روح کی اصالت واستقلال

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 12
روح کیاہے؟استدلال روح کے دلائل

روح کی اصالت واستقلال


علم ، انسان کی تاریک شاہد ہے کہ روح، اس کی ساخت اور اس کے اسرار آمیز خصوصیات کا مسئلہ ہمیشہ علماء کے غور وفکر کا عنوان رہا ہے، ہر عالم نے اپنی بساط بھر کوشش کی ہے کہ روح کی وادی اسرار میں قدم رکھے، یہی وجہ ہے کہ روح کے بارے میں علماء کے نظریات بہت زیادہ اور متنوع ہیں، ہوسکتا ہے ہمارآج کا علم بلکہ آئندہ آنے والوں کا علم بھی روح کے تمام اسرار ورموز تک پہنچنے کے لئے کافی نہ ہو اگرچہ ہماری روح اس دنیا کی ہر چیز سے ہمارے قریب تر ہے اگرچہ اس کا گوہر ہر چیز سے بالکل مختلف ہے جس سے ہمیں اس عالمِ مادہ میں سابقہ پڑتا ہے ۔
اس پر زیادہ تعجب بھی نہیں کرنا چاہیئے کہ ہم اس عجوبہ روزگار اور ما فوقِ مادہ مخلوق کے اسرارو حقیقت تک نہیں پہنچ سکے، بہرحال یہ صورت حال اِس سے مانع نہیں ہے کہ ہم روح کے دور سے نظر آنے والے منظر کو عقل کی تیز بین نگاہ سے دیکھ سکیں، اس پر حکم فرما اصول اور عمومی نظام سے آگاہی حاصل کر سکیں، اس سلسلے میں اہم ترین روح کی اصالت واستقلال کا مسئلہ، جسے جاننا چاہیئے ۔
مادہ پرست روح کو مادی اور دماغ کے مادی خواص اور نسوں کے خلیوںNerveCellsمیں سے سمجھتے ہیں ان کی نظر میں روح اس کے علاوہ کچھ نہیں، ہم یہاں زیادہ تر اسی نکتے پر بحث کریں گے بقائے روح کی بحث اور تجرد کامل یا تجرد مکتبی کی گفتگو کا انحصار اسی مسئلہ پر ہے، لیکن پہلے اس نکتے کا ذکر ضروری ہے کہ انسانی بدن سے روح کا تعلق ایسا نہیں جیسا بعض نے گمان کر رکھاہے، روح نے بدن میں حلول نہیں کر رکھا اور نہ یہ مشک میں ہوا کی طرح انسانی جسم میں موجود ہے، بلکہ بدن اور روح کے مابین ایک قسم کا ارتباط ہے اور یہ ارتباط روح کی بدن پر حاکمیت ، تصرف اور اس کی تدبیر کی بنیاد پر ہے، بعض نے اس ارتباط کو لفظ اور معنی کے ما بین تعلق سے تشبیہ دی ہے، جب ہم استقلالِ روح کے مسئلہ پر بحث کریں گے، بات بھی واضح ہوجائے گی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ انسان پتھر اور لکڑی سے مختلف ہے کیونکہ ہم اچھی طرح سے محسوس کرتے ہیں کہ ہم بے جان موجودات بلکہ نباتات سے بھی مختلف ہیں، ہم سوچتے ہیں، ارادہ کرتے ہیں، محبت اور نفرت کرتے ہیں وغیرہ۔
لیکن پتھر اور نباتات میں یہ احساسات نہیں ہیں، لہٰذا ہمارے اور ان کے درمیان ایک اصولی فرق موجود ہے اور اس کی وجہ روحِ انسانی ہے ۔
مادہ پرست یا کوئی اور نفس اور روح کے وجود کے منکر نہیں ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ علمِ نفسیات Psychology اور Psychoanalism کو ایک مثبت علم سمجھتے ہیں، یہ دونوں علم اگرچہ کئی ایک جہات سے اپنے ابتدائی مراحل طے کررہے ہیں تاہم دنیا کی بری سے بڑی یونیورسٹیوں میں اساتذہ اور طلبہ اس بارے میں مطالعہ وتحقیق میں مصروف ہیں ۔
جیسا کہ ہم دیکھے گے کہ نفس اور روح دو الگ الگ حقائق نہیں ہیں بلکہ ایک ہی حقیقت کے دو مختلف مراحل ہیں، جہاں جسم سے روح کے ارتباط کے بارے میں گفتگو ہوتی ہے اور ان دونوں کی متقابل تاثیر بیان ہوتی ہے وہاں”نفس“ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے اور جیاں جسم سے الگ روح سے ظاہر ہونے والے اثرات پر گفتگو ہوتی ہے وہاں لفظ”روح“ استعمال ہوتا ہے،خلاصہ یہ کہ کوئی شخص انکار نہیںکرتا کہ ہم میں روح اور نفس کے نام کی ایک حقیقت موجود نہیں ہے ۔
اب دیکھناہے کہ مادہ پرستوں(Materialists)اور ماوراء الطبیعت کے فلاسفہ اور روحیوں(Spirtulists)کے درمیان جنگ کیا ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ علماء الہیون اور فلاسفہ روحیوں کا نظریہ ہے کہ جس مواد سے انسانی جسم بنتا ہے اس کے علاوہ اس میں ایک اور حقیقت اور گوہر مخفی ہے کہ جو مادہ نہیں ہے لیکن انسانی بدن بلاواسطہ ان کے زیرِاثر ہے، دوسرے لفظوںمیں روح ایک ماوراء الطبیعاتی (Metaphysical) حقیقت ہے، اس کی ساخت اور فعالیت مادی دنیا کی ساخت اور فعالیت سے مختلف ہے، یہ ٹھیک ہے کہ یہ ہمیشہ مادی سے مربوط رہتی ہے لیکن یہ خودمادہ یا خاصیتِ مادہ نہیں ہے ۔ان کے مد مقابل مادیت کے فلاسفہ ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ہمارے وجود میں روح نام کے مادہ کے علاوہ کوئی مستقل وجود نہیں اور مادہ سے ہٹ کر روح نام کی کوئی چیز نہیں جو کچھ ہے یہی مادہ جسمانی ہے اور یا اس کے طبیعیاتی اور کیمیائی Physical and chemicalآثار ہیں ۔ہمارے اندر دماغ اور اعصاب کے نام کی ایک مشینری ہے کہ جو ہماری زندگی کے اعمال کا ایک اہم حصہ ہے اور یہ بھی مادی بدن کی مشینریوں کی طرح ہے اور مادی قوانین کے تحت کام کرتی ہے ۔
ہماری زبان کے نیچے کچھ غدود ہیں جنہیں غدود ہائے بزاقSliva Glands(۱)کہا جاتا ہے، یہ طبیعیاتی عمل بھی کرتی ہیں اور کیمیائی بھی ، جس وقت غذا منہ میں لی جاتی ہے تو یہ خود کار کنویں (۲)خودبخود کام شروع کردیتے ہیں، یہ حساب کے اس قدر ماہر ہیں کہ پانی کی بالکل اتنی مقدار جتنی غذا کو چبانے اور نرم کرنے کے لئے ضروری ہے اس پر چھڑکتے ہیں، پانی والی غذا، کم پانی والی غذا یا خشک غذا، ہر ایک اپنی ضرورت کے مطابق آبِ دہان سے اپنا حصہ لیتی ہے ۔
تیزابی مواد، خصوصاً جس وقت زیادہ سخت ہوں ان غدودوں کی کار کردگی بڑھا دیتا ہے تاکہ اسے زیادہ مقدار میں پانی ملے اور یہ خوب پتلا ہوجائے اور معدے کی دیواروں کو نقصان نہ پہنچے ۔
جس وقت انسان غذا کو نگل لیتا ہے ان کنوؤں کا عمل خودبخود رک جاتا ہے، مختصر یہ کہ ان ابلنے والے چشموں پرایک عجیب وغریب نظام حکم فرماہے، ایسا نظام کہ اگر اس کا توازن بگڑ جائے یا ہمیشہ لعابِ دہن ہمارے منہ سے گرتا رہے یا پھر ہماری زبان اور حلق کسی قدر خشک ہوجائے تو لقمہ ہمارے حلق میں پھنس جائے ۔
یہ لعابِ دہن کا طبیعیاتی کام ہے لیکن ہم جانتے ہیں کہ اس کا زیادہ اہم کام کیمیائی ہے، اس میں مختلف طرح کا مواد مخلوط ہوتا ہے اور یہ غذا سے مل کر نئی ترکیب کو جنم دیتا ہے جس سے معدے کی زحمت کم ہوجا تی ہے ۔
مادہ پرست(Materialists)کہتے ہیں کہ ہمارے اعصاب اور مغز کا سلسلہ لعابِ دہن کے غدودوں کی مانند ہے اور یہ اسی طرح کے طبیعیاتی اور کیمیائی عمل کا حامل ہے کہ جسے مجموعی طور پر طبیعیاتی کیمیائی Chemical Physicoکہا جاتا ہے اور یہی طبیعیاتی کیمیائی فعالیتیں ہیں جنہیں ہم آثار، روح یا روح کہتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ جب ہم سوچ رہے ہوتے ہیں تو ایک خاص برقی سلسلہ ہمارے دماغ سے اٹھتا ہے، دورِ حاضر میں مشینوں کے ذریعے ان لہروں کو کاغذ پر ثبت کردیا جاتا ہے خصوصاً نفسیاتی بیماریوں کے ہسپتالوں میں ان لہروں کے مطالعے سے نفسیاتی بیماریوں کی تشخیص اور علاج کیا جاتا ہے، ہمارے دماغ کی فیزیکلPhysicalفعالیت ہے ۔


۱۔لعاب دہن کی غدودیں ۔
۲۔Artesiens


اس کے علاوہ غور فکر کرتے وقت اور نفسیاتی فعالیت کے موقع پر ہمارے دماغ کی سیل Cellsایک کیمیائی فعالیت بھی کرتے ہیںلہٰذا روح اور آثار روح ہمارے دماغ اور اعصاب کے خلیوں کی کیمیائی فعل وانفعالات کے طبیعیاتی خواص کے علاوہ اور کوئی چیز نہیں ہے ۔
اس بحث میں مادیین یہ نتیجہ نکالتے ہیں :
۱۔ جیسے لعابِ دہن کے غدودوں کی فعالیت اور ان کے مختصر اثرات بدن سے پہلے نہ تھے اور نہ اس کے بعد ہوں گے اسی طرح ہماری روح کی کار کردگی بھی دماغ اور اعصاب کی مشینری کے پیدا ہونے سے وجود میں آتی ہے اور اس کے مرنے سے مر جاتی ہے ۔
۲۔ روح جسم کے خواص میں سے ہے، لہٰذا وہ مادی شے ہے اور ماورائے طبیعت کا پہلو نہیں رکھتی ۔
۳۔ روح پر بھی وہی قوانین حکم فرما ہیں جو جسم پرحکومت کرتے ہیں ۔
۴۔ روح بدن کے بغیر کوئی مستقل وجود نہیں رکھتی اور نہ ہی رکھ سکتی ہے ۔
روح کے عدم استقلال پر مادیین کے دلائل
مادیین کا نظریہ ہے کہ روح وفکر اور روح کے تمام آثار مادی ہیں یعنی دماغ اور اعصاب کے خلیوں کی طبیعیاتی اور کیمیائی خواص ہیں انہوں نے اپنے دعویٰ کے اثبات کے لئے کچھ شوہد پیش کئے ہیںمثلاً:
۱۔ آسانی سے نشانددہی کی جاسکتی ہے کہ مراکز کا ایک حصہ یا اعصاب کا ایک سلسلہ بیکار ہوجائے تو آثار روح کا ایک حصہ معطل ہوجاتا ہے(۱)مثلاً تجربہ کیا گیاہے کہ کبوتر کے مغز کا ایک خاص حصہ الگ کرلیا جائے تو کبوتر مرتا نہیں لیکن اس کی معلومات کا بہت سا حصہ ختم ہوجا تا ہے، اگر اسے غذا کھلائیں تو کھاتا ہے اور ہضم کرتا ہے اور اگر کھلائیں نہیں صرف دانہ اس کے سامنے ڈال دیں تو نہیں کھاتا اور بھولک سے مرجاتا ہے ۔
اسی طرح اگر انسان کے دماغ پر کچھ ضربیں لگائی جائیں یا بعض بیماریوں کی وجہ سے اس کے دماغ کا کچھ حصہ بیکار ہوجائے تو دیکھا گیا ہے کہ انسان کو بہت سی چیزیں بھول جاتی ہیں ۔
کچھ عرصہ ہوا ہم نے جرائد اور اخبار میں پڑھا ہے کہ ایک تعلیم یافتہ نوجوان کو اہواز کے قریب ایک حادثہ پیش آیا اس حادثے میں اس کے دماگ پر ضرب آئی، وہ اپنی زندگی کے تمام گزشتہ واقعات بھول گیا یہاں تک کہ وہ اپنے ماں باپ تک کو نہیں پہچانتا تھا، اسے اس کے گھر لے جایا گیا، وہ اسی گھر میں میں پلا بڑھا تھا مگر وہ وہاں اپنے آپ کو بالکل اجنبی محسوس کر رہا تھا ۔
ایسے وقعات نشاندہی کرتے ہیں کہ دماغ کے خلیوں کی فعالیت اور آثارِ روح کے درمیان ایک قریبی ربط ہے ۔

۱۔ Phycholgyاز ڈاکٹر ارانی ،ص۲۳۔
۲۔ غور وفکر کرتے وقت دماغ کی سطح پر مادی تغیرات زیادہ ہوتے ہیں، دماغ زیادہ غذا لیتا ہے، اور فاسفورسPhuphorusواپس کرتا ہے، سوتے وقت جب کہ دماغ فکری کام نہیں کرتا تھوڑی غذا لیتا ہے ، یہ امر آثارِ فکری کے مادی ہونے کی دلیل ہے ۔(5)
۳۔ مشاہدات سے معلوم ہوتا ہے کہ غور وفکر کرنے والوں کے دماغ کا وزن عام لوگوں کی نسبت زیادہ ہوتا ہے، اوسطاً مَردوں کے دماغ کا وزن ۱۴۰۰ گرام ہوتا ہے اور عورتوں کے دماغ کا وزن اوسطاً اس سے کچھ کم ہوتا ہے، یہ امر بھی نشاندہی کرتا ہے کہ روح مادی شے ہے ۔
۴۔اگر قوائے فکری اور مظاہر ِ روح ، روح کی ایک مستقل وجود ہونے کی دلیل ہیں تو یہ بات ہمیں حیوانات کے لئے بھی ماننا چاہیئے کیونکہ وہ بھی اپنی حد تک ادراک رکھتے ہیں ۔
مختصر یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم محسوس کرتے ہیں کہ ہماری روح موجود مستقل نہیں ہے اور انسان شناسی کے علم نے جو ترقی کی ہے وہ بھی اس حقیقت کی تائید کرتی ہے ۔
ان دلائل سے یہ مجموعی نتیجہ نکلتا ہے کہ انسانی اورحیوانی فزیالوجیHuman and physcologyکی ترقی اور وسعت روزبروز اس حقیقت کو زیادہ واضح کررہی ہے کہ آثار روح اور دماغی خلیوں کے درمیان قریبی تعلق ہے ۔
مادی استدلال کے کمزور پہلو
اس استدلال میں مادیین کو ایک بہت بڑا اشتباہ ہوا ہے اور وہ یہ ہے کہ انہوں نے آلات کار کو کام کا فاعل سمجھا ہے ۔
یہ واضح کرنے کے لئے کہ انہوں نے آلات کو فاعل کیسے سمجھے لیا ہے اجازت دیجئے کہ ہم ایک مثال پیش کریں، اس مثال پر غور کیجئے گا:
گیلیلیوکے بعد آسمانوں کی وضع وکیفیت کے مطالعہ میں ایک انقلاب پیدا ہواہے، اطالوی گیلیلیوایک عینک ساز کی مدد سے ایک چھوٹی سی دور بین بنانے میں کامیاب ہوگیا ، وہ اس پر بہت خوش ہوا، جب اس نے رات کے وقت اس کی مدد سے آسمانی ستاروں کا مطالعہ شروع کیا تو اسے حیرت انگیز منظر معلوم ہوا، ایسا منظر اس سے پہلے کسی انسان نے نہیں دیکھا تھا، اس نے سمجھا کہ مَیں نے ایک اہم انکشاف کیا ہے، اس طرح اس دن کے بعد انسان عالمِ بالا کے اسرار کا مطالعہ کرنے کے قابل ہوگیا ۔
اس وقت تک انسان ایک ایسے پروانے کی طرح تھا کہ جس نے فقط اپنے ارد گرد کی چند شاخیں دیکھی تھیں، لیکن جب اس نے دُور بین کے ذریعے جھانکا تو اسے فطرت کا ایک عظیم جنگل دکھائی دیا ۔

اس سلسلے میں ترقی وکمال جاری رہا یہاں تک کہ ستاروں کو دیکھنے کے لئے بڑی بڑی دُور بینیں ایجادہو گئیں، کہ جن کے عدس کا قطر پانچ میٹر یا اس سے بھی زیادہ تھا، انہیں پہاڑوں کی ایسی بلند چوٹیوں پر نصب کیا گیا کہ جو صاف وشفاف ہوا کے اعتبار سے مناسب تھیں، ایسی ایسی دُوربینیں بنیں کہ جو کئی منزلہ عمارت کے برابر تھیں، ان کے ذریعے انسان کو عالمِ بالا میں کئی جہان دکھائی دئےے، ایسے ایسے جہان کہ عام نظر سے انسان کو ہزاروںحصہ بھی نظر نہ آتا تھا ۔
اب آپ سوچیں کہ اگر ایک دن ٹیکنا لوجی اتنی ترقی کر جائے کہ انسان ایسی دُور بین بنالے کہ جس کے عدس کا قطر ایک سو میتر کے برابر ہو اور جس کا سازوسامان اور وسعت ایک شہر کی مانند ہو تو ہم پر کتنے جہان منکشف ہوجائیں گے ۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ دُور بینیں ہم سے لے لی جائیں تو یقینی طور پر آسمان کے بارے میں ہماری معلومات اور مشاہدات کا ایک حصہ معطل ہوجائے گا لیکن کیا حقیقی طور پر دیکھنے والے ہم ہیں یا دُور بینیں؟
کیا ٹیلی سکوپ ہمارے لئے آلاتِ کار ہیں یا خود فاعل ِکار اور خود دیکھنے والی؟
دماغ کے بارے میں بھی کوئی شخص انکار نہیں کرتا کہ دماغ کی سیلCellsکے بغیر غور وفکر نہیں کیا جاسکتا لیکن کیا دماغ روح کے کام کا آلہ ہے یا خود روح؟؟
مختصر یہ کہ مادیین نے جو تمام تر دلائل پیش کئے ہیں وہ صرف یہ ثابت کرتے ہیں کہ دماغ کے سیل اور ہمارے ادراک کے درمیان ربط موجود ہے لیکن ان میں سے کوئی دلیل یہ ثابت نہیں کرتی کہ دماغ خود غور وفکر کرتا ہے نا کہ ادراک کا آلہ ہے(غور کیجئے گا)
یہاں سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ مردے اگر کچھ نہیں سمجھتے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ روح کا بدن سے ربط ختم ہوگیا ہے نہ یہ کہ روح فنا ہوگئی ہے، یہ بات بالکل اسی طرح ہے جیسے کسی بحری یا ہوئی جہاز کا وائر لیس خراب ہوجائے اور وہ ساحل یا ائیرپوٹ سے رابطہ نہ کرسکے کیونکہ کہ رابطے کا ذریعہ منقطع ہوگیا ہے ۔

روح کیاہے؟استدلال روح کے دلائل
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma