چند اہم نکات

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 12
جاہل مغرورقیامت یقینی ہے

۱۔ ان آیات کا مجموعی جائزہ:
زیرنظر آیات میں گمراہ لوگوں کی حالت اور شناخت حق کی راہ میں حائل ہونے والی رکاوٹوں کا عمدہ نقشہ کھینچا گیا ہے ۔ مجموعی طور پر یہ آیات کہتی ہیں کہ حق کی پہنچان میں ان کے لیے تین بڑی رکاوٹیں موجود ہیں، وہ نہ ہوں تو اُن کے لئے حق کا چہرہ دیکھنا آسان ہوجائے ۔
پہلی یہ کہ قرآن رسول اللہ سے کہتا ہے کہ تیرے اور ان کے درمیان ایک حجاب حائل ہے یہ حجاب سوائے بغض ، کینے، حسد اور عداوت کے کچھ اور نہیں کہ جو ان کے سینوں میں تیرے لیے موجود ہے ۔ اسی وجہ سے وہ تیری بلند شخصیت کو نہیں دیکھ پاتے اور تیری گفتار و رفتار کی عظمت کو نہیں سمجھ پاتے ۔ یہاں تک کہ اچھائیاں بھی انہیں برائیاں معلوم ہوتی ہیں ۔
دوسری یہ کہ وہ رسول اللہ سے کینہ اور حسدہی نہ رکھتے تھے بلکہ ان کے دلوں پر جہالت اور اندھی تقلید کے پردے بھی پڑے ہوئے تھے یہاں تک کہ وہ کسی شخص سے حق بات سننے کے لیے بھی تیار نہ تھے ۔
تیسری رکاوٹ شناختِ حق میں یہ حائل تھی کہ ان کے آلاتِ شناخت ہی حق قبول کرنے کے لئے آمادہ نہ تھے ۔ مثلاً ان کے کان ہی حق بات سے ایسی نفرت کرتے تھے کہ گویا حق بات کو دفع کرتے تھے اور اس کے سامنے گویا بہرے ہوجاتے تھے جبکہ اس کے برعکس باطل کی باتیں انہیں پسند تھیں ۔ باطل ان کے لیے لذت بخش تھا اور ان پر فوری اثر کرتا تھا ۔
خصوصاً یہ بات تو تجربے سے ثابت ہوئی ہے کہ جن باتوں کی طرف انسان رغبت نہ رکھتا ہو انہیں مشکل ہی سے سنتا ہے اور جن کی طرف میلان رکھتا ہے انہیں خاص تیزی کے ساتھ سنتا اور سمجھتا ہے گویا اندرونی میلانات بھی انسان کے ظاہری حواس پر اثر انداز ہوتے ہیں اور اسے اپنے رنگ میں رنگ لیتے ہیں ۔
ان تین موانع کا نتیجہ یہ تھا کہ:
اولاً: وہ کلمہ حق سننے سے بھاگتے تھے خصوصاً جب اللہ کی وحدانیت کے بارے میں گفتگو ہوتی کہ جوان کے تمام مشرکانہ عقائد کی بنیاد ہی سے متصادم تھی تو وہ تیزی سے بھاگ کھڑے ہوتے تھے ۔
ثانیاً: وہ اپنے انحرافی خط کو صحیح ثابت کرنے کے لیے رسول اللہ اور ان کے ارشادات کے بارے میں غلط توجہیں کرتے تھے اور آپ پر طرح طرح کی تہمتیں لگاتے تھے ۔ کوئی ساحر کہتا اور کوئی شاعر ، کوئی آپ کو مجنون قرار دیتا اور کوئی دیوانہ۔
تمام دشمنانِ حق کہ جن کے اعمال و صفات رذیلہ ان کے لیے حجاب ہیں، کی یہی حالت ہے ۔ اسی مقام پر ہم کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص راہِ حق اور صراط مستقیم پر چلنا چاہتا ہے اور انحراف و گمراہی سے بچنا چاہتا ہے تو سب سے پہلے اسے اپنی اصلاح کی کوشش کرنا چاہئے ۔ دل کو بغض و کینہ اور حسد و عناد سے پاک کرنا چاہیے ۔ روح کو غرور و نخوت سے پاک کرنا چاہیے ۔ خلاصہ یہ کہ اپنے وجود کو صفاتِ رذیلہ سے پاک کرنا چاہیے چونکہ جب دل کا آئینہ ان رذائل سے پاک صاف ہوکر صیقل ہوجائے گا تو پھر تمام حقائق اس پر اپنا پَرتَو ڈال سکیں گے یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات بے علم پاک دل افراد حقائق سمجھ لیتے ہیں لیکن غیر تہذیب یافتہ عالم نہیں سمجھ پاتے ۔
۲۔ خدا کی طرف نسبت کا مفہوم:
دوسری بہت سی آیات کی طرح زیر بحث آیات میں بھی حجابوں کی نسبت خدا کی طرف دی گئی ہے ۔ فرمایا گیا ہے:
ہم ان کے دلوں پر پردہ ڈال دیتے ہیں ۔
تیرے اور ان کے درمیان ہم حجاب حائل کردیتے ہیں اور ان کے کانوں میں سنگینی قرار دیتے ہیں ۔
ہوسکتا ہے ایسی تعبیرات سے جاہل افراد مکتبِ جبر کا مفہوم لیں حالانکہ یہ تو ان کے اعمال ہی کے آثار اور نتائج ہیں ۔ در حقیقت وہ خود ہی ہیں جو اپنے گناہوں اور بری صفات کے ذریعے یہ حجاب پیدا کرتے ہیں لیکن چونکہ ہر چیز کی خاصیت خدا کی طرف سے ہے اور عملِ قبیح اور صفاتِ رذیلہ میں خدانے یہ تاثیر پیدا کی ہے لہٰذا اس خاصیت اور حجاب کی نسبت خدا کی طرف بھی دی جاسکتی ہے ۔ اس بارے میں گزشتہ مباحث میں ہم بارہا گفتگو کرچکے ہیں اور اس سلسلے میں قرآن سے بھی بہت سے شواہد پیش کیے حا چکے ہیں ۔
۳۔ حجاب مستور کیا ہے؟ :
اس سلسلے میں مفسرین کی کئی مختلف آراء ہیں ۔ مثلاً:
(الف) بعض ”مستور“کو ”حجاب“ کی صفت سمجھتے ہیں کہ قرآن کی تعبیر کا ظہور یہ ہے کہ حجاب نگاہوں سے پوشیدہ ہیں ۔ در حقیقت کینہ و عداوت اور حسد وبغض کے حجاب ایسے نہیں ہیں جو آنکھ سے دکھائی دیں بلکہ ان کے باعث جس سے حسد اور کینہ ہوتا ہے اُس کے اور اِس کے درمیان ایک ضخیم پردہ حائل ہوجاتا ہے ۔
(ب) بعض دیگر مفسرین ”مستور “کو ”ساتر“ کے معنی میں سمجھتے ہیں (کیونکہ اسم مفعول بعض اوقات فاعل کے معنی میں آتا ہے جیسا کہ آیات مذکورہ میں بھی بعض مفسرین ”مسحور“ کو ”ساحر“ کے معنی میں سمجھتے ہیں) ۔ (1)
(ج) بعض ”مستور“ کو ”حجاب“ کی مجازی توصیف سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مراد یہ نہیں ہے کہ یہ حجاب مستور ہے بلکہ وہ حقائق جو اس حجاب کے ماو راء ہیں وہ مستور ہیں (مثلاً پیغمبر اکرم کی شخصیت آپ کی دعوت کی عظمت اور آپ کے ارشادات کی عظمت) ۔
لیکن ان تینوں تفسیروں میں غور کیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ پہلی تفسیر ظاہر آیت سے زیادہ ہم آہنگ ہے، بعض روایات میں بھی ہے کہ بعض اوقات رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے سخت ترین دشمن آپ کی طرف آتے جبکہ آپ اپنے اصحاب کے ساتھ قرآنِ مجید کی تلاوت میں مشغول ہوتے لیکن وہ آپ کو نہ دیکھ پاتے گویا آپ کی خیرہ کن عظمت کے باعث یہ دل کے اندھے آپ کو نہ دیکھ پاتے اور نہ پہچان پاتے لہٰذا آپ ان کی طرف سے اذیت سے محفوظ رہتے ۔
۴۔ ”اکنہ “اور ”وقر“ کیا چیز ہے؟
”اکنہ“ ”کنان“ (برورزن ”زیان“) کی جمع ہے، یہ در اصل ہر قسم کی ڈھانپتے اور مستور کرتے ہیں لیکن ”کن“ (بروزن ”جِنّ“)اس برتن کو کہتے ہیں جس میں کسی چیز کو محفوظ رکھا جاتا ہے ۔ ”کن“ کی جمع ”اکنان“ ہے ۔ بعد ازان اس معنی میں وسعت پیدا ہوگئی اور ہر چیز کہ جو مستور ہونے کا باعث بنے کے لئے بولا جانے لگا، مثلاً پردہ، گھر اور وہ اجسام کہ جن کے پیچھے انسان اپنے آپ کو چھپائے ۔
”وقر“ (بروزن ”جبر“) سنگینی کے معنی میں ہے کہ جو کان میں پیدا ہوجائے اور ”وقر“ (بروزن ”رزق“) بارِسنگین کے معنی میں ہے ۔
۵۔ ”ما یستمعون بہ“ کی تفسیر
اس کی مفسرین نے دو تفسیر کی ہیں:
طبرسی نے مجمع البیان میں اور فخر الداین رازی نے تفسیر کبیر میں اور بعض دیگر مفسّرین نے اسے ”سببِ استماع“ کے معنی میں لیا ہے یعنی ہم جانتے ہیں کہ وہ تیری باتیں کیوں کان لگار سنتے ہیں، ادراکِ حق کے لئے؟ نہیں بلکہ استہزاء اور جوڑ توڑ لگانے اور الٹی سیدھی توجیہات کرنے کے لئے مختصر یہ کہ گمراہ ہونے اور گمراہ کرنے کے لئے علامہ طباطبائی نے المیزان میں اور بعض دیگر مفسّرین نے اسے ”وسیلہ استماع“ کے معنی میں لیا ہے یعنی ہم جانتے ہیں کہ وہ کن کانوں سے تیری باتیں کان لگار سنتے ہیں اور ہم ان کے دلوں اور ان کی سرگوشیوں سے آگاہ ہیں ۔
(پہلی تفسیر زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے) ۔
۶۔ وہ پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو ”مسحور“ کیوں کہتے تھے؟
”مسحور“ کا معنی ہے سحر شدہ اور ”ساحر“ کا معنی ہے سحر کرنے والا ۔
دشمن رسول لله کو ”مسحور“ یا تو اس بناء پر کہتے تھے کہ وہ اس طرح آپ کی طرف جنون کی نسبت دینا چاہتے تھے اور کہنا چاہتے تھے کہ جادوگروں نے آپ کو فکر وعقل پر اثر کیا ہے اور ساحروں نے (معاذ الله) آپ کے حواس مختل کردیئے ہیں ۔
بعض مفسّرین نے یہ احتمال بھی ظاہر کیا ہے کہ ”مسحور“ یہاں ”ساحر “کے معنی میں ہے (کیونکہ جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں اسم مفعول کبھی اسمِ فاعل کے معنی میں آتا ہے) ۔ اس سے ان کی مراد یہ تھی کہ رسول الله کا غیر معمولی کلام جادو ہے جو لوگوں کے دلوں پر اثر کرتا ہے ۔ ضمنی طور پر یہ بات کہہ کر وہ آپ کے کلام کی عجیب تاثیر کا اعتراف کرتے تھے ۔
۷۔ توحید کی آواز پر مشرکین کا خوف
زیرِ بحث آیات میں ہم نے پڑھا ہے مشرکین خاص طور پر توحید کی آواز سن کر سخت خوف میں مبتلا ہوجاتے تھے اور بھاگ کھڑے ہوتے تھے کیونکہ ان کی تمام تر زندگی کی بنیاد شرک اور بت پرستی تھی اور ان کے معاشرے پر مشرکانہ نظام حکمران تھا ۔ اگر توحید کی بنیاد پڑجاتی تو نہ صرف ان کے مذہبی عقائد پر ضرب پڑتی تھی بلکہ ان کا معاشرتی، اقتصادی، سیاسی، ثقافتی اور تمدنی نظام بھی جو شرک پر مبنی تھا وہ تباہ ہوکر رہ جاتا، اس طرح حکومت پسے ہوئے مستضعف لوگوں کے ہاتھ آجاتی۔
مستکبرین کا خاتمہ ہوجاتا، اور استعمار اور لوٹ کھسوٹ کہ جو مشرکانہ نظاموں کا نتیجہ ہے ختم ہوجاتا، اور طبقاتی تفاوت ختم ہوجاتا تھا، لہٰذا جن کے اقتدار کا انحصار شرک پر تھا ان کی سخت کوشش تھی کہ توحید کی پکار کسی کے کان تک نہ پہنچنے پائے لیکن جیسا کہ زیرِ بحث آیات اشارہ کرتی ہیں وہ ظالم اور ستمگر لوگ تھے کہ جو مستضعف عوام پر بھی ظلم کرتے تھے اور اپنے آپ پر بھی، کیونکہ ہر ظالم منحرف اپنی قبر آپ کھودتا ہے ۔
یہ بات جاذبِ نظر ہے کہ قرآن کہتا ہے کہ مشرکین چاہتے تھے کہ انھیں فسق وفجور اور گناہ جاری رکھنے کا کوئی جواز ہاتھ آجائے لہٰذا باربار پوچھتے تھے قیامت کا دن کب آئے گا:
<بَلْ یُرِیدُ الْإِنسَانُ لِیَفْجُرَ اٴَمَامَہُ، یَسْاٴَلُ اٴَیَّانَ یَوْمُ الْقِیَامَةِ
”بلکہ انسان تو یہ چاہتا ہے کہ ہمیشہ بُرائی کرتا رہے ۔ (جبھی تو) پوچھتا ہے کہ قیامت کا دن کب آئے گا“۔ (قیامت/۵,۶)
یہ اس طرف اشارہ ہے کہ یہ بھی ذمہ داری اور جوابدہی سے فرار کے لئے ایک بہانہ سازی تھی۔

 

۴۹ وَقَالُوا اٴَئِذَا کُنَّا عِظَامًا وَرُفَاتًا اٴَئِنَّا لَمَبْعُوثُونَ خَلْقًا جَدِیدًا
۵۰ قُلْ کُونُوا حِجَارَةً اٴَوْ حَدِیدًا
۵۱ اٴَوْ خَلْقًا مِمَّا یَکْبُرُ فِی صُدُورِکُمْ فَسَیَقُولُونَ مَنْ یُعِیدُنَا قُلْ الَّذِی فَطَرَکُمْ اٴَوَّلَ مَرَّةٍ فَسَیُنْغِضُونَ إِلَیْکَ رُئُوسَھُمْ وَیَقُولُونَ مَتیٰ ھُوَ قُلْ عَسیٰ اٴَنْ یَکُونَ قَرِیبًا
۵۲ یَوْمَ یَدْعُوکُمْ فَتَسْتَجِیبُونَ بِحَمْدِہِ وَتَظُنُّونَ إِنْ لَبِثْتُمْ إِلاَّ قَلِیلًا

ترجمہ

۴۹۔ اور انھوں نے کہا کہ بوسیدہ ہڈیاں ہوجائیں گے اور بکھر جائیں گے تو دوبارہ نئی خلقت حاصل کریں گے ۔
۵۰۔ کہہ دو کہ تم پتھر یا لوہا ہوجاوٴ۔
۵۱۔ یا جو مخلوق تمھاری نظر میں ان سے زیادہ سخت ہو ( اور جس میں زندگی کے دُور دُور تک کوئی آثار نہ ہوں ۔ پھر بھی خدا قادر ہے کہ تمھیں نئی زندگی کی طرف پلٹادے) ۔ عنقریب وہ کہیں گے کون ہمیں دوبراہ پلٹائے گا ۔ کہہ دو: وہی جس نے تمھیں پیدا کیا تھا ۔ وہ (تعجب اور انکار سے) تیرے سامنے اپنے سر جھکاتے ہیں اور کہتے ہیں:ایسا کس وقت ہوگا ۔ کہہ دو: شاید نزدیک ہو۔
۵۲۔ وہی دن کہ جب وہ تمھیں (تمھاری قبروں سے) بُلائے گا تم بھی جواب دوگے اس حالت میں کہ اُس کی حمد کررہے ہوگے اور خیال کروگے کہ تم تھوڑی سی مدت ہی (عالمِ برزخ میں) رہے ہو۔

 


 

1۔ اخفش سے منقول ہے کہ وہ کہتا ہے:”اسم مفعول کبھی اسم فاعل کے معنی میں ہوتا ہے مثلاً ”میمون“ ”یامن“ کے معنی میں اور ”مشئوم“ ”شائم“ کے معنی میں ۔
 
جاہل مغرورقیامت یقینی ہے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma