گزشتہ آیات میں موجود قرائن سے اجمالاً معلوم ہوتا ہے کہ اصحابِ کہف کی نیند بہت لمبی تھی ۔ یہ بات ہر شخص کی حس جستجو کو ابھارتی ہے ۔ ہر شخص جاننا چاہتا ہے کہ وہ کتنے برس سوئے رہے ۔ زیرِ نظر آیات اس داستان کی قرآنِ حکیم میں آخری آیات ہیں ۔ ان آیات میں تردد ختم کرتے ہوئے اس سوال کا جواب دیا گیا ہے ۔
ارشاد ہوتا ہے: وہ اپنی غار میں تین سوسے نو برس زیادہ سوئے رہے ( وَلَبِثُوا فِی کَھْفِھِمْ ثَلَاثَ مِائَةٍ سِنِینَ وَازْدَادُوا تِسْعًا) ۔
اس لحاظ سے وہ کل تین سو نو سال غار میں سوئے رہے ۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ تین سو نو سال کہنے کے بجائے یہ جو کہا ۔کہ نو سال اس سے زیادہ۔ یہ شمسی اور قمری سالوں کے فرق کی طرف اشارہ ہے ۔ کیونکہ شمسی حساب سے وہ تین سوسال رہے اور کہ جو قمری حساب سے تین سو نو سال ہوئے اور یہ تعبیر کا ایک لطیف پہلو ہے کہ ایک جزوی تعبیر کے ذریعے عبارت میں ایک اور وضاحت طلب حقیقت بیان کری جائے ۔(۲)
اس کے بعد اس بارے میں لوگوں کے اختلاف ِ آراء کو ختم کرنے کے لیے فرمایا گیا ہے: کہہ دے: خدا ان کے قیام کی مدت کو بہتر جانتا ہے (قُلْ اللهُ اٴَعْلَمُ بِمَا لَبِثُوا) ۔کیونکہ آسمانوں اور زمین کے غیب کے احوال اس کے سامنے ہیں اور وہ ہر کس کی نسبت انھیں زیادہ جانتا ہے (لَہُ غَیْبُ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ) ۔ اور جو کُل کائنات ہستی سے باخبر ہے کیونکر ممکن ہے کہ وہ اصحابِ کہف کے غار میں قیام کی مدت سے آگاہ نہ ہو ۔
واقعاً وہ کیا خوب دیکھنے والا اور سننے والا ہے ( اٴَبْصِرْ بِہِ وَاٴَسْمِعْ ) ۔(۳)
لہٰذا آسمانوں اور زمین کے باسیوں کا اس کے علاوہ کوئی اور سرپرست نہیں ہے (مَا لَھُمْ مِنْ دُونِہِ مِنْ وَلِیٍّ) ۔
یہ کہ ”مَا لَھُم“کی ضمیر کِن لوگوں کی طرف لوٹتی ہے، اس سلسلے میں مفسرین میں اختلاف ہے ۔
بعض کا خیال ہے کہ یہ آسمان و زمین کے ساکنین کی طرف اشارہ ہے ۔
بعض دوسرے کہتے ہیں کہ یہ اصحابِ کہف کی طرف اشارہ ہے یعنی اصحابِ کہف کا اس کے علاوہ کوئی ولی و سرپرست نہیں تھا ۔ وہی تھا کہ جو اس ساری صورتِ حال میں ان کے ساتھ تھا اور ان کی حمایت کرتا تھا ۔
البتہ اس سے پہلے جملے کی طرف توجہ کریں تو اس میں آسمانوں اور زمین کے پوشیدہ احوال کی طرف اشارہ کیا گیاہے ۔ اس سے زیر بحث جملے کے بارے میںپہلی تفسیر زیادہ صحیح دکھائی دیتی ہے ۔
آیت کے آخر میں مزید فرمایا گیا ہے: اور کوئی شخص حکمِ خدا میں شریک نہیں ہے (وَلَایُشْرِکُ فِی حُکْمِہِ اٴَحَدًا) ۔
در حقیقت یہ اللہ کی ولایت مطلقہ کے بارے میں تاکید ہے کہ نہ کوئی اور عالمین پر ولایت رکھتا ہے اور نہ کوئی ولایت میں شریک ہے ۔ یعنی استقلال و اشتراک دونوں لحاظ سے کوئی دوسرا اس عالمِ امکان کی ولایت میں نفوذ نہیں رکھتا ۔
زیرِ نظر آخری آیت میں روئے سخن پیغمبرِ اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کی طرف کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے: جو کچھ کتاب خدا میں سے تجھ پر وحی کیا گیا ہے اس کی تلاوت کر ( وَاتْلُ مَا اٴُوحِیَ إِلَیْکَ مِنْ کِتَابِ رَبِّکَ) ۔
اورادھر اُدھر کی دروغ آمیز اور بے بنیاد باتوں کی پرواہ نہ کر۔ ان امور میں تجھے صرف وحی خدا پر بھروسہ کرنا چاہیے ۔ کیونکہ کوئی چیز اس کی باتوں کو بدل نہیں سکتی ۔ اور اس کی بات (اور اس کی معلومات)میں تبدیلی ممکن نہیں ہے(لَامُبَدِّلَ لِکَلِمَاتِہِ) ۔
اس کا علم اور کلام بندوں کے علم اور کلام کی طرح نہیں ہے کہ جو ہر روز نئے انکشافات اور آگاہی کی وجہ سے تبدیل ہوتا رہے ۔ اسی لئے بندوں کے علم اور کلام پر سو فیصد اعتماد نہیں کیا جاسکتا ۔
اسی وجہ سے تجھے اس کے علاوہ کوئی اور پناہ نہیں ملے گی (وَلَنْ تَجِدَ مِنْ دُونِہِ مُلْتَحَدًا) ۔
”مُلْتَحَدً“”لحَد“ (بروزنِ ”مھد“)اس گڑھے کے معنی میں ہے جو درمیان سے کسی ایک جانب جھکا ہو (اس لحد کی طرح جو قبر کے لیے بنائی جاتی ہے)اسی لیے ”مُلْتَحَد“ اس جگہ کو کہتے ہیں جس کی طرف انسان مائل ہو ۔ بعد ازاں یہ لفظ ملجاء اور پناہ گاہ کے معنی میں استعمال ہونے لگا ۔
یہ بات توجہ طلب ہے کہ زیرِ بحث آخری دو آیات میں کئی لحاظ سے تمام موجوداتِ عالم پر خدا کا احاطہٴ علمی بیان کیا گیا ہے ۔پہلے فرمایا گیا ہے: آسمانوں اور زمین کے پوشیدہ امور اس کے سامنے ہیں لہٰذا وہ ان سب سے آگاہ ہے ۔
پھر یہ فرمایا گیا ہے: صرف وہی ولی و سرپرست ہے اور وہ سب سے زیادہ آگاہ ہے ۔
نیز اضافہ کیا گیا ہے: کوئی بھی اس حکم میں سریک نہیں ہے کہ جس کے باعث اس کا علم محدود ہو ۔
اس کے بعد فرمایا گیا ہے: اس کے علم اور کلام میں تبدیلی نہیں ہوتی کہ اس کی قدرو قیمت اور ثبات میں کمی واقع ہو ۔
آخری جملے میں ہے: ”عالم میں واحد پناہ گاہ اسی کی ذات ہے“لہٰذا واضح ہے کہ وہ تمام پناہ لینے والوں سے آگاہ ہے ۔