باطل کا انجام نابودی ہے

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 12
سوره اسراء / آیه 78 - 81 ۱۔ نمازِ تہجد ایک عظیم روحانی عبادت ہے

باطل کا انجام نابودی ہے

 

 

شرک کے مسائل پر گفتگو تھی، مشرکوں کی سازشوں اور وسوسوں کا ذکر تھا، زیرِ نظر آیات میں نماز، توجہ الی اللہ، عبادتِ خدا اور اس کے حضور میں تضرع وزاری کا ذکر ہے، یہ سب کچھ شرک کے مقابلے کے لئے موثر عامل ہے اور انسانی قلب وروح سے ہر قسم کی شیطانی وسوسے دور کرنے کا ذریعہ ہے ۔
جی ہاں!نماز ہی ہے جو انسان کو خدا کی یاد دلاتی ہے، انسانی قلب وروح سے غبارِ گناہ کو صاف کرتی ہے اور شیطانی وسوسوں کو دور کرتی ہے ۔
پہلے ارشاد ہوتا ہے: زوالِ خورشید سے نصف شب تک نماز قائم کرواور اسی طرح قرآنِ فجر (یعنی نمازِ فجر)کیونکہ یہ وہ نماز ہے جس پر رات اور دن کے فرشتوں کی توجہ ہے( اٴَقِمْ الصَّلَاةَ لِدُلُوکِ الشَّمْسِ إِلیٰ غَسَقِ اللَّیْلِ وَقُرْآنَ الْفَجْرِ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ کَانَ مَشْھُودًا
دلوک الشمس“ کا معنی نصف النہار سے زوالِ آفتاب ہے کہ جو نمازِ ظہر کا وقت ہے ، یہ ”دلک“ کے مادہ سے لیا گیا ہے اس کا معنی ہے” ملنا“ کیونکہ اس موقع پر سرج کی شدتِ تپش کے باعث انسان اپنی آنکھوں کو ملاتا ہے یا پھر یہ ترکیب ”دلک“ سے مائل ہونے اور جھکنے کے معنی میں ہے چونکہ سورچ اس موقع پر مقامِ نصف النہار سے مغرب کی طرف جھکتا ہے یا یہ کہ انسان اپنے ہاتھ کو سورج کے سامنے حائل کرتا ہے گویا اس کی روشنی کو اپنی آنکھوں سے دور کرتا ہے اور آنکھ کو دوسری طرف مائل کرتا ہے ۔
بہرحال مصادرِ اہل بیت (علیه السلام) سے پہنچنے والی روایات میں ”دلوک“ کا معنی زوالِ آفتاب ہی کیا گیا ہے ۔
امام صادق علیہ السلام سے ایک روایت مروی ہے ، آپ (علیه السلام) نے عبید بن زرارہ سے اسی آیت کی تفسیر پوچھی تو امام (علیه السلام) نے فرمایا:
خدا نے مسلمانوں پر چار نمازیں واجب کی ہیںجن کی ابتدا زوال آفتاب ہے اور انتہا نصف شب ہے ۔(۱)

ایک اور روایت امام محمد باقر (علیه السلام) سے مروی ہے، عظیم شیعہ محدث زرارہ نے اس آیت کی تفسیر کے متعلق سوال کیا تو امام (علیه السلام) نے فرمایا:
دلوکھا زوالھا، غسق اللیل الی نصف اللیل، ذٰلک اربع صلوات وضعھن رسول اللّٰہ(ص) ووقتھن للناس وقرآن الفجر صلواة الغداة۔
دلوک الشمس “زوال آفتاب کے معنی میں ہے اور ”غسق الیل“ آدھی رات کے معنی میں ہے، یہ چار نمازیں ہیں کہ جو رسول اللہ نے لوگوں کے لئے واجب قرار دی ہے اور ان کا وقت معین کیا ہے اور ”قرآن الفجر“ نمازِ صبح کی طرف اشارہ ہے ۔(2)
البتہ بعض مفسرین نے ”دلوک“ کے معنی کے بارے میں کچھ اور احتمالات بھی ذکر کےے ہیں کہ جو قابل ملاحظہ نہیں ہیں ۔
باقی رہا ”غسق اللیل“ تو اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ ”غسق “ کا معنی انتہائی تاریکی ہے اور رات کی انتہائی تاریکی نصف شب کے وقت ہوتی ہے، یہ آدھی رات کے معنی میں ۔
قرآن“ کا معنی ہے ”وہ چیز جسے پڑھا جائے “ لہٰذا ”قرآن الفجر“ بھی نتیجتاً نمازِ فجر کی طرف اشارہ ہے ۔
ان مفاہیم کے پیشِ نظر زیرِ بحث آیت ان آیات میں سے ہے جن میں پنجگانہ نمازوں کی طرف اجمالی طور پر اشارہ کیا گیا ہے، اسے دیگر متعلقہ آیات کے ساتھ باہم ملا کر دیکھا جائے تو اس سے نمازوں کے اوقات معین ہوتے ہیں، اس سلسلے میں جو بہت سی روایات مروی ہیں ان میں وضاحت سے پنجگانہ نماز کا وقت بتایا گیا ہے ۔
یہاں اس نکتے کی طرف توجہ ضروری ہے کہ قرآن کی بعض آیات صرف ایک نماز کی طرف اشارہ کرتی ہے مثلاً:
<حَافِظُوا عَلَی الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطیٰ
اپنی نماز کی حفاظت کرو اور نماز وسطیٰ کی (بقرہ:۲۳۸)
صحیح تفسیر کے مطابق ”صلواة وسطیٰ“ سے مراد نمازِ ظہر ہے ۔
کبھی پنچگانہ نمازوں میں سے تین کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، مثلاً:
<وَاٴَقِمْ الصَّلَاةَ طَرَفِی النَّھَارِ وَزُلَفًا مِنَ اللَّیْلِ۔(ہود:۱۱۴)
اس آیت میں ”طرفی النھار“ نماز صبح اور نمازِ مغرب کی طرف اشارہ ہے اور ”زلقا من اللیل“ نمازِ عشاء کی طرف اشارہ ہے ۔

کبھی قرآن میں پنجگانہ نمازوں کے اوقات اجمالی طور پر بیان کےے گئے ہیں، اس کی مثال زیرِ بحث آیت ہے،(اس سلسلے میں مزید تفصیل ہم تفسیر نمونہ جلد نہم سورہ ہود کی آیہ ۱۱۴کی تفسیر کے ضمن میں بیان کرچکے ہیں)۔
بہرحال اس میں شک نہیں کہ ان آیات میں پنجگانہ نمازوں کے اوقات کی تفصیل بیان نہیں ہوئی بلکہ دیگر اسلامی احکام کی طرح صرف کلیات بیان کرنے پر اکتفا ء کی گئی ہے ان کی تشریح وتفصیل رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم اور ان کے سچے جانشین ائمہ (علیه السلام) کی سنت میں آتی ہے ۔
ایک اور نکتہ جو اس جگہ باقی رہ جاتا ہے یہ ہے کہ مندرجہ بالا آیت کہتی ہے
إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ کَانَ مَشْھُودًا
نمازِ صبح کو دیکھا جاتاہے ۔
سوال پیدا ہوتا ہے کون اس کا مشاہدہ کرتا ہے ۔
آیت کے اس حصے کی تفسیر میں جو روایات ہم تک پہنچی ہیں ان کے مطابق شب وروز کے فرشتے اس نماز کو دیکھتے ہیں کیونکہ ابتدائے صبح کے وقت رات کے فرشتے جو بندگان خدا کے نگران ومحافظ ہوتے ہیں وہ دن کے فرشتوں کو اپنی جگہ سونپتے ہیں اور جب نمازِ صبح اسی طلوعِ سحر کے آغاز میں ادا کی جاتی ہے تو رات کو جانے والے اور دن کے آنے والے فرشتوں کو دونوں گروہ اس کا مشاہدہ کرتے ہیں اور اس پر گواہی دیتے ہیں ،ایسی روایات شیعہ علماء نے بھی نقل کی ہیں اور سنی علماء نے بھی۔
تفسیر روح المعانی میں احمد نسائی ،ابن ماجہ ،ترمزی اور حاکم کے حوالے سے ایک روایت رسول ِ اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم سے نقل ہوئی ہے ، آپ نے اس جملے کی تفسیر میں فرمایا:
تشھد ہ ملائکة اللیل وملائکة النھار
رات کے فرشتے اور دن کے فرشتے اسے دیکھتے ہیں ۔(3)
اہل سنت کے مشہورمحدث بخاری اور مسلم نے بھی اپنی اپنی صحیح میں اس کا یہی معنی نقل کیا ہے ۔(4)
اس تعبیر سے اچھی طرح واضح ہوجاتا ہے کہ نمازِ فجر کی ادائیگی کا بہترین موقع طلوعِ سحر کے ابتدائی لمحات ہیں ۔
پنجگانہ واجب نمازوں کے ذکر کے بعد مزید فرمایا گیا ہے:رات کے کچھ حصے میں نیند سے اٹھ کھڑا ہو اور قرآن پڑھ( وَمِنَ اللَّیْلِ فَتَھَجَّدْ بِہ)۔(۳)

۳۔جیساکہ مفردات میں راغب نے کہا ہے: ”تھجد“”ہجود“ کے مادہ سے اصل میں نیند کے معنی میں ہے لیکن جب یہ لفظ بابِ تفعّل میں استعمال ہوگا تو نیند اڑ جانے اور بیداری کی حالت میں لوٹ آنے کے معنی دے گا، نیز”تھجد بہ“ کی ضمیر قرآن کی طرف لوٹتی ہے، یعنی رات کے ایک حصہ میں بیدار رہ کر قرآن پڑھ، بعد ازاں یہ لفظ اہلِ شرع کی زبان میں نمازِ شب(نمازِ تہجد)کے لئے استعمال ہونے اور ”تہجد“ نمازِ شب پڑھنے والے کو کہا جانے لگا ۔
مشہور اسلامی مفسری نے اس تعبیر کو نوافلِ شب (نمازِ تہجد)کی طرف اشارہ سمجھا ہے ان نوافل کی روایات میں بہت فضیلت بیان ہوئی ہے، آیت میں اگرچہ صراحت نہیں ہے لیکن ہمارے پاس موجود مختلف قرائین کے پیشِ نظر یہ تفسیر بالکل صحیح معلوم ہوتی ہے ۔
اس کے بعد فرمایا گا ہے: تیرے لئے یہ واجب نمازوں کے علاوہ ایک اضافی ذمہ داری ہے( نَافِلَةً لَک
بہت سے علماء نے اس جملے کو اس امر کی دلیل جانا ہے کہ نمازِ شب رسول اللہ پرواجب ہے کیونکہ ”نافلة“ کا معنی ہے” زیادہ“، گویا یہ اس طرف اشارہ ہے کہ یہ اضافی فریضہ صرف تجھ سے مربوط ہے ۔
بعض دیگر علماء نے سورہٴ مزمل کی آیات کے قرینے سے کہا ہے کہ نمازِ تہجد رسول اللہ پر پہلے سے واجب تھی البتہ زیرِ نظر آیت نے پہلے حکم کو منسوخ کرکے اس کے مستحب ہونے کا اعلان کیا ہے، لیکن یہ تفسیر کمزور معلوم ہوتی ہے کیونکہ لفظ”نافلة“ یہاں آج کے اصطلاحی معنی یعنی ”مستحب نماز“ کے معنی میں نہیں ہے بلکہ اضافے کے معنی میں ہے ، اور ہم جانتے ہیںکہ نمازِ شب اگر رسول اللہ کے لئے واجب قرار دی گئی ہے تو یہ فرائض یومیہ پر اضافہ ہے ۔
بہرحال آیت کے آخر میں اس الٰہی، روحانی اور قلب روح کو پاک کرنے والے کا م کا نتیجہ یوں بیان کیا گیا ہے :قریب ہے کہ اس عمل کے باعث خدا تجھے مقام محمود پر فائز کردے(عَسیٰ اٴَنْ یَبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَحْمُودًا
اس میں شک نہیں کہ ”مقامِ محمود“ ایک بہت بڑا، اعلیٰ اور لائقِ ستائش مقام ہے کیونکہ”محمود “”حمد“ کے مادہ سے ستائش و تعریف کے معنی میں ہے، یہ لفظ یہاں چونکہ مطلق کے طور پر آیاہے لہٰذا اشارہ ہے کہ اولین وآخرین سب تیرے مداح خواں ہیں ۔
اسلامی روایات چاہے اہل بیت (علیه السلام) سے مروی ہوں یا برادرانِ اہل سنت کی کتابوں میں، ان میں ”مقام محمودکی تفسیر ”مقامِ شفاعتِ کبریٰ“ کے طور پر کی گئی ہے کیونکہ پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم دوسرے جہان میں سب سے بڑے شفیع ہیں اور جو لوگ شفاعت کے لائق ہوں گے انہیں یہ عظیم شفاعت میسر آئے گی۔
بعد والی آیت میں اسلام کے ایک اصولی حکم کی طرف اشارہ ہے، ایسا اصولی حکم جس کا سرچشمہ روحِ ایمان و توحید، ارشاد ہوتا ہے : کہہ دے: پروردگار! ہرکام میںسچائی کے ساتھ داخل کر اور سچائی کے ساتھ نکال(وَقُلْ رَبِّ اٴَدْخِلْنِی مُدْخَلَ صِدْقٍ وَاٴَخْرِجْنِی مُخْرَجَ صِدْقٍ)(5) کوئی کام ایسا نہ ہو جسے مَیں سچائی اور صدق سے شروع نہ کروں اور اسی طرح کوئی ایسا کام نہ ہو جسے مَیں سچائی اور صدق پر تمام نہ کروں، سچائی، صداقت، راستی اور امانت ہی میرا اصل راستہ ہو اور ہرکام کا آغاز وانجام اسی سچائی کے ساتھ ہو ۔
بعض مفسرین نے کوشش کی ہے کہ اس آیت کے وسیع مفہوم کو ایک یا کئی ایک مصادیق میں محدود کردیا جائے، مگر پوری طرح واضح ہے کہ زیرِ بحث آیت کی یہ جامع تعبیر اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ ہرکام اورہر پروگرام میں صادقانہ طور پر داخل ہوا جائے اور صادقانہ طور پرنکلا جائے ۔
کامیابی کی اصل رمز در حقیقت اسی میں پوشیدہ ہے، انبیاء الٰہی اور اولیاء اللہ کی روش یہی تھی ، ان کی فکر، ان کی گفتار اور ان کا عمل ہر قسم کی ملاوٹ ، مکروفریب اور دھوکے سے پاک تھا، ہر وہ چیز جس میں صدق وراستی نہ ہو اس کا ان سے کوئی تعلق نہ تھا ، اصولی طورپر وہ بہت سی بد بختیاں اور جو مسائل جو ہم آج دیکھ رہے ہیں اور جو افراد کو بھی دامن گیر ہیں اور اقوام وملل کے بھی ، اسی اصول کی انحراف کی وجہ سے ہیں ، کہیں تو انہوں اپنے کام کی بنیاد ہی جھوٹ اور مکر وفریب پر رکھی ہے اور کہیں وہ کاموں کا آغاز تو سچائی کے ساتھ کرتے ہیں لیکن آخر تک اس سچائی پر باقی نہیں رہتے ، ان کی ناکامی کا یہی عامل ہے ۔
دوسری بات جو آیت کے آخر میں بیان کی گئی ہے وہ در اصل شجرِ توحید کا ثمر ہے اور دوسرے حوالے کاموں میں سچائی کے ساتھ داخل ہونے اور نکتے کا نتیجہ ہے، ارشاد ہوتا ہے:خدا وندا! اپنی طرف سے میرا سلطان ومددگار قرار دے(وَاجْعَلْ لِی مِنْ لَدُنْکَ سُلْطَانًا نَصِیرًا)، کیونکہ مَیں اکیلا ہوں اور تنہا کوئی کام انجام نہیں دے سکتا ، خود اپنی طاقت کے بھروسے پر ان مشکلات کے مقابلے میں کامیابی حاصل نہیں کرسکوں گا، تو میری مدد کر اور تو میرے لئے مدد گار فراہم کر ۔
اس راستے میں مجھے طاقتور منطق، دشمن کے مقابلے دندان شکن دلائل، جانباز دوست، قوی ارادہ، روشن فکری اور رشدِ عقل مرحمت فرماتاکہ یہ تمام چیزیںمیری مدد گار ہوںتو ہی یہ سب کچھ عطا فرما کیونکہ تیرے علاوہ یہ کام کسی کے بس کا نہیں ۔
صدق وتوکل کے بعد حتمی کامیابی کی امید بذاتِ خود کامیابی کا ایک عامل ہے لہٰذا زیرِ اثر آخری آیت میں خدا تعالیٰ اپنے پیغمبر سے کہتا ہے:کہہ دے : حق آگیا اور باطل نابود ہوگیا( وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَھَقَ الْبَاطِلُ)۔(6)

اور اصولی طور پر باطل ہے ہی نابود ہونے والا( إِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوقًا
باطل بہت زور دکھاتاہے لیکن اس کے لئے دوام وبقا نہیں ہے ، کامیابی آخرکار حق اور اہلِ حق کی لئے ہے ۔

 



۱۔ وسائل الشیعہ،ج۳،ص ۱۱۵۔
2۔ نور لاثقلین، ج۳،ص ۲۰۵
4،3۔تفسیر روح المعانی، ج۱۵،ص ۱۲۶
5۔”مدخل“ اور ”مخرج“ یہاں داخل ہونے اور نکل نے کے مصدری معنی میں ہے ۔
6۔”زھق“ ”زھوق“ کے مادہ سے ہلاکت ونابودی کے معنی میں ہے اور ”زھوق“ (بروزن”قبول“)مبالغے کا صیغہ ہے اس کا معنی ہے ایسی چیز جو پوری طرح محو اور نابود ہوجائے ۔
سوره اسراء / آیه 78 - 81 ۱۔ نمازِ تہجد ایک عظیم روحانی عبادت ہے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma