۲۔”وثامنھم کلبھم“میں واو

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 12
۱۔”رجماً بالغیب“کا مفہوم ۳۔ آرام گاہ کے پاس مسجد


۲۔”وثامنھم کلبھم“میں واوٴ:


زیر نظر آیات میں”رابعھم کلبھم“ اور ”سادسھم کلبھم“دونوں جملے بغیر واوٴ کے آئے ہیں جبکہ”وثامنھم کلبھم“واوٴ کے ساتھ شروع ہوتا ہے اور قرآن کی ہر تعبیر میں چونکہ کوئی نہ کوئی حکمت اور مقصد پوشیدہ ہے لہٰذا مفسرین نے اس واوٴ کے بارے میں بہت کچھ کہا ہے ۔
شایدان میں سے بہترین تفسیر یہ ہو کہ یہ واؤ آخری بات اور آخری حرف کی طرف اشارہ ہے ۔ جیسے موجودہ زمانے کے ادب میں بھی یہ طریقہ عام ہوگیا ہے کہ چیزوں کو شمار کرتے وقت سب کو بغیر واؤ کے ذکر کرتے لیکن آخری کا ذکر لازمی طور پر واؤ کے ساتھ کرتے ہیں مثلاً:
زید، عمر، حسن و محمّد آئے ۔
(اردو میں واؤ کی بجائے ”اور“ استعمال ہوتا ہے(مترجم)) ۔
یہاں پر واؤ کلام کے اختتام اور آخری شخص یا چیز کے بیان کی طرف اشارہ ہے ۔
یہی بات مشہور مفسّر ابن عباس سے منقول ہے ۔ بعض دیگر مفسرین نے بھی اس کی تائید کی ہے نیز انھوں نے اسی واؤ سے اس امر کی تائید کے لیے بھی استفادہ کیا ہے کہ اصحابِ کہف کی حقیقی تعداد سات تھی کیونکہ اس کے علاوہ اقوال کو بے بنیاد قرار دے کر قرآن نے ان کی حقیقی تعداد کو آخر میں بیان کیا ہے ۔
بعض دوسرے مفسرین مثلاً فخر رازی اور قرطبی نے اس واؤ کی ایک اور تفسیر نقل کی ہے ۔ اس کا خلاصہ یہ ہے:
سات کا عدد غربوں میں ایک مکمل عدد شمار ہوتا ہے ۔ اسی لیے سات کے عدد تک بغیر واؤ کے ذکر کرتے ہیں لیکن جب اس عدد سے آگے بڑھتے ہیں تو واؤ استعمال کرتے ہیں کہ جو ابتدائے کلام کی دلیل ہے اسی لیے ادباءِ عرب کی زبان میں یہ ”واوِ ثمانیہ“مشہور ہوگئی ۔
آیاتِ قرآن میں بھی عموماً اسی طرح دیکھا گیا ہے ۔ مثلاً سورہٴ توبہ کی آیت ۱۱۲ میں جہاں راہِ خدا کے مجاہدین کی صفات شمار کی گئی ہیں وہاں سات صفات تو واؤ کے بغیر آئی ہیں لیکن جب قرآن آٹھویں صفت پر پہنچتا ہے تو کہتا ہے:
<و النَّاہُونَ عَنِ المُنکَرِ وَ الحَافِظُونَ لِحُدُودِ اللّٰہِ
اور برائیوں سے روکنے والے اور حدود اللہ کی حفاظت کرنے والے ۔
اسی طرح سورہ تحریم کی آیت ۵ میں ازدواجِ پیغمبر کی صفات بیان کرتے ہوئے ساتویں صف کے بعد آٹھویں صفت کا ذکر واؤ کے ساتھ کیا گیا ہے:
<ثَیِّنَاتٍ وَّاَبْکَارًا
بیوائیں اور کنواریاں ۔
نیز سورہٴ زمر کی آیت ۷۱ میں جہنم کے دروازوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے:
<فَتِحَتْ اَبْوَابُہَا
اس کے دروازے کھول دیئے جائیں گے ۔
لیکن دو آیتوں کے بعد جس وقت جنت کے دروازوں کے بارے میں گفتگو ہوتی ہے تو فرمایا گیا ہے:
<وَ فَتِحَتْ اَبْوَابُہَا
اور اس کے دروازے کھول دیئے جائیں گے ۔
کیا یہ اس بناء پر نہیں ہے کہ جہنم کے دروازے سات ہیں اور جنت کے دروازے آٹھ ہیں ۔
البتہ شاید یہ کوئی کلی قانون نہ ہو لیکن زیادہ تر مواقع پر ایسا ہی ہے ۔ بہر حال یہ بات اس امر کی نشاندہی کرتی ہے کہ قرآن میں ایک واؤ تک کا وجود بھی کسی حساب کتاب کے تحت ہے اور کسی حقیقت کے بیان کے لیے ہے ۔

۱۔”رجماً بالغیب“کا مفہوم ۳۔ آرام گاہ کے پاس مسجد
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma