ایک اورمنحوس سازش

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 12
سوره اسراء / آیه 76 - 77 سوره اسراء / آیه 78 - 81

ایک اورمنحوس سازش

 

 


گزشتہ آیات میں ہم نے دیکھا ہے کہ مشرکین طرح طرح کے وسوسوں کے ذریعے رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم پر اثر انداز ہونا چاہتے تھے اور ان کی کوشش تھی کہ آپ جادہ مستقیم سے اِدھر اُدھر کردیں لیکن لطفِ الٰہی نے بنی کریم کی مدد کی اور مشرکوں کی سازشیں نقشِ بر آب ہوگئیں ۔
اس واقعے کے بعد زیرِ بحث آیات بتاتیں ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ کی دعوت کو ناکام بنانے کے لئے ایک پلان تیار کیا اس کے مطابق ان کا پروگرام تھا کہ آپ کو آپ کے پیدائشی وطن سے دور کسی ایسی جگہ جلا وطن کردیں جو ویران، غیر متحرک اور دُور افتادہ ہو ، ان کا یہ منصوبہ بھی لطفِ الٰہی سے ناکام ہوگیا ۔
زیرِ نظر پہلی آیت میں فرمایا گیا ہے:قریب تھا کہ وہ ایک شاطرانہ سازش کے ذریعے تجھے اس سرزمین سے باہر نکال دیں( وَإِنْ کَادُوا لَیَسْتَفِزُّونَکَ مِنَ الْاٴَرْضِ لِیُخْرِجُوکَ مِنْھَا
یَسْتَفِزُّونَ“کا مادہ”استفزاز“ ہے یہ کبھی بیخ کنی کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور کبھی سرعت اور مہارت کے ساتھ کسی کو کسی کام پر ابھارنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اس مادہ کے ان معانی کی طرف توجہ کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مشرکین نے بڑی سوچ سمجھ کے ایک سازش تیار کی تھی کہ حالات ایسے پیدا کردےے جائیں کہ جنہیں رسول اللہ گوارا نہ کر سکیں یا سادہ لو افراد کو رسول اللہ کے خلاف اس قدر بھڑکا دیا جائے کہ وہ آپ کو مکہ سے نکال کر دم لیں ، لیکن وہ نہیں جانتے تھے کہ ان کی طاقت سے بالاتر خدائے بزرگ وبرتر کی قدرت ہے اور وہ اس کے ارادے کے مقابلے میں بہت ہی ناتوں ہیں ۔
اس کے بعد قرآن انہیں خبردار کرتا ہے کہ” اگر وہ اس قسم کا کام انجام دیتے تو تیرے بعد دیر تک باقی نہ رہ سکتے (وَإِذًا لَایَلْبَثُونَ خِلَافَکَ إِلاَّ قَلِیلا) اور وہ بہت جلد نابود ہوجاتے کیونکہ یہ بہت ہی بڑا گناہ ہے کہ لوگ اپنے ہمدرد اور نجات بخش رہبر کو اپنے شہر سے نکال دیں اور اس طرح خدا کی سب سے بڑی نعمت کا کفران کریں ، لوگ ایسے کام کے بعد زندہ رہنے کا حق نہیں رکھتے اور خدا کا نابود کن عذاب ان کے پاس آکے رہے گا ۔
یہ بات صرف مشرکین ِ عرب سے مربوط نہیں ہے”یہ ان انبیاء کے ساتھ سنت رہی ہے جنہیں ہم نے تجھ سے پہلے بھیجا اور ہماری سنت کبھی نہیںبدلتی“( سُنَّةَ مَنْ قَدْ اٴَرْسَلْنَا قَبْلَکَ مِنْ رُسُلِنَا وَلَاتَجِدُ لِسُنَّتِنَا تَحْوِیلًا)
اس سنت کا سرچشمہ ایک واضح منطق ہے اور وہ یہ کہ اس قسم کی ناشکری قوم کہ جو اپنے چراغِ ہدایت کو خود بجھا دے جو اپنی نجات کے لنگر کو خود گنوا دے اور اپنے ایسے طبیب کو آزار پہنچائے جو ان کے جانکاہ امراض کا علاج کرنے والا ہو ۔ لقیناً ایسی قوم رحمتِ الٰہی کے لائق نہیں اور اسے عذاب آلے گا ۔
ہم جانتے ہیں ایسے نہیں ہوسکتا کہ خدا اپنے بندوں میں تبعیض وامتیاز قائل نہیں ۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ وہ کسی ایک عمل پر بعض کو تو سزا دے اور بعض کو چھوڑ دے ، ایک جیسے حالات میں ایک جیسے اعمال پر ایک جیسی سزا دیتا ہے ۔یہ ہے پروردگار کی سنت کا تبدیل نہ ہونا ،جب کہ خود ضرض انسانون کے طور طریقے اور اصول ہرروز ان کے مفادات کی روشنی میں بنتے بگڑتے رہتے ہیں ، آج ایک چیز ان کے لئے سود مند ہے تو آج کی سنت اور کل اگر ان کا مفاد کسی اور میں ہے تو کل ان کا اصول کوئی اور ہوگا یہاں تک کہ ایک ہی سانس میں تضاد طور طریقے اختیار کرلیتے ہیں ۔
انسانی معاشرے میں سنن اور طور طریقے یا تو مجہول معاملات کی وجہ سے بدل جاتے ہیں اس طرح سے کہ مجہول معاملات وقت گزرنے کے ساتھ واضح ہوجاتے ہیں جس سے یہ کھلتا ہے کہ ماضی میں لوگ اشتباہات میں تھے یا پھر مخصوص مفادات اور حالات کے تقاضے بدل جاتے ہیں یا پھر ایسا خودغرضی کی بنا ء پر ہوتا ہے جب کہ خدا کی پاک ذات میں اس مسائل کی کوئی گنجائش نہیں اس نے حکمت کی بنا پر جو سنت مقرر کی ہوتی ہے ان حالات کے لئے وہ ہمیشہ جاری رہتی ہے ۔

سوره اسراء / آیه 76 - 77 سوره اسراء / آیه 78 - 81
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma