اصحاب کہف کا اہم مقام

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 12
سوره کهف / آیه 17 - 18 سوره کهف / آیه 19 - 20


اصحاب کہف کا اہم مقام

 


ان دو آیات میں قرآن غار میں اصحابِ کہف کی عجیب وغریب زندگی کی کچھ تفصیلات بیان کررہا ہے ۔ ان کی زندگی کی ایسی منظر کشی کی گئی ہے کہ گویا کوئی شخص غار کے سامنے بیٹھا ہے اور غار میں سوئے ہوئے افراد کو آنکھوں سے دیکھ رہا ہے ۔
چھ نشانیاں اور خصوصیات
ان دو آیتوں میں غار اور اصحاب کہف کی چھ نشانیاں اور خصوصیات بیان کی گئی ہیں:
۱۔ غار کا دہانہ شمال کی طرف ہے اور غار چونکہ زمین کے شمالی نصف کرہ میں واقع تھی لہٰذا سورج کی روشنی مستقیم اس میں نہیں پڑتی تھی۔ جیسا کہ قران کہتا ہے: اگر تُو وقتِ طلوع سورج کو دیکھتا تو وہ غار کی دائیں جانب جھُک کے گزر جاتا ہے اور غروب کے وقت بائیں جانب (وَتَرَی الشَّمْسَ إِذَا طَلَعَتْ تَتَزَاوَرُ عَنْ کَھْفِھِمْ ذَاتَ الْیَمِینِ وَإِذَا غَرَبَتْ تَقْرِضُھُمْ ذَاتَ الشِّمَالِ)۔
اس طرح سے ان پر سورج کی براہِ راست روشنی نہیں پڑتی رہتی تو ہوسکتا ہے کہ ان کے جسم بوسیدہ ہوجاتے ۔
تزاور“ کی تعبیر کہ جو جھکنے کے معنی میں ہے، اس یہ نکتہ پنہاں ہے کہ گویا سورج اس بات پر مامور تھا کہ غار کی دائیں سمت سے گزرے ۔ اسی طرح ”تقرض“ کی تعبیر کاٹنے کے معنی میں ہے، اس میں بھی ماموریت کا مفہوم موجود ہے، اس سے قطع نظر ”تزاور“ ”زیارت“ کے مادہ سے ہے، اس میں بھی آغاز کی طرف اشارہ بھی موجود ہے کہ جو طلوع آفتاب کا مفہوم دیتا ہے اور ”تقرض“ قطع کرنے اور ختم کرنے کے معنی میں ہونے کے باعث غروب کا مفہوم دیتا ہے ۔
غار کا دہانہ شمال کی طرف ہونے کی وجہ سے اس میں اچھی اور لطیف ہوائیں آتی تھیں کیونکہ یہ ہَوائیں عموماً شمال کی جانب سے چلتی ہیں، لہٰذا تازہ ہوا آسانی سے غار میں داخل ہوجاتی اور ایک تازگی قائم رکھتی۔
۲۔ وہ غار کی ایک وسیع جگہ میں تھے (وَھُمْ فِی فَجْوَةٍ مِنْہُ)۔
یہ اس طرف اشارہ ہے کہ وہ غار کے دہانے پر موجود نہ تھے کیونکہ وہ تو عموماً تنگ ہوتا ہے ۔ وہ غار کے وسطی حصّے میں تھے تاکہ دیکھنے والوں کی نظروں سے اوجھل رہیں اور سورج کی براہِ راست چمک سے بھی۔
یہاں قران سلسلہ گفتگو کو گویا روکتے ہوئے ایک معنوی نتیجہ بیان کرتا ہے کیونکہ اس ساری داستان کو ذکر اسی مقصد کے لئے کیا جارہا ہے، ارشاد ہوتا ہے: یہ الله کی نشانیوں میں سے ہے، جس کو الله الله ہدایت دے وہی حقیقی ہدایت یافتہ ہے اور جسے وہ بھٹکادے اس کے لئے تجھے کوئی سرپرست وراہنما نہیں ملے گا (ذٰلِکَ مِنْ آیَاتِ اللهِ مَنْ یَھْدِ اللهُ فَھُوَ الْمُھْتَدِ وَمَنْ یُضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَ لَہُ وَلِیًّا مُرْشِدًا
جی ہاں! جو لوگ راہِ خدا میں قدم اٹھاتے ہیں اور اس کی راہ میں جہاد کے لئے نکل پڑتے ہیں ہر قدم پر انھیں الله کا لطف وکرم حاصل ہوتا ہے، یہ لطف وکرم کام کی بنیاد ہی میسر نہیں آتا بلکہ اس کی جزئیات میں بھی شاملِ حال رہتا ہے ۔
۳۔ ان کی نیند عم نیند کی سی نہ تھی ”اگر تُو انھیں دیکھتا ہو خیال کرتا کہ وہ بیدار ہیں حالانکہ وہ گہری نیند میں ہوئے سوئے تھے (وَتَحْسَبُھُمْ اٴَیْقَاظًا
یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ ان کی آنکھیں بالکل ایک بیدار شخص کی طرح پوری طرح کھُلی تھیں، یہ استثنائی حالت شاید اس بناء پر تھی کہ موذی جانور قریب نہ آئیں کیونکہ وہ بیدار آدمی سے ڈرتے ہیں، یا اس کی وجہ یہ تھی کہ ماحول رعب انگیز رہے تاکہ کوئی انسان ان کے پاس جانے کی جرئت نہ کرے اور یہ صورتِ حال ان کے لئے ایک سِپر کا کام دے ۔
۴۔ اس بناء پر کہ سالہا سال سوئے رہنے کی وجہ سے ان کے جسم بوسیدہ نہ ہوجائیں ”ہم انھیں دائیں بائیں کروٹیں بدلواتے رہتے تھے (وَھُمْ رُقُودٌ وَنُقَلِّبُھُمْ ذَاتَ الْیَمِینِ وَذَاتَ الشِّمَالِ) تاکہ ان کے بدن کا خون ایک ہی جگہ نہ ٹھہر جائے اور طویل عرصہ ایک طرف مرتکز ہونے کی وجہ سے ان کے اعصاب خراب نہ ہوجائیں ۔
۵۔ اس دوران ان میں ”کُتّا کہ جو اُن کے ہمراہ تھا غار کے دہانے پر اپنے اگلے پاوٴں پھیلائے ہوئے تھا اور پہرہ دے رہا تھا (وَکَلْبُھُمْ بَاسِطٌ ذِرَاعَیْہِ بِالْوَصِیدِ)۔
جیسا کہ راغب نے مفردات میں کہا ہے ”وصید“ ایسے کمرے اور اسٹور کے معنی میں ہے کہ جو پہاڑی علاقوں میں اموال واسباب ذخیرہ کرنے کے لئے بنایا جاتا ہے، یہاں یہ لفظ غار کے دہانے کے معنی میں ہے ۔
اس سے پہلے ابھی تک قران آیات میں اصحابِ کہف کے کتّے کے بارے میں کوئی بات نہیں ہوئی تھی لیکن قران واقعات کے دوران میں بعض اوقات ایسی باتیں کرجاتا ہے کہ جن سے دوسرے مسائل بھی واضح ہوجاتے ہیں، اسی طرح یہاں اصحابِ کہف کے کتّے کا ذکر آیا ہے، یہاں سے ظاہر ہوا کہ ان کے ہمراہ ایک کتّا بھی تھا جو ان کے ساتھ ساتھ رہتا تھا اور ان کی حفاظت کرتا تھا ۔
یہ کہ یہ کتا اُن کے ساتھ کہاں سے شامل ہوا تھا ، کیا ان کا شکاری کتا تھا یا اس چروا ہے کا کتا تھا کہ جس سے ان کی راستے میں ملاقات ہوئی تھااور جب چروا ہے نے انہیں پہنچان لیا تھا تو اس نے اپنے جانور آبادی کی طرف روانہ کردیئے تھے اور خود ان پاکباز لوگوں کے ساتھ ہو لیا تھا کیونکہ وہ ایک حق جو اور دیدار الٰہی کا طالب انسان تھا ۔ اس وقت کتّا ان سے جدا نہ ہوا اور ان کے ساتھ ہو لیا ۔
کیا اس بات کا یہ مفہوم نہیں ہے کہ تمام عاشقانِ حق اس تک رسائی کے لیے اس کے راستے میں قدم رکھ سکتے ہیں اور کوئے یار کے دروازے کسی کے لیے بند نہیں ہیں ۔ ظالم بادشاہ کے تائب ہونے والے وزیروں سے لے کر جروا ہے تک بلکہ اس کے کتے تک کے لیے بارگاہ الٰہی کے دروازے کھُلے ہیں ۔
کیا ایسا نہیں ہے کہ قرآن کہتا ہے کہ:”زمین و آسمان کے تمام ذرے، سارے درخت اور سب چلنے پھرنے والے ذکر الٰہی میں مگن ہیں، سب کے سر میں اس کے عشق کا سودا سمایا ہے اور سب دلوں میں اس کی محبت جلوہ گر ہے“۔ (بنی اسرائیل۔ ۴۴)
۶۔ غار میں اصحابِ کہف کا م منظر ایسا رعب انگیز تھا کہ اگر تو انہیں جھانک کے دیکھ لیتا تو بھاگ کھڑا ہوتا اور تیرا وجود سرتا پا خوفزدہ ہوجاتا(لَوْ اطَّلَعْتَ عَلَیْھِمْ لَوَلَّیْتَ مِنْھُمْ فِرَارًا وَلَمُلِئْتَ مِنْھُمْ رُعْبًا
یہ ایک ہی موقع نہیں کہ خدا تعالیٰ نے رعب اور خوف کو اپنے با ایمان بندوں کے لئے ڈھال بنا دیا ۔ سورہٴ آلِ عمران کی آیہ ۱۵۱ میں بھی ہے:
<سَنُلْقِی فِی قُلُوبِ الَّذِینَ کَفَرُوا الرُّعْبَ
ہم جلد ہی کافروں کے دلوں پر رعب ڈال دیں گے ۔(۱)

دعائے ندبہ میں پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم سے منقول ہے:
ثمّ نصرتہ بالرعب
خداوندا! پھر تُو نے اپنے پیغمبر کی مدد اس طرح سے کی کہ اُ س کے دشمنوں کے دلوں میں رعب ڈال دیا ۔
لیکن یہ رعب کہ جو اصحاب کہف کو دیکھنے والے کو سرتا پا لرزا دیتا، ان کی جسمانی حالت کے باعث تھا یا یہ کہ پُر اسرار روحانی طاقت تھی کہ جو اس سلسلے میں کام کررہی تھی۔ اس سلسلے میں آیات ِ قرآنی میں کوئی وضاحت نہیں ہےارہ مفسّرین نے کئی قسم کی بحثیں کی ہیں لیکن وہ کسی دلیل کی بنیاد پر نہیں ہیں اس لئے ہم ان سے صرفِ نظر کرتے ہیں ۔
ضمناً ”وَلَمُلِئْتَ مِنْھُمْ رُعْبًا“ (تیرے وجود پر سر تا پا خوف چھا جاتا) در حقیقت ”لَوَلَّیْتَ مِنْھُمْ فِرَارًا“ (اگر تُو انھیں دیکھتا تو بھاگ کھڑا ہوتا) کی علت ہے یعنی تُو اس لئے بھاگ اٹھتا کہ تُو وحشت زدہ ہوجاتا ۔
بہرحال جب کسی چیز میں الله کا ارادہ شامل ہوجائے تو بڑی معمولی سی چیزوں سے بڑے بڑے نتیجے پیدا ہوجاتے ہیں ۔

 



۱۔ مزید وضاحت کے لئے تفسیر نمونہ جلد سوّم صفحہ۱۰۱ اور جلد ہفتم صفحہ۹۷ (اردو ترجمہ) کی طرف رجوع کریں ۔
سوره کهف / آیه 17 - 18 سوره کهف / آیه 19 - 20
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma