ہم نے جملہ بار بار دوسروں سے سنا ہے یا ہم خود دوسروں سے کہتے ہیں:فلاں شخص اب خدا کا بندہ نہیں رہا کیونکہ اب وہ دولت مند ہوگیا ۔
نیز ہم نے اکثر دیکھا ہے کہ جنہیں نئی نئی دولت ملتی ہے وہ خدا کو بھول جاتے ہیں لیکن جب یہ دولت جاتی رہتی ہے یا وہ مشکلات میں پھنستے ہیں تو ایسے مضطرب اور مایوس ہوتے ہیں کہ انسان کو یقین نہیں آتا کہ یہ وہی پہلے والے آدمی ہیں ۔
جی ہاں ! تمام کوتاہ فکر، بے ایمان اور کم ظرف لوگوں کا یہی حال ہوتا ہے جب کہ اس کے برعکس دوستانِ خدا اور اولیاء اللہ کو حوادث درپیش ہوتے تو وہ ان سے نمٹنے کے لئے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں، فرمانِ الٰہی کے سامنے ان کی حالت تنکے کی سی ہوتی ہے، انہیں ساری دنیا دے دیں تو وہ کھو نہیں جاتے اور ساری دنیا ان سے لے لو تو ان کی ماتھے پر شکن نہیں پڑتی۔
تعجب کی بات یہ ہے خود باختہ اور کم ظرف لوگ مشکل کے عالم میں خدا پرست بن جاتے ہیں اور فطرتِ الٰہی ان میں جاگ اٹھتی ہے اور وہ اپنے آپ میں واپس آجاتے ہیں لیکن ادھر طوفانِ مصیبت تھمتا ہے اور ادھر یہ ایسے بدلتے ہیں گویا انہوں نے ہرگز کبھی خدا کا نام سنا تک نہیں، قرآن نے انسان کی یہ حالت متعدد مقامات پر بیان کی ہے (مثلا یونس ۔۱۲،لقمان۔۳۲، فجر۔۱۴و۱۵، حم السجدہ۔۴۸و ۴۹)۔
یہ ایک بہت بڑی مصیبت ہے کیونکہ اس کے سبب انسان زندگی میں کبھی صحیح مقام حاصل نہیں کرسکتا، اس بیماری کا واحد علاج یہ ہے کہ انسان علم اور ایمان کے ذریعے اپنی سطح ِفکر بلند کرے، اپنے آپ کو مادیات کے چنگل سے نکالے اور اصلاحی وتعمیری زہد اختیار کرے ۔
ضمنی طور پر اس بیان سے اس سوال کا جواب بھی مل جاتا ہے کہ زیرِ بحث آیات میں ایسے افراد کو مشکلات میں ناامید کہا گیاہے جب کہ دوسری آیات (مثلا عنکبوت ۔۶۵) میں انہیں ”مخلصین لہ الدین“ کہا گیا ہے اور یہ جملہ تو خدا کی طرف سے انتہائی توجہ کی حکایت کرتا ہے ، یہ فرق کیوں ہے؟
اس کی وضاحت یہ ہے یہ دونوں حالتیں آپس میں کوئی تضاد نہیں رکھتی بلکہ ان میں سے ایک دوسری کی تمہید ہے ۔ایسے افراد کو جب مشکلات کا سامنا ہوتا ہے تو اپنی زندگی سے بالکل مایوس ہوجاتے ہیں اور یہی ناامیدی سبب بنتی ہے کہ ان کے چہرہ فطرت سے پردے ہٹ جاتے ہیں اور وہ بارگاہِ خداوندی کا رخ کرتے ہیں لیکن یہ اضطراری توجہ نہ ان کے لئے عزو شرف کا باعث ہے اور نہ ان کی بیداری کی دلیل ہے کیونکہ ادھر یہ مشکلات دور ہوتی ہیں اور ادھر یہ اپنی پہلی حالت پر لوٹ آتے ہیں وہی حالت جو اب ان کی فطرتِ ثانیہ بن چکی ہوتی ہے ۔
لیکن۔ اولیائے حق اور خدا کے سچے بندے مشکلات کو چہرہ دیکھ کر مایوس نہیں ہوجاتے بلکہ حوادث تو ان کی استقامت اور پامردی میں اضافہ کرتے ہیں، وہ خدا پر بھروسے اور اپنی خود اعتمادی باعث مشکلات پر گویا حملہ آور ہوتے ہیں کیونکہ یاس و ناامیدی کے لئے ان کی وجود میں کوئی گنجائش نہیں ہوتی، وہ خدا کو صرف مشکلات میں نہیں پہچانتے بلکہ ہر حالت میں اس کی یاد میں بسر کرتے ہیں اس کی پاک ذات پر بھروسہ کرتے ہیں اور اس کا نورِ رحمت ان کے دل پر سایہ فگن رہتا ہے ۔