ہم دائیں بائیں ان کے پہلو بدلتے رہتے تھے“۔(کہف۔۱۸)
یہ امر نشاندہی کرتا ہے کہ وہ بالکل ایک ہی حالت میں نہیں رہتے تھے ایسے عوامل کہ جو ابھی تک ہمارے لیے راز ہیں ان کے تحت شاید سال میں ایک مرتبہ انھیں دائیں بائیں پلٹایا جاتا تھا تاکہ ان کے بدن کے آرگا نزمOrganism میں کوئی نقص نہ پڑجائے ۔
اب جبکہ اس سلسلے میں کافی واضح علمی بحث ہوچکی ہے نتیجہ اخذ کرتے ہوئے معاد اور قیامت کے بارے میں زیادہ گفتگو کی ضرورت نہیں رہتی کیونکہ ایسی طویل نیند کے بعد بیداری، موت کے بعد زندگی کے غیر مشابہ نہیں ہے ۔ اس سے ذہن معاد اور قیامت کے امکان کے قریب ہوجاتا ہے ۔


 


1۔ اسلام میں ہجرت کی اہمیت اور اس کے فلسفے کے بارے میں ہم تفسیرِ نمونہ جلد چہارم ص ۸۵ (اردو ترجمہ)پر تفصیلی گفتگو کرچکے ہیں ۔
2۔ تقیہ کے بارے میں ”تقیہ ایک حفاظتی ڈھال ہے“کے زیرِ عنوان ہم تفسیرِ نمونہ کی جلد ۲ ص ۲۹۵ (اردو ترجمہ)پر گفتگو کرچکے ہیں اور اس کے فقہی مدارک ”’القواعد الفقہیہ“ میں ہم نے بیان کیے ہیں ۔
3۔ اعلامِ قرآن ص ۱۵۳-
4۔ قاموسِ مقدس ص ۸۷ سے ایک اقتباس۔
5۔اعلامِ قرآن ص ۱۵۴-
6۔ معاد و جہان پس از مرگ ص ۱۶۳ تا ص ۱۶۵-
7۔ مجلّہ ”دانشمند“ بہمن ماہ ۴۷، ص۴-
8-کچھ عرصہ ہوا کہ جرائد میں یہ خبر چھپی تھی کہ برفانی قطبی علاقے سے چند ہزار سال پہلے کی ایک منجمد مچھلی ملی ہے جسے خود وہاں کے لوگوں نے دیکھا ہے ۔ اس مچھلی کو جب مناسب پانی میں رکھا گیا تو لوگ حیرت زدہ رہ گئے کہ وہ پھر سے جی اٹھی اور چلنے پھر نے لگی ۔
9۔ ایک پہلو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ انسان نے قدرت کی بہت سی چیزیں دیکھ کر ویسی ہی ایجادات کی ہیں ۔ لہٰذا
۲۔”غار“ کہاں ہے؟سوره کهف / آیه 28 - 31
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma