اصحاب کہف کا واقعہ شروع ہوتا ہے

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 12
شان نزول ”اوی الفتیة“ کا مفہوم

اصحاب کہف کا واقعہ شروع ہوتا ہے


گزشتہ آیات میں اس دنیا کی زندگی کے بارے میں بتایا گیا تھا اور یہ واضح کیا گیا تھا کہ یہ دنیا انسان کے لئے ایک آزمائش ہے، قرآن چونکہ عمومی حساس مسائل کے لئے کئی ایک مثالیں پیش کرتا ہے یا گزشتہ تاریخ سے نمونے پیش کرتا ہے لہٰذا یہاں بھی پہلے اصحابِ کہف کا واقعہ بیان کیا گیا ہے اور ان کا ذکر نمونہٴ عمل کے پر کیا گیا ہے ۔
چند بیدار فکر اور نوجوانوں تھے، وہ ناز ونعمت کی زندگی بسر کررہے، انھوں نے اپنے عقیدے کی حفاظت اور اپنے زمانے کے طاغوت کے لئے ان سب نعمتوں کو ٹھوکر ماردی پہاڑ کے ایک غار میں پناہ لی، وہ غار کہ جس میں کچھ بھی نہ تھا ۔ یہ اقدام کرکے انھوں نے راہِ ایمان میں اپنی استقامت اور پامردی ثابت کردی۔
یہ بات لائق توجّہ ہے کہ اس مقام پر قرآن فنِ فصاحت وبلاغت کے ایک اصول سے کا م لیتے ہوئے پہلے افراد کی سرگزشت کو اجمالی طور پر بیان کرتا ہے تاکہ سننے والوں کا ذہن مائل ہوجائے، اس سلسلے میں چار آیات میں واقعہ بیان کیا گیا ہے اور اس کے بعد چودہآیات میں تفصیل بیان کی گئی ہے ۔
پہلے فرمایا گیا ہے: کیا تم سمجھتے ہو کہ اصحابِ کہف ورقیم ہماری عجیب آیات میں سے تھے (اٴَمْ حَسِبْتَ اٴَنَّ اٴَصْحَابَ الْکَھْفِ وَالرَّقِیمِ کَانُوا مِنْ آیَاتِنَا عَجَبًا
زمین وآسمان میں ہماری بہت سی عجیب آیات ہیں کہ جن میں ہر ایک عظمتِ تخلیق کا ایک نمونہ ہے ۔ خود تمھاری زندگی میں عجیب اسرار موجود ہیں کہ جن میں سے ہر ایک تمھاری دعوت کی حقانیت کی نشانی ہے اور اصحابِ کہف کی داستان مسلماً ان سے عجیب تر نہیں ہے ۔
”اصحاب کہف“ (اصحاب غار)کو یہ نام اس لئے دیا گیا ہے کیونکہ انھوں نے اپنی جان بچانے کے لئے غار میں پناہ لی تھی جس کی تفصیل ان کی زندگی کے حالات بیان کرتے ہوئے آئے گی۔
لیکن ”رقیم“ در اصل ”رقم“ کے مادہ سے لکھنے کے معنی میں ہے ۔ زیادہ تر مفسّرین کا نظریہ ہے کہ یہ اصحابِ کہف کا دوسرا نام ہے کیونکہ آخرکار اُس کا نام ایک تختی پر لکھا گیا اور اسے غار کے دروازے پر نصب کیا گیا ۔
بعض اسے پہاڑ کا نام سمجھتے ہیں کہ جس میں یہ غار تھی اور بعض اس زمین کا نام سمجھتے ہیں کہ جس میں وہ پہاڑ تھا، بعض کا خیال ہے کہ یہ اُس شہر کا نام ہے جس سے اصحاب کہف نکلے تھے لیکن پہلا معنی زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے ۔
رہا بعض کا یہ احتمال کہ اصحابِ کہف اور تھے اور اصحابِ رقیم اور تھے ۔ بعض روایات میں ان کے بارے میں ایک داستان بھی نقل کی گئی ہے، یہ ظاہر آیت سے ہم آہنگ نہیں ہے کیونکہ زیرِ نظر آیت کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ اصحابِ کہف ورقیم ایک ہی گروہ کا نام ہے یہی وجہ ہے کہ ان دو الافظ کے استعمال کے بعد صرف ”اصحاب کہف“ کہہ کر داستان شروع کی گئی ہے اور ان کے علاوہ ہر گز کسی دوسرے گروہ کا ذکر نہیں کیا گیا، یہ صورتِ حال خود ایک ہی گروہ ہونے کی دلیل ہے ۔
جو افراد غار میں بند ہوگئے تھے ان میں سے تین کے بارے میں تفسیر نور الثقلین میں مشہور روایات ذکر ہوئی ہیں، ان میں سے ہر ایک نے خدا کو اپنے خالص عمل کا واسطہ دیا جس کی وجہ سے انھیں اس تنگ وتاریک مقام سے رہائی ملی، ان روایات میں ”اصحاب کہف ورقیم“ ایک ہی گروہ کی طرف اشارہ ہے اور آیات کی شانِ نزول میں بھی اسی حقیقت کی تائید کرتی ہے ۔
اس کے بعد فرمایا گیا ہے: اس وقت کا سوچو جب چند جوانوں نے ایک غار میں جاپناہ لی(إِذْ اٴَوَی الْفِتْیَةُ إِلَی الْکَھْفِ
جب وہ ہر طرف سے مایوس تھے، انھوں نے بارگاہِ خدا کا رُخ کیا ”اور عرض کی: پروردگارا! ہمیں اپنی رحمت سے بہرہ ور کر“ (فَقَالُوا رَبَّنَا آتِنَا مِنْ لَدُنْکَ رَحْمَةً وَھَیِّءْ لَنَا مِنْ اٴَمْرِنَا رَشَدًا)۔
ایسی راہ کہ جس میں ہمیں اس تاریک مقام سے چھٹکارا مل جائے اور تیری رضا کے قریب کردے، ایسی راہ کہ جس میں خیر وسعادت ہو اور ذمہ داری ادا ہوجائے ۔
ہم نے ان کی دعا قبول، ان کے کانوں پر خواب کے پردے ڈال دیئے اور وہ سالہا سال تک غار میں ہوئے رہے (فَضَرَبْنَا عَلیٰ آذَانِھِمْ فِی الْکَھْفِ سِنِینَ عَدَدًا
پھر ہم نے انھیں اٹھایا اور بیدار کیا تاکہ ہم دیکھیں کہ ان میں سے کون لوگ اپنی نیند کی مدّت کا بہتر حساب لگاتے ہیں (ثُمَّ بَعَثْنَاھُمْ لِنَعْلَمَ اٴَیُّ الْحِزْبَیْنِ اٴَحْصَی لِمَا لَبِثُوا اٴَمَدًا

شان نزول ”اوی الفتیة“ کا مفہوم
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma