عاشقانِ حق

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 12
سوره اسراء / آیه 105 - 109 چند قابل توجہ نکات“کا تسلسل:

عاشقانِ حق


ان آیات میں ایک مرتبہ پھر قرآن کی عظمت و اہمیت واضح کی گئی ہے اور مخالفین کے بعض اعتراضات اور بہانہ سازیوں کا جواب دیا گیا ہے ۔
ارشاد ہوتا ہے: ہم نے قرآن کو حق کے ساتھ نازل کیا ہے( وَبِالْحَقِّ اٴَنزَلْنَاہُ
ساتھ ہی مزید فرمایا گیا ہے: اور یہ حق کے ساتھ نازل ہواہے ( وَبِالْحَقِّ اٴَنزَلْنَاہُ )۔اور تجھے ہم نے صرف بشیر و نذیر بنا کر بھیجا ہے ۔(وَبِالْحَقِّ نَزَلَ وَمَا اٴَرْسَلْنَاکَ إِلاَّ مُبَشِّرًا وَنَذِیرًا
یہ جو پہلے فرمایا گیا ہے ”وَبِالْحَقِّ اٴَنزَلْنَاہ“اور ساتھ ہی فرمایا گیا ہے ”وَبِالْحَقِّ اٴَنزَلْنَاہ“ ان دونوں جملوں میں کیا فرق ہے؟
اس سلسلے میں مفسرین نے مختلف باتیں کی ہیں، مثلاً:
۱۔ پہلے جملے سے مراد یہ ہے کہ ہم نے مقدر کیا ہے کہ قرآن حق کے ساتھ نازل ہو اور دوسرا جملہ کہتا ہے کہ اس فیصلے پر عمل در آمد ہوگیا ہے ۔ اس بناء پر ایک جملہ تقدیر کی طرف اشارہ ہے اور دوسرا اس پر عمل در آمد کی طرف۔(۱)
۲۔ پہلے جملے سے مراد یہ ہے کہ قرآن کا مواد، مضمون حق ہے اور دوسرے جملے سے مراد یہ ہے کہ اس نتیجہ اور ثمرہ بھی حق ہے ۔(۲)
۳۔ پہلے جملے سے مراد ہے کہ ہم نے قرآن کو حق کے ساتھ نازل کیا اور دوسرا جملہ کہتا ہے کہ رسول اللہ چونکہ اس میں دخل و تصرف کا حق نہیں رکھتے تھے لہٰذا یہ حق کے ساتھ نازل ہوا ہے ۔

لیکن یہاں ایک اور احتمال بھی پیدا ہوتا ہے کہ جو مذکورہ بالا تفاسیر کی نسبت واضح تر ہے اور وہ یہ کہ بعض اوقات انسان ایک کام شروع کرتا اس کی طاقت چونکہ محود ہے اس لیے وہ اسے آخر تک اسی صحیح طریقے سے نبھا نہیں سکتا مگر جو تمام چیزوں سے آگاہ ہے اور تمام چیزوں پر قدرت رکھتا ہے وہ ابتداء بھی صحیح طریقے سے کرتا ہے اور اختتام پر بھی اس کام کو مکمل طور پر اور صحیح طرح انجام دیتا ہے ۔
مثلاً کوئی شخص کسی ایک مقام سے صاف و شفاف پانی جاری کرتا ہے لیکن اسے راستے آلودگیوں سے محفوظ نہیں رکھ پاتا لہٰذا استعمال کرنے والوں کو وہ صاف پانی میسر نہیں آتا لیکن جو اپنے کام پر پوری گرفت رکھتا ہے وہ ابتدائی طور پر بھی پاک صاف پانی نکلتا ہے اور اسے پیاسوں کے برتنوں تک بھی پاک و صاف حالت میں پہنچا دیتنا ہے ۔
قرآن بھی بالکل ایک ایسی کتاب ہے کہ وہ ا لله کی طرف سے حق کے ساتھ نازل ہوئی ہے اور ابلاغ کے سارے راستے میں صحیح اور محفوظ رہی ہے ۔ اس مرحلے میں بھی کہ جب جبرائیل اس کا واسطہ تھے اور اس مرحلے میں بھی کہ حب رسول الله اسے لینے والے تھے، یہاں تک کہ زمانہ گزرنے کے باوجود ہر قسم کی تحریف سے بیباک اور محفوظ رہی ہے جیسا کہ اس آیت کا تقاضا ہے:
إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہُ لَحَافِظُونَ
یقیناً ہم ہی نے اس ذکر کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے محفوظ ہیں ۔(الحجر۔۹)
یہ کتاب ہر لحاظ سے محفوظ ہے کیونکہ اس کی حفاظت الله نے اپنے ذمہ لی ہے ۔ لہٰذا یہ وحی الٰہی کا صاف و شفاف پانی دور نبوی سے لے کر اختتام عالم تک محفوظ ہے اور ہر قسم کی دست اندازی سے پاک دلوں کی تشنگی کو سیراب کرتا ہے ۔
اگلی آیت میں مخالفین کی بہانہ سازیوں میں سے ایک جواب دیا گیا ہے ۔ وہ کہتے تھے کہ قرآن ایک ہی مقام پر سارا رسول الله پر کیوں نارل نہیں ہوگیا اور اس کی روش بالکل تدریجی کیوں ہے؟ ( جیسا کہ سورہ فرقان ک یآیہ۳۲ میں اس اعتراض کی طرف اشارہ کیا گیا ہے)۔
ارشاد ہوتا ہے:”ہم نے الگ الگ آیتوں کی صورت میں تجھ پر قرآن نازل کیا ہے تاکہ تو اسے لوگوں کے سامنے اطمینان کے ساتھ تدریجی طور پر پڑھے“ اور یہ دل و ماغ میں اچھی طرح سے اتر جائے اور پوری طرح عملی شکلی بھی اختیار کرلے(وَقُرْآنًا فَرَقْنَاہُ لِتَقْرَاٴَہُ عَلَی النَّاسِ عَلیٰ مُکْثٍ)۔(۱)

۱۔ بہت سے مفسرین کے مطابق ”َقُرْآنًا“ کہ جو مندرجہ بالا آیت میں منصوب صورت میں آیا ہے ایک فعل مقدر کے ذریعے ہیں ۔”فَرَقْنَاہ“اس کی تفسیر کررہا ہے اور تقدیر میں یوں تھا: ”فَرَقْنَاہُ َقُرْآنًا
مزید تاکید کرتے ہوئے غرمایا گیا ہے:یقیناً یہ سارا کا ساراقرآن ہم نے نازل کیا ہے( وَنَزَّلْنَاہُ تَنزِیلًا
سطحی نظر رکھنے والے خصوصاً بہانہ ساز لوگوں کی نظر میں بے شک نزول قرآن کی یہ کیفیت قابل اعتراض ہوگی۔ وہ کہیں گے کہ یہ کتاب کہ جو بنیاد اسلام ہے، ساری انسانیت کی راہنماہے، مسلمانوں کے لیے تمام معاشرتی حقوق اور سیاسی و عبادتی قوانین کا سرچشمہ ہے ایک ہی مرتبہ ساری کی ساری رسول الله پر نازل کیوں نہیں ہوگئی تا کہ لوگ ہمیشہ اسے شروع سے آخر تک پڑھ کر ان امور سے باخبر ہوجائیں ۔
لیکن۔ تھوڑا سا غور کیا جائے تو اس اعتراض کا کافی و وافی جواب مل جاتا ہے ۔ کیونکہ:
اولاً: قرآن اگر چہ ایک کتاب ہے لیکن یہ انسانوں کی کسی تالیف کی مانند نہیں ہے کہ جو کسی ایک موضوع پر کتاب لکھنے بیٹھتے ہیں تو اسے پیش نظر رکھ کر اس کے ابواب کی تقسیم و تنظیم کرتے ہیں او رپھر اسے ضبط تحریر میں لاتے ہیں ۔ یہ تو ایسی کتاب ہے کہ جس کا پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کے تیئس سالہ دور نبوت کے واقعات سے نہ ٹوٹنے والا تعلق ہے ۔ کیسے ممکن ہے کہ جو کتاب ۲۳ سالہ واقعات سے مربوط ہو اکھٹی ایک ہی روز میں نازل ہوجائے ۔کیا ۲۳ سال کے واقعات ایک دن میں جمع ہوسکتے ہیں؟
قرآن حکیم کے بہت سے حصے اسلامی غزدات سے مربوط ہیں ۔اس کا کچھ حصہ منافقین کی دسیسہ کاریوں سے متعلق ہے ۔ اس کے کچھ مسائل ان وفود سے متعلق ہیں کہ جو مختلف قوموں کی طرف سے رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کے پاس آئے تھے اور آپ حکمِ الٰہی کے مطابق ان کے جواب کے لیے عملی اقدام کرتے تھے ۔
کیا ممکن ہے کہ یہ سب امور پہلے ہی دن لکھ لیے جائیں؟
ثانیاً:قرآن صرف تعلیمی کتاب نہیں ہے بلکہ ضروری ہے کہ ہر آیت کے نزول کے بعد اس کا اجراء ہو اور اس پر عمل در آمد ہو ۔لہٰذا سارا قرآن یکجا نازل ہوتا یکجا اس کا اجراء بھی ہونا چاہئے تھا جبکہ ہم جانتے ہیں کہ اس کا ایکجا اور اکھٹا اجراء ایک امر محال تھا کیونکہ جو معاشرہ سرتا پا فاسد تھا ایک ہی دن میں اس کی اصلاح نہیں ہوسکتی تھی۔ایک ان پڑھ بچے کو ایک ہی دن میں پہلی کلاس سے ڈاکٹریٹ تک نہیں پہنچایا جاسکتا ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن تدریجاً نازل ہوا ہے تاکہ اس کا اجزاء اچھے طریقے سے ہوسکے اور یہ پوری طرح معاشرے میں اپنا مقام بنا سکے، کسی تزلزل کا شکار نہ ہو اور معاشرے اسے قبول و محفوظ رکھنے کے قابل ہوسکے ۔
ثالثاً: خودرسول اللہ کہ جو اس عظیم انقلاب کے رہبر تھے اگر سارے قرآن کے نافذ کرنے کے لئے تقسیم کرنا چاہتے تو اس کی نسبت تدریجی اجراء کا طریقہ ان کے لیے قوی تر تھا اور آمادگی پیدا کرنے کے لحاظ سے بہتر تھا ۔ یہ ٹھیک ہے کہ وہ اللہ کے بھیجے ہوئے تھے اور بے نظیر عقل و توانائی کے حامل تھے ۔تاہم زیادہ بہتر اور اکمل تر تدریجی قبولیت اور تدریجی اجراء ہی کی صورت تھی
رابعاً:تدریجی نزول کا مفہوم یہ ہے کہ مبداء وحی کے ساتھ پیغمبر کا ارتباط دائمی ہے جبکہ یکجا اور یکبار نزول ایک سے زیادہ مرتبہ سرچشمہ وحی سے ارتباط کی ضمانت نہیں دیتا ۔
سورہ فرقان کی آیہ ۳۲ میں ہے:
<کَذٰلِکَ لِنُثَبِّتَ بِہِ فُؤَادَکَ وَرَتَّلْنَاہُ تَرْتِیلًا
ہم نے قرآن کو تجھ پر اس طرح نازل کیا ہے کہ تیرا دل مضبوط ہو اور ہم نے تیرے لیے آہستہ آہستہ اور تدریجاً پڑھا ہے ۔
یہ آیت تدریجی نزول کے تیسرے فلسفے کی طرف اشارہ کرتی ہے جبکہ ہماری زیر بحث آیت زیادہ تر دوسرے فلسفے کی طرف اشارہ کرتی ہے ۔
بہرحال یہ تمام عوامل قرآن کے تدریجی نزول کی حکمت و فلسفہ کے لیے روشن دلیل ہیں ۔
اگلی آیت نادان مخالفین کا غرور ختم کرنے کے لیے کہتی ہے: چاہے ایمان لاؤ یا نہ لاؤ جنہیں اس سے پہلے علم دیا گیا ہے ان کے سامنے جب قرآن پڑھا جاتا ہے نو وہ منہ کے بل خاک پر گر پڑتے ہیں اور اس کے سامنے سر تسلیم خم کردیتے ہیں ( قُلْ آمِنُوا بِہِ اٴَوْ لَاتُؤْمِنُوا إِنَّ الَّذِینَ اٴُوتُوا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِہِ إِذَا یُتْلَی عَلَیْھِمْ یَخِرُّونَ لِلْاٴَذْقَانِ سُجَّدًا

 

 



۱۔ تفسیر قربطی، ج ۶ ص ۳۹۵۵
۲۔ تفسیر فی ظلال القرآن، زیر بحث آیت کے ذیل میں ۔
سوره اسراء / آیه 105 - 109 چند قابل توجہ نکات“کا تسلسل:
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma