جاہل مغرور

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 12
سوره اسراء آیت 44 - 47چند اہم نکات

گزشتہ آیات کے بعد بہت سے لوگوں کے سامنے یہ سوال ابھرتا ہے کہ مسئلہ توحید اس قدر واضح ہے کہ تمام موجودات عالم اس کی گواہی دیتے ہیں تو پھر مشرکین اس حقیقت کو کیوں قبول نہیں کرتے، وہ یہ گویا اور رسا آیات قرآن سننے کے باوجود بیدار کیوں نہیں ہوتے؟
ہوسکتا ہے زیرِ بحث آیات اس سوال کے جواب کی طرف اشارہ ہوں ۔ پہلی آیت کہتی ہے: اے رسول! ”جس وقت تو قرآن پڑھتا ہے ہم تیرے اور آخرت پر ایمان نہ رکھنے والوں کے درمیان پردہ حائل کردیتے ہیں“ (وَإِذَا قَرَاٴْتَ الْقُرْآنَ جَعَلْنَا بَیْنَکَ وَبَیْنَ الَّذِینَ لَایُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ حِجَابًا مَسْتُورًا) ۔
یہ حجاب در اصل ہٹ دھرمی، تعصب، خود پرستی، غرور و تکبر اور جہالت ہی تھی کہ جوان کی فکر و نظر سے حقائق قرآن چھپادیتی تھی اور انہیں اجازت نہ دیتی تھی کہ وہ توحید و معاد، دعوتِ پیغمبر کی صداقت اور اس قسم کے دیگر حقائق کا ادراک کرسکیں ۔
لفظ ”مستور“یہاں ”حجاب“ کی صفت یا ذاتِ پیغمبر کی حقائقِ قرآن کی، اس بارے میں مفسرین نے مختلف آراء پیش کی ہیں ۔ اس سلسلے میں ہم ان آیات کی تفسیر کے آخر میں بحث کریں گے ۔اسی طرح خدا کی طرف سے اس حجاب کے پیدا ہونے کی کیفیت کے بارے میں بھی وہیں پر بحث آئے گی۔
اگلی آیت میں مزید فرمایا گیا ہے: ”ہم نے ان کے دلوں پر پردے ڈال دیئے ہیں تاکہ وہ قرآن کو نہ سمجھ سکیں اور ان کے کانوں میں گرانی اور بوجھ ہے“(وَجَعَلْنَا عَلیٰ قُلُوبِھِمْ اٴَکِنَّةً اٴَنْ یَفْقَھُوہُ وَفِی آذَانِھِمْ وَقْرًا) ۔اسی لیے جب تو اپنے پروردگار کو قرآن میں تنہا یاد کرتا ہے تو وہ پیٹھ پھیر لیتے ہیں (وَإِذَا ذَکَرْتَ رَبَّکَ فِی الْقُرْآنِ وَحْدَہُ وَلَّوْا عَلیٰ اٴَدْبَارِھِمْ نُفُورًا) ۔
واقعاً حق سے فرار کیسی عجیب بات ہے یعنی بات ہے یعنی سعادت و نجات سے فرار، خوش بختی اور کامیابی سے فرار اور فہم و شعور سے فرار۔ اس معنی کی نظیر سورہٴ مدثر کی آیات ۵۰ اور ۵۱ میں بھی ہے:
<کَاٴَنَّھُمْ حُمُرٌ مُسْتَنْفِرَةٌ فَرَّتْ مِنْ قَسْوَرَةٍ ۔
”گویا وہ خو فزدہ گدھے ہیں کہ غضبناک شیر سے بھاگ رہے ہیں“۔
مزید فرمایا گیا: ہم جانتے ہیں کہ وہ کیوں تمہاری باتیں کان دھر کر سنتے ہیں ( نَحْنُ اٴَعْلَمُ بِمَا یَسْتَمِعُونَ بِہِ إِذْ یَسْتَمِعُونَ إِلَیْک) ۔ اور جب وہ آپس میں سر گوشیاں اور کان پھونسیاں کرتے ہیں ( وَإِذْ ھُمْ نَجْوَی) ۔
جس وقت ظالم لوگ مومنین سے کہتے ہیں ہیں کہ صرف تم ایسے شخص کی پیروی کرتے ہو جو سحر زدہ ہے اور ساحروں نے جس کی عقل و ہوش کو ختم کردیا ہے (إِذْ یَقُولُ الظَّالِمُونَ إِنْ تَتَّبِعُونَ إِلاَّ رَجُلًا مَسْحُورًا) ۔
یہ لوگ در اصل ادراک حقیقت کے لیے تیرے پاس نہیں آتے اور تیری باتیں دل کے کانوں سے نہیں سنتے بلکہ ان کا مقصد تو یہ ہے کہ وہ آکر مخل ہوں اور اگر ہوسکے تو مومنین کو راستے سے بھٹکا دیں ۔ اصولی طور پر جس کے دلپر پردہ پڑا ہو اور جس کے کان ایسے بوجہل ہوں کہ وہ حق بات سن ہی نہ سکے وہ مردان حق کی باتیں ایسے مقاصد کے علاوہ نہیں سنتے ۔
زیرِ بحث آخری آیت میں پیغمبر اکرم کی طرف روئے سخن کرتے ہوئے مختصرسی عبارت میں ان گمراہوں کو دندان شکن جواب دیا گیا ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے: دیکھ! تیرے بارے میں کیسی کیسی پھبتیاں کستے ہیں (کوئی تجھے جادو گر کہتا ہے، کوئی سحر زدہ ، کوئی کاہن اور کوئی مجنون) ، یہی وجہ ہے کہ وہ گمراہ ہوئے ہیں اور راہِ حق پانے کی سکت نہیں رکھتے (انظُرْ کَیْفَ ضَرَبُوا لَکَ الْاٴَمْثَالَ فَضَلُّوا فَلَایَسْتَطِیعُونَ سَبِیلًا) ۔
ایسا نہیں کہ راستہ واضح نہیں ہے اور حق کا چہرہ چھپ گیا ہے بلکہ ان کے پاس چشم بینا نہیں ہے اور وہ بعض و جہالت، تعصب اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے اپنی عقل و خرد گنوا بیٹھے ہیں ۔

 

سوره اسراء آیت 44 - 47چند اہم نکات
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma