آخری بہانے

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 12
شان نزولجہر و اخفات میں اعتدلال کے دو پہلو

آخری بہانے


گزشتہ آیات میں مشرکین کے کمزور اور بے بنیاد بہانوں کا ذکر تھااور ان کا جواب دیا گیا تھا ۔ زیر نظر آیات میں ان کے آخری بہانوں کا ذکر ہے ۔ وہ کہتے تھے کہ پیغمبر خدا کو مختلف ناموں سے کیوں پکارتے ہیں جبکہ یہ توحید کے مدعی ہیں ۔ قرآن ان کے جواب میں کہتا ہے: کہہ دو : تم اسے ”اللہ “کے نام سے پکارو یا ”رحمٰن“کے نام سے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا اس کے کئی اچھے اچھے نام ہیں (قُلْ ادْعُوا اللهَ اٴَوْ ادْعُوا الرَّحْمَانَ اٴَیًّا مَا تَدْعُوا فَلَہُ الْاٴَسْمَاءُ الْحُسْنَی
دل کے یہ اندھے اپنی روز مرہ کی زندگی پر بھی نظر نہیں کرتے تھے ۔ خود ان کے ہاں ایک شخص، ایک جگہ یا ایک چیز کے لیے کئی کئی نام ہوتے تھے اور یہ مختلف پہلوؤں کے حوالے سے رکھے جاتے تھے ۔ تو کیا ان حالات میں باعثِ تعجب ہے کہ جس کے ہاتھ میں ہے ۔ ، جو تمام کمالات، نعمات اور اچھائیوں کا سرچشمہ ہے، اس جہان کی ہر گردش جس کے ہاتھ میں ہے ۔ اس ذات مقدس کے ہر کمال اور ہر کام کی مناسبت سے کوئی خاص نام ہو ۔
اصولی طور پر اللہ کو صرف ایک نام سے نہ پکارا جاسکتا ہے اور نہ پہنچانا جاسکتا ہے بلکہ ضروری ہے کہ اس کے نام اس کی صفات کی طرح لامتناہی ہوں تاکہ اس ذات کے ترجمان ہوں لیکن ہمارے الفاظ چونکہ ہمارے الفاظ چونکہ ہماری ہر چیز کی طرح محدود ہیں ۔ لہٰذا ہمارے پاس اس کے نام بھی محدود ہی ہیں ۔ اس لیے اللہ کے بارے میں ہماری جتنی بھی معرفت ہو محدود ہے ۔ یہاں تک کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی روح کی عظیم وسعت کے باوجود فرماتے ہیں:
ما عرفناک حق معرفتک
تیری معرفت کا جو حق ہے اتنا ہم تجھے پہچان نہیں پائے ۔
لیکن یہ اس بات کی دلیل نہیں کہ ہماری جتنی عقل اور شعور ہے اتنا اسے نہ پہنچانیں خصوصاً جبکہ وہ اپنی ذات کی معرفت کے لیے خود ہماری مدد بھی بہت کرتا ہے اور اپنی کتاب میں مختلف ناموں سے اپنا ذکر کرتا ہے اور اس کے اولیاء دین کے بیانات میں اس کے ایک ہزار کے قریب اسما ہم تک پہنچے ہیں ۔
واضح ہے کہ یہ سب ”اسم“ہیں اور ”اسم“کا ایک معنی علامت اور نشانی ہے لہٰذا یہ سب اس کی پاک ذات کی نشانیاں ہیں اور یہ سب خطوط ایک ہی نقطے تک جا پہنچتے ہیں اور اس سے اس کی ذات و صفات کی توحید ووحدت پر کوئی فرق نہیں آتا ۔ ان اسماء میں سے بعض زیادہ اہمیت و عظمت کے حامل ہیں کیونکہ ان کے توسط سے ہمیں زیادہ معرفت و آگہی نصیب ہوتی ہے ۔ ان اسماء کو قرآن حکیم اور اسلامی روایات میں ”اسماء الحسنیٰ“سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم سے ایک مشہور روایت میں ہے:
اللہ کے ننانوے نام ہیں جو شخص انہیں شمار کرے گا جنت میں داخل ہوگا ۔
اسماء الحسنیٰ کے مفہوم اور ان ننانوے ناموں کے بارے میں ہم ساتویں جلد میں سورہ اعراف کی آیہ ۱۸۰ کی تفسیر میں تفصیلی گفتگو کرچکے ہیں ۔ آیت یوں ہے:
وللّٰہ الاسماءُ الحسنیٰ فادعُوُبہا
اور اللہ کے اچھے اچھے نام ہیں ۔ اسے ان ناموں سے پکارا کرو ۔
لیکن اہم بات یہ ہے کہ ہم سمجھیں کہ ان ناموں کو شمار کرنے کا یہ معنی نہیں کہ ان ناموں کو صرف زبان پر جاری کرلیں اور اللہ کو ان ناموں سے پکاریں تاکہ جنتی یا مستجاب الدعوة ہوجائیں ۔ مقصد یہ ہے کہ ان اسماء کو عملی طور پر اپنا یا جائے ۔ عالم، رحمان، رحیم ، جواد، کریم جیسے ناموں کا پرتو اپنے وجود پر ڈالا جائے اور عملی زندگی میں انہیں اپنایا جائے تاکہ ہم جتنی بھی ہوجائیں اور ہماری دعا بھی ہر حالت میں مستجاب ہو ۔
مرحوم صدوق نے اپنی کتاب توحید میں ہشام بن حکم سے ایک حدیث نقل کی ہے ۔ اس میں ہے:
ہشام کہتا ہے میں نے امام سے اللہ کے ناموں کے بارے میں پوچھا اور یہ بھی پوچھا کہ ان کی بنیاد کیا ہے ۔ نیز میں نے کہا کہ ”اللہ“کس سے مشتق ہے ۔ تو امام نے فرمایا:
اے ہشام ! یہ لفظ ”الہ“ سے لیا گیا ہے جس کا معنی ہے ”تحیّر“اور”الہ“ کا مفہوم یہ ہے کہ وہ کوئی ”ماٴلوہ“رکھتا ہو(وہ ذات کہ کوئی شخص جس کی ذات کی حقیقت اور کہنہ کی شناخت کے لیے حیران و سرگردان ہو)۔
لیکن اس بات کو جانو کہ اسم مسمیٰ کا غیر ہے لہٰذا جو صرف نام کی پرستش کرتا ہے بغیر مفہوم و مطلوب کے، وہ کافر ہے اور در حقیقت اس نے کسی چیز کی پرستش نہیں کی اور جو اسم اور مسمٰی دونوں کی پرستش کرتا ہے وہ بھی کافر ہے کیونکہ وہ دو کی پرستش کرتا ہے نہ کہ اسم کی (بلکہ اسم کو اس معنی تک پہنچنے کے لیے علامت سمجھے)تو یہ سچی توحید کی حقیقت ہے ۔
اے ہشام! سمجھ۔
ہشام کہتا ہے: میں نے عرض کیا کہ کچھ سمجھا ہوں ۔ میرے لیے کچھ وضاحت اور کیجیے آپ(علیه السلام) نے فرمایا:
خدائے بزرگ و برتر کے نانوے نام ہیں ۔ ہر اسم کا اگر ایک مسمی ہو تو ننانوے خدا ہونے چاہئیں لیکن ”اللہ“ایک نام ہے کہ جو ان صفات کی طرف اشارہ کرتا ہے اور بہرحال اس کے تمام نام اس کی ذات کے غیر ہیں ۔
اے ہشام: روٹی نام ہے ایک چیز کا جسے کھایا جاتا ہے اور پانی نام ہے ایک چیز کا جسے پیا جاتا ہے اور لباس نام ہے ایک چیز کا جسے پہنا جاتا ہے اور آگ نام ہے اس چیز کو جو جلاتی ہے (لیکن یہ سب نام ہیں اور وہ چیز کہ جسے ہم کھاتے ہیں، پیتے ہیں، پہنتے ہیں اور جس کے جلانے سے ڈرتے ہیں وہ نام نہیں ہیں بلکہ عینیتِ خارجی ہے)۔(2)
مشرکین مکہ رسول اللہ پر ایک اعتراض اور کرتے تھے ۔ وہ کہتے تھے کہ یہ اپنی نماز بلند آواز سے پڑھتا ہے اور ہمیں بے آرام کرتا ہے، یہ کیسی عبادت ہے اور کیا طرز عمل ہے؟
قرآن رسول اللہ کو حکم دیتا ہے: اپنی نماز نہ زیادہ بلند آواز سے پڑھو اور نہ بہت آہستہ بلکہ درمیانی راہ اپناؤ (وَلَاتَجْھَرْ بِصَلَاتِکَ وَلَاتُخَافِتْ بِھَا وَابْتَغِ بَیْنَ ذٰلِکَ سَبِیلًا
لہٰذا مذکورہ بالا آیت مشہور فقہی اصطلاح کے مطابق جہریہ اور اخفائیہ نمازوں سے متعلق نہیں ہے بلکہ اس کے پیش نظر بلند یا آہستہ پڑھنے میں افراط و تفریط کا مسئلہ ہے ۔ فرمایا گیا ہے کہ نہ زیادہ بلند پڑھو کہ شور معلوم ہو اور نہ اتنا آہستہ کہ صرف جنبشِ لب باقی رہ جائے اور کان تک آواز ہی نہ آئے ۔
اکثر مفسرین نے آیت کی جوشانِ نزول ابن عباس سے نقل کی ہے وہ بھی اسی معنی کی موٴید ہے ۔
نیز امام باقر(علیه السلام) اور امام صادق علیہ السلام سے مروی جو متعدد روایات طرقِ اہلِ بیت(علیه السلام) سے ہم تک پہنچی ہیں وہ بھی اسی تفسیر کی طرف اشارہ کرتی ہیں ۔(3)

مندرجہ بالا گفتگو کے پیشِ نظر اس آیت کے بارے میں جو دیگر تفاسیر بیان ہوئی ہیں وہ سب اصل مطلب سے دور معلوم ہوتی ہیں ۔
البتہ یہاں حد اعتدال سے کیا مراد ہے اور جس جہرو اخفات سے منع کیا گیا ہے، وہ کیا ہے؟ اس سلسلے میں پتہر یہ ہے کہ ”جہر“شور مچانے کے معنی میں ہے اور ”اخفات“اس قدر آہستہ بڑھنے کے معنی میں کہ انسان خود بھی نہ سن سکے ۔
تفسیر علی بن ابراہیم میں امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ(علیه السلام) نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا:
الجھر بھا رفع الصوت، والتخافت بھا مالم تسمع نفسک، واقراٴ بین ذٰلک۔
”جہر“آواز زیادہ بلند کرنے کو کہتے ہیں اور ”اخفات“یہ ہے کہ تم خود بھی نہ سن سکو ۔ ان دو میں سے کسی کو انجام نہ دو بلکہ ان دونوں کے درمیان حدِ وسط اختیارکرو ۔(4)
رہا دن اور رات کی نمازوں میں جہرواخفات کا مسئلہ، تو جیسے ہم سطور بالا میں اشارہ کرچکے ہیں، یہ ایک الگ حکم ہے، اس کا مفہوم اور دلائل مختلف ہیں ۔ ہمارے فقاء (رضوان اللہ علیہم)نے ان کے مدارک کتاب الصلوٰة میں بیان کیے ہیں ۔

 

 



۱۔ مجمع البیان، زیر نظر آیت کے ذیل میں ۔
2۔ تفسیر المیزان، زیر بحث آیت کے ذیل میں، بحوالہ توحید صدوق۔
3۔ تفسیر نورالثقلین، ج ۳ ص ۲۳۳
4۔ تفسیر نورالثقلین، ج ۳ ص ۲۳۴
شان نزولجہر و اخفات میں اعتدلال کے دو پہلو
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma