چند قابل توجہ نکات“کا تسلسل:

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 12
عاشقانِ حق۱۔ تعلیمی و تربیتی پروگرام

چند قابل توجہ نکاتا“کا تسلسل:


عام طور پر مفسرین کا نظریہ ہے کہ ”اٰمنوا بہ اولا توٴمنوا“کا ایک تسلسل ہے جو مخدوف ہے اور کلام کے قرینے سے واضح ہوتا ہے ۔ مفسرین نے اسے کئی طرح سے ذکر کیا ہے:
بعض کہتے ہیں مراد یہ کہ تم مانو یا نہ مانو، اعجاز قرآن اور اس کا ”منزل من اللّٰہ“ ہونا واضح ہے ۔
بعض دیگر کہتے ہیں اس جملے کی تکمیل یہ ہے کہ تم مانو یا نہ مانو ، اس کا فائدہ یا نقصان تو تمہیں ہی پہنچے گا ۔
یہ احتمال بھی ہے کہ بعد والا جملہ پہلے جملے کی تکمیل کرتا ہو ۔ اس کی نظیر اردو زبان میں بھی ہے ۔ مثلاً ہم کہتے ہیں:
تو میری بات مانے یا نہ مانے، جو اہلِ علم و دانش اور صاحبِ علم و فراست ہیں وہ مانتے ہیں ۔
یہ جملہ اس امر کی طرف کنایہ ہے کہ تیرے نہ ماننے کی وجہ تیری عدمِ آگاہی اور بے علمی ہے اگر تو صاحبِ علم و دانش ہوتا تو مان لیتا ۔ دوسرے لفظوں میں:
اگر تو ایمان نہ لائے تو آگاہ اور داشمند افراد ایمان لے آئیں گے ۔
۲۔ ”الذین اوتو العلم من قبلہ“سے کون مراد ہیں؟:
اس سے مراد وہ یہیودی اور عیسائی علماء ہیں جنہوں نے قرآنی آیات سنیں اور تورات و انجیل کے مطابق علامات پائیں تو ایمان لے آئے اور حقیقی مومنین کی صف میں شامل ہوگئے اور علماء اسلام میں سے شمار ہونے لگے ۔
قرآن پاک کی کچھ دیگر آیات میں بھی اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔ مثلاً:
<لَیْسُوا سَوَاءً مِنْ اٴَھْلِ الْکِتَابِ اٴُمَّةٌ قَائِمَةٌ یَتْلُونَ آیَاتِ اللهِ آنَاءَ اللَّیْلِ وَھُمْ یَسْجُدُونَ
وہ سب برابر نہیں ہیں ۔ اہلِ کتاب میں سے کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو (حق اور ایمان کے ساتھ)قیام کرتے ہیں اور رات کے وقت ہمیشہ آیاتِ خدا کی تلاوت کرتے ہیں اور سجدے بجالاتے ہیں ۔(آلِ عمران۔۱۱۳)
۳۔ ”یخرّون“کا مفہوم:
اس کا معنی ہے ”بے اختیار زمین پر گر پڑتے ہیں“یہ تعبیریسجدون“(وہ سجدہ کرتے ہیں) کی بجائے آئی ہے ۔ یہاں اس کا استعمال ایک لطیف نکتے کی طرف اشارہ کررہا ہے ۔ وہ یہ کہ جن افراد کے دل بیدار و آگاہ ہوتے ہیں آیات الٰہی سنتے ہی وہ خدائی باتوں کے ایسے شیفتہ ہوتے ہیں کہ دیوانہ وار بے اختیار سجدہ ریز ہوجاتے ہیں گویا دل و جان اس کی نذر کردیتے ہیں ۔(1)
۴۔ ”اذقان“کا مطلب :
اذقان“”ذقن“کی جمع ہے ۔ اس کا معنی ہے ”ٹھوڑی“ہم جانتے ہیں کہ کوئی شخص بھی سجدہ کرتے وقت اپنی ٹھوڑی زمین پر نہیں رکھتا لیکن آیت کی تغبیر اس طرف اشارہ اشارہ ہے کہ وہ وہ بارگاہِ الٰہی میں پورا چہرہ زمین پر رکھ دیتے ہیں یہاں تک کہ ٹھوڑی جو اس سلسلے میں چہرے کا آخری حصہ ہوسکتا ہے وہ بھی زمین پر لگ جاتا ہے اور اس طرح وہ اس طرح وہ اس کی بارگاہ کی عظمت کا اظہار کرتے ہیں ۔

۔
بعض مفسرین نے یہ احتمال بھی ذکر کیا ہے کہ سجدے میں عموماً انسان پہلے اپنی پیشانی خاک پر رکھتا ہے لیکن جو شخص مدہوشی کے عالم میں بے اختیار زمین پر گرتا ہے اس کی زمین پر پہلے ٹھوڑی لگتی ہے ۔ یہ تعبیر آیت میں ”یخرّون“کے مفہوم کی تاکید کرتی ہے ۔(2)
اگلی آیت میں ان کی اس گفتگو کا ذکر ہے جو وہ سجدہ ریز ہوتے ہوئے کرتے ہیں : وہ کہتے ہیں: پاک ہے ہمارا رب، یقینا ہمارے رب کے وعدے پورے ہوکے رہیں گے (وَیَقُولُونَ سُبْحَانَ رَبِّنَا إِنْ کَانَ وَعْدُ رَبِّنَا لَمَفْعُولًا)۔(3)
وہ اپنے ان الفاظ میں پروردگار کی ربوبیت، اس کی پاکیزہ صفات اور اس کے وعدوں کی سجائی کے بارے میں اپنے حقیقی ایمان اور عقیدت کا اظہار کرتے ہیں ۔ یہ وہ گفتگو ہے جس میں توحید پر ایمان ، حق تعالیٰ کی صفات اور اس کی عدالت سب کچھ موجود ہے ۔ اس میں پیغمبر کی نبوت اور معاد کا عقیدہ بھی موجود ہے گویا انہوں نے اصولِ دین کو ایک ہی جملے میں جمع کردیا ہے ۔
ان آیات الٰہی اور اس عاشقانہ سجدے کا تاثیر کا ذکر اگلی آیت میں بھی جاری ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے: وہ پورے چہرے کے بل خاک پر گر پڑتے ہیں، ان کے اشک روان ہوتے ہیں اور پروردگار کے حضور ان کے خشوع و خضوع میں اضافہ ہی ہوتا رہتا ہے( وَیَخِرُّونَ لِلْاٴَذْقَانِ یَبْکُونَ وَیَزِیدُھُمْ خُشُوعًا
وَیَخِرُّونَ لِلْاٴَذْقَانِ“کا تکرار تاکید کی دلیل بھی ہے اور ہمیشگی کی بھی ۔اسی طرح ”یَبْکُونَ“فعل مضارع کا استعمال عشق و مستی میں ان کے دائمی گریے کی دلیل ہے ۔نیز ”یَزِیدُھُمْ خُشُوعًا“(ان کا خشوع بڑھتا ہے)میں فعل مضارع کا استعمال، اس امر کی ایک اور دلیل ہے کہ ان کی حالت ایک سی نہیں رہتی بلکہ وہ ہمیشہ رشد و کمال کی بلندیوںکی طرف پیش قدمی کرتے رہتے ہیں اور ان کا خشوع و خضوع ہر لمحہ بڑھتا رہتا ہے ۔
خشوع جسمانی و روحانی انکساری ، ادب اور تواضع کی ایک کیفیت ہے جو مسی شخصیت یا حقیقت کے سامنے ہوتی ہے ۔

 

 



1۔ راغب نے مفردات میں کہا ہے:
”یخرّون“در اصل ”خریر“کے مادہ سے ہے کہ جو پانی یا اس جیسی چیز بلندی سے گر رہی ہوتو اس کی آواز کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ سجدہ کرنے والوں کے لیے اس تعبیر کا استعمال اس چیز کی نشانی ہے کہ وہ اپنے رب کے حضور زمین پر اس عالم میں گرتے ہیں کہ ان کی تسبیح کی آواز بلند ہوتی ہے
2۔ روح المعانی، ج ۱۵ ص ۱۷۵۔
3۔ ”ان کان وعد ربنا“میں”ان“ شرطیہ نہیں بلکہ تاکید کے طور پر اور مثقلہ سے مخففہ ہے ۔
عاشقانِ حق۱۔ تعلیمی و تربیتی پروگرام
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma