ان نشانیوں کے باوجود وہ ایمان نہ لائے

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 12
سوره اسراء / آیه 101 - 104 ۱۔ حضرت موسیٰ کے نو معجزات

ان نشانیوں کے باوجود وہ ایمان نہ لائے


پہلے کی چند آیات میں ہم نے پڑھا ہے کہ مشرکین، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے کیسے عجیب و غریب تقاضے کرتے تھے ۔ خود ان کی اپنی باتوں سے ظاہر تھا کہ ان کا مقصد تلاش حق نہیں ہے بلکہ وہ رسول اللہ کے سامنے ہٹ دھرمی اور عذر تراشی کا مظاہرہ کرتے تھے ۔
زیر بحث آیات میں درحقیقت گزشتہ امتوں کی تاریخ سے اسی صورتِ حال کا ایک نمونہ پیش کیا گیا ہے ۔ ان آیات سے واضح ہوتا ہے کہ امتوں کی تاریخ سے اسی صورتِ حال کا ایک نمونہ پیش کیا گیا ہے ۔ ان آیات سے واضح ہوتا ہے کہ ان لوگوں نے کیسے کیسے معجزات دیکھے مگر پھر بھی بہانے تراشے اور انکار کا راستہ ترک نہ کیا ۔
پہلی آیت میں فرمایا گیا ہے: ہم نے موسیٰ کو نو آیات اور واضح نشانیاں دیں (وَلَقَدْ آتَیْنَا مُوسیٰ تِسْعَ آیَاتٍ بَیِّنَاتٍ
یہ نو آیتیں کیا تھیں اس سلسلے میں ہم اسی بحث کے آخر میں گفتگو کریں گے ۔
مزید تاکید کے طور پر فرمایا گیا ہے: تیرے مخالفین اگر اس بات کا بھی انکار کردیں تو اتمام حجت کے لیے ”بنی اسرائیل سے پوچھ لوکہ جب ہی نشانیاں ان کے پاس آئیں تو کیا صورتِ حال تھی“( فَاسْاٴلْ بَنِی إِسْرَائِیلَ إِذْ جَائَھُمْ
لیکن مغرور سرکش اور جابر فرعون نے نہ صرف ان کے سامنے سرِ تسلیم خم نہ کیا بلکہ موسی(علیه السلام)ٰ کو جادوگر یا دیوانہ ہونے کا الزام دیا اور کہا: اے موسیٰ! میرا گمان ہے کہ تو جادو گر ہے یا دیوانہ (فَقَالَ لَہُ فِرْعَوْنُ إِنِّی لَاٴَظُنُّکَ یَامُوسیٰ مَسْحُورًا
مَسْحُورًا“کے معنی کے حوالے سے مفسرین نے دو تفسیریں کی ہیں:
بعض نے اسے ساحر و جادو گرکے معنی میں لیا ہے اور اس کے لیے قرآن حکیم کی ان آیات کو شاہد کے طور پر پیش کیا ہے جو کہتی ہیں کہ فرعون اور اس کے حواری ہر کہیں انہیں ساحر ہونے کا الزام دیا کرتے تھے ۔ اور اسم مفعول کہ جو فاعل کے معنی میں آیا ہے لغت عرب میں اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں مثلاً”مشئوم“”شائم“کے معنی میں (یعنی وہ شخص جو بدبختی کا باعث ہو)اور”میمون“”یامن“کے معنی میں (یعنی وہ شخص جو خوش بختی کا باعث ہو)۔
جبکہ بعض دیگر مفسرین نے ” مَسْحُور“کو اسی مفعول کے معنی میں لیا ہے یعنی وہ شخص جس پر جادو نے اثر کیا ہو ۔جیسا کہ سورہ ذاریات کی آیہ ۳۹ سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے حضرت موسیٰ کو جادو کا الزام بھی دیا اور جنوں کا بھی ۔
بہرحال مستکبرین کا ہمیشہ یہ طریقہ رہا ہے کہ نظام بدلنے کے لیے مردان حق کی جدو جہد کو سبو تاژ کرنے کے لیے اس طرح کا پراپیگنڈا کیا کرتے تھے ۔ مردان حق جب فاسد معاشرے کے خلاف قیام کرتے اور معجزات پیش کرتے تو یہ لوگ کبھی انہیں جادو گر کہتے اور کبھی دیوانہ تاکہ ساتدہ لوح لوگوں کو بھٹکا سکیں اور انہیں انبیاء کے پاس سے دور کرسکیں ۔
اس ناروا تہمت پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے سکوت نہیں کیا اور پورے اعتماد اور یقین سے کہا: اے فرعون! تو خوب جانتا ہے کہ ان نور بخش آیات کو آسمانوں اور زمین کے رب کے علاوہ کسی نے نازل نہیں کیا ( قَالَ لَقَدْ عَلِمْتَ مَا اٴَنزَلَ ہَؤُلَاء إِلاَّ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ بَصَائِرَ
لہٰذا تو علم و آگہی کے باوجود حقائق کا انکار کرتا ہے ۔ تو اچھی طرح سے جانتا ہے کہ یہ معجزات و آیات خدا کی طرف سے ہیں اور مجھے بھی علم ہے کہ تو جانتا ہے ۔ یہ ”بَصَائِر“ہیں، آشکار و واضح دلائل۔ کہ جن کے ذریعے لوگ راہِ حق تلاش کرلیتے ہیں اور جادہ حق کو طے کرنے کے لیے جن سے بصیرت حاصل کرتے ہیں لہٰذا تو چونکہ شناختِ حق کا باوجود انکار کرتا ہے اے فرعون! میں سمجھتا ہوں کہ آخر کار تو ہلاک ہوکر رہے گا ( وَإِنِّی لَاٴَظُنُّکَ یَافِرْعَوْنُ مَثْبُورًا
مَثْبُور“”ثْبُور“کے مادہ سے ہلاکت کے معنی میں ہے ۔
فرعون چونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دندان شکن دلائل کی تاب نہیں لاسکتا تھا لہٰذا اس نے اسی چیز کا سہارا لیا کہ جس کا ہر دور میں بے منطق طاغوت سہارا لیتے آئے ہیں ۔ ”اس نے ارادہ کرلیا کہ انہیں اس علاقے سے باہر نکال دے گا لیکن ہم نے اسے اور اس کے سب ساتھیوں کو غرق کردیا“ ( فَاٴَرَادَ اٴَنْ یَسْتَفِزَّھُمْ مِنَ الْاٴَرْضِ فَاٴَغْرَقْنَاہُ وَمَنْ مَعَہُ جَمِیعًا
”یستفز“”استفزار“کے مادہ سے زور اور سختی کے ساتھ باہر دھکیلنے کے معنی میں ہے ۔
اس عظیم کامیابی کے بعد ہم نے بنی اسرائیل سے کہا: (مصر و شام کے)اس علاقے میں رہو سہو (وَقُلْنَا مِنْ بَعْدِہِ لِبَنِی إِسْرَائِیلَ اسْکُنُوا الْاٴَرْضَ)۔
لیکن جب وعدہ آخرت کا وقت آپہنچے گا تو ہم تم سب کو میزان حساب کے پاس اکٹھا حاضر کریں گے ( فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ الْآخِرَةِ جِئْنَا بِکُمْ لَفِیفًا
”لَفِیف“”لَفِ“کے مادہ سے پیچ و خم دینے کے معنی میں ہے اور یہاں وہ لوگ مراد ہیں کہ جو ایک وسرے کے ساتھ بالکل اس طرح گھُلے ملے ہوں کہ ان کی انفرادیت اور قبیلہ نہ پہنچانا جاتا ہو ۔

سوره اسراء / آیه 101 - 104 ۱۔ حضرت موسیٰ کے نو معجزات
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma