شیطان کے جال

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 12
بہانہ سازوں کے سامنے سر تسلیم خم نہ کروچند اہم نکات

یہ آیات ابلیس کی رُوگردانی کے بارے میں ہیں ۔ ان میں بتایا گیا ہے کہ خدا نے آدم(ص) کو سجدہ کرنے کا حکم دیا تو اس نے انکار کردیا، علاوہ ازیں اس میں اس کے بُرے انجام کی طرف اشارہ کیا گیا ہے نیز اس واقعے کے بعد کے کچھ امور کا بھی ذکر ہے ۔
قبل ازیں ہٹ دھرم مشرکین سے متعلق مباحث تھیں، ان کے بعد شیطان کے بارے میں یہ آیات اس طرف اشارہ ہیں کہ شیطان استکبار اور کفر و عصیان کا مکمل نمونہ تھا ۔ دیکھو کہ اس کا کیا انجام ہوا لہٰذا تم کہ جو اس کے پیروکار ہو تمہارا بھی وہی انجام ہوگا ۔
علاوہ ازیں یہ آیات ا ِس طرف بھی اشارہ کرتی ہیں کہ یہ دل کے اندھے مشرکین کہ جو خلافِ حق راستے پر ڈٹے ہوئے ہیں تو یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کیونکہ شیطان کئی طریقوں سے انہیں گمراہ کرنے کے درپے ہے اور در حقیقت وہ اپنے اس پروگرام پر عمل پیرا ہے کہ جس کا اعلان اس نے اِن الفاظ میں کیا تھا:
میں اکثر اولادِ آدم کو گمراہ کروں گا ۔
پہلے ارشاد فرمایا گیا ہے: وہ وقت یاد کرو جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم(ص) کو سجدہ کرو تو ابلیس کے سواسب سجدہ ریز ہوگئے (وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِکَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلاَّ إِبْلِیسَ) ۔
جیسا کہ خلقتِ آدم(ص) سے مربوط آیات کی تفسیر میں ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ یہ سجدہ ایک طرح کا خضوع اور اظہارِ احترام تھا اور اس سے خلقتِ آدم(ص) کی عظمت اور دیگر مخلوقات کی نسبت ان کے امتیازی مقام کے اظہار کے طور پر تھا اور یہ عبادت کے طور پر خدا کو سجدہ تھا کہ اس نے ایسی عجیب و غریب مخلوق پیدا کی ہے ۔
ہم یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ اگر چہ یہاں ابلیس کا ذکر فرشتوں کے ساتھ آیا ہے لیکن قرآن کی شہادت کے مطابق ان میں سے نہیں تھا بلکہ بندگی خدا کے باعث ان کی صف میں جا پہنچا تھا ۔ وہ جنّات میں سے تھا اور اس کی خلقت مادی تھی۔ ابلیس کے سر پر غرور و تکبر سوار تھا ۔ خود بینی نے اس کی عقل و ہوش پر پردہ ڈال رکھا تھا ۔ اسے گمان تھا کہ مٹی آگ سے بہت کم حیثیت کی حامل ہے جبکہ مٹی تمام برکات کا منبع اور سرچشمہٴ حیات ہے ۔ اس نے اعتراض کے لہجے میں بارگاہِ خداوندی میں کہ-: کیا میں ایسے شخص کو سجدہ کروں جسے تونے گیلی مٹی سے پیدا کیا ہے

 ( قَالَ اٴَاٴَسْجُدُ لِمَنْ خَلَقْتَ طِینًا) ۔
جس وقت اس نے دیکھا کہ فرمانِ خدا کے سامنے غرور و تکبر اور سرکشی کی وجہ سے وہ ہمیشہ کے لیے اس کی بارگاہِ مقدس سے دھتکار دیا گیا ہے تو اس نے عرض کیا، اگر تو مجھے روزِ قیامت تک مہلت دے تو جسے تونے مجھ پر ترجیح دی ہے اور اعزاز بخشا ہے میں تھوڑے سے افراد کے سوا اس کی ساری اولاد کو گمراہ کردوں گا اور اس کی بیخ کنی کردوں گا (قَالَ اٴَرَاٴَیْتَکَ ھٰذَا الَّذِی کَرَّمْتَ عَلَیَّ لَئِنْ اٴَخَّرْتَنِی إِلیٰ یَوْمِ الْقِیَامَةِ لَاٴَحْتَنِکَنَّ ذُرِّیَّتَہُ إِلاَّ قَلِیلًا) ۔ (۱)
جسے تونے ترجیح دی ہے کیا اس شخص کو تونے دیکھا ہے؟ اگر مجھے زندہ رہنے دیا تو تودیکھے گا میں اس کی اکثر اولاد کو گمراہ کرکے چھوڑوں گا ۔
دوسرا احتمال آیت کی ترکیب اور معنی کے لحاظ سے زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے ۔
”احتنکن“”احتناک“ کے مادہ سے کسی چیز کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے معنی میں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جب ٹڈی دَل زراعت کو بالکل کھاجائے تو عرب کہتے ہیں:
”احتنک الجراد الزرع“
لہٰذا مذکورہ گفتگو کا مفہوم یہ ہے کہ میں معدودِ چند افراد کے سوا ساری اولادِ آدم کو تیرے جادئہ و اطاعت سے ہٹادوں گا ۔
یہ احتمال بھی ہے کہ ”احتنکن“”حنک“کے مادہ سے زیر گلو اور زیر حلق کے معنی میں ہو جس وقت جانور کی گردن میں رسی یا لگام ڈالتے ہیں تو عرب اسے ”حنتک الدابہ“ کہتے ہیں ۔
اِس بناء پر مذکورہ گفتگو کا مطلب یہ ہے کہ شیطان کہتا ہے کہ میں سب کی گردن میں وسوسے کی رسّی ڈال دوں گا اور انہیں گناہ کے راستے کی طرف کھینچ لے جاؤں گا ۔
اللہ تعالیٰ کی طرف سے شیطان کو مہلت دے دی گئی تاکہ ساری اولاد آدم کے لیے میدان امتحان معرضِ وجود میں آجائے اور حقیقی مومنین کی تربیت کا وسیلہ فراہم ہوجائے کیونکہ حوادث کی بھٹی میں انسان ہمیشہ پختہ تر ہوتا ہے اور طاقتور دشمن کے مقابلے میں دلیر ہوجاتا ہے ۔ فرمایا: نکل جا، ان میں سے جو لوگ تمہاری پیروی کریں گے ان کی سزا جہنم ہوگی اور یہ بہت سزا ہے (قَالَ اذْھَبْ فَمَنْ تَبِعَکَ مِنْھُمْ فَإِنَّ جَھَنَّمَ جَزَاؤُکُمْ جَزَاءً مَوْفُورًا) ۔
اس ذریعے سے آزمائش کا اعلان کیا گیا ہے اور آخر میں اس عظیم خدائی آزمائش میں کامیابی اور شکست کے بارے میں بتایا گیا ہے ۔ اس کے بعد شیطان کے ان ہتھکنڈوں، حربوں اور وسائل کا ذکر کیا گیا جن سے وہ کام لیتا ہے ۔ اس سلسلے میں بہت واضح اور جاذبِ توجہ انداز میںفرمایا گیا ہے: ان میں سے ہر ایک کو اپنی آواز کے ذریعے تحریک کرسکتا ہے اور وسوسے میں ڈال سکتا ہے (وَاسْتَفْزِزْ مَنْ اسْتَطَعْتَ مِنْھُمْ بِصَوْتِکَ) ۔ اور اپنی پکار کے ذریعے اپنے سوار اور پیادہ لشکر کو ان کی طرف ہانک سکتا ہے (وَاٴَجْلِبْ عَلَیْھِمْ بِخَیْلِکَ وَرَجِلِکَ) ۔ وہ ان کے اموال اور اولاد میں شریک ہوجاتا ہے (وَشَارِکْھُمْ فِی الْاٴَمْوَالِ وَالْاٴَولَادِ) ۔ اور اپنے جھوٹے وعدوں کے ذریعے انہیں فریب دیتا ہے (وَعِدْھُمْ) ۔ اس کے بعد قرآن خبردار کرتا ہے: شیطان فریب، دھوکہ اور غرور پر مبنی وعدوں کے علاوہ کچھ نہیں دیتا (وَمَا یَعِدُھُمْ الشَّیْطَانُ إِلاَّ غُرُورًا) ۔
پھر خدا اس سے کہتا ہے: لیکن جان لے کہ ”میرے بندوں پر تیرا کچھ بس نہ چلے گا“(إِنَّ عِبَادِی لَیْسَ لَکَ عَلَیْھِمْ سُلْطَانٌ) ۔ اتنا ہی کافی ہے تیرا پروردگار ان بندوں کا ولی و حافظ ہے (وَکَفیٰ بِرَبِّکَ وَکِیلًا) ۔

 


۱۔ بعض مفسرین نے کہا ہے کہ ”ارء یتک“ کا کاف حرفِ خطاب ہے کہ جو تاکید کے طور پر آیا ہے اور ”ارء یتک“کا معنی ”اخبرنی“ (مجھے خبردے) ہے جس کا جواب محذوف ہے ۔ تقدیر میں اس طرح تھا:اور مجموعی طور پر اس کا یہ معنی ہو:

 

بہانہ سازوں کے سامنے سر تسلیم خم نہ کروچند اہم نکات
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma