ایک سوال کا جواب

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 12
موجودات عالم کی عمومی تسبیحسوره اسراء آیت 44 - 47

یہاں ایک سوال باقی رہ جاتا ہے ۔ وہ یہ کہ اگر تسبیح و حمد سے مراد یہ ہے کہ نظامِ آفرینش خدا کی پاکیزگی، عظمت،قدرت اور صفات ثبوتیہ و سلبیہ کی حکایت و ترجمانی کرتا ہے تو پھر قرآن کیوں کہتا ہے کہ تم ان کی حمد و تسبیح نہیں سمجھتے کیونکہ بعض لوگ نہیں سمجھتے تو کم از کم علماء او ردانشمند تو سمجھتے ہیں ۔
اس سوال کے دو جواب ہیں:
پہلا یہ کہ روئے سخن لوگوں کی نادان اکثریت خصوصاً مشرکین کی طرف ہے اور صاحب ایمان علماء کہ جو اقلیت میںہیں اس عموم سے مستثنیٰ ہیں کیونکہ ہر عام میں استثناء ہے ۔
دوسرا یہ کہ اسرار عالم میں سے جو کچھ ہم جانتے ہیں وہ اس کے مقابلے میںکہ جسے ہم نہیں جانتے سمندر کے مقابلے میں قطرے کی مانند ہے اور عظیم پہاڑ کے مقابلے میں ذرّے کی طرح ہے ۔ اگر کسی میں صحیح طور پر غور و فکر کیا جائے تو اسے علم و دانش کا نام بھی نہیں دیا جاسکتا ۔
تا بد انجار رسید دانش من کہ بدانستمی کہ نادانم!
میرا علم یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ مجھے معلوم ہوگیا ہے کہ میں نہیں جانتا ۔
اس بناء پر اگر ہم عالم بھی ہوں تو بھی ان موجودات کی حمد وتسبیح نہیںپہچانتے کیونکہ جو کچھ ہم سُن رہے ہیں وہ ایک عظیم کتاب کا ایک لفظ ہے ۔ اس لحاظ سے ایک عمومی حکم کے طور پر یہ سب لوگوں سے خطاب ہے کہ عالم ہستی کی موجودات زبانِ حال سے جو تسبیح و حمد کرتے ہیں تم انہیں نہیں سمجھتے کیونکہ جو کچھ تم سمجھتے ہو وہ اس قدر ناچیز او رحقیر ہے کہ کسی حساب و شمار ہی میں نہیں آتا ۔
۳۔ بعض مفسرین نے یہ احتمال بھی ظاہر کیا ہے کہ یہاں موجودات کی عمومی تسبیح و حمد زبانِ حال اور زبانِ قال دونوں کا مرکب ہے ۔ دوسرے لفظوں میں یہ تسبیح”تسبیح تکوینی“ بھی ہے اور”تسبیح تشریعی“ بھی کیونکہ بہت سے انسان اور تمام فرشتے ادراک و شعور کے ساتھ اس کی حمد و ثنا کرتے ہیں اور باقی تمام موجودات کے ذرّے بھی اپنی زبانِ حال سے خالق کی عظمت کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں ۔
یہ دونوں قسم کی حمد و تسبیح اگر چہ آپس میں فرق رکھتی ہے لیکن حمد و تسبیح کے وسیع مفہوم میں دونوںمشترک ہیں لیکن جیسا کہ واضح ہے دوسری تفسیر اس تشریح کے ساتھ کہ جو ہم نے بیان کی سب سے زیادہ دلچسپ ہے ۔

پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم اور آئمہ اہل بیت علیہم السلام سے جو روایات اس سلسلے میں ہم تک پہنچی ہیں ان میں جاذبِ نظر تعبیرات دکھائی دیتی ہیں ۔
امام صادق علیہ السلام کا ایک صحابی کہتا ہے: میں نے آیہ”وَإِنْ مِنْ شَیْءٍ إِلاَّ یُسَبِّحُ بِحَمْدِہِ“ کے متعلق سوال کیا تو آپ(ص) نے جواب میں فرمایا:
کل شیء یسبح بحمدہ وانا لنریٰ اٴن ینقض الجدار وھو تسبیحھ-
جی ہاں ہر چیز خدا کی تسبیح و حمد کرتی ہے ۔یہاں تک کہ جب دیوار گر رہی ہوتی ہے اور اس کے گرنے کی آواز ہمیں سنائی دے رہی ہوتی ہے تو وہ بھی تسبیح ہوتی ہے ۔ (1)
امام باقر علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ(ص) نے فرمایا:
نھی رسول الله عن ان توسھم البھائم فی وجوھھا، واٴن تضرب وجوھھا لاٴنّھا تسبح ربھ-
رسول الله نے فرمایا کہ جانوروں کے منہ نہ داغو اور ان کے منہ پر تازیانہ نہ مارو کیونکہ خدا کی حمد و ثنا کرتے ہیں(2)
امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے:
ما من طیر یصاد فی بر ولابحر ولا شیء یصاد من الوحش الّا بتضیعہ التسبیح-
کوئی پرندہ صحرا و دریا میں شکار نہیں ہوتا اور کوئی جانور دام صیاد میں نہیں پھنستا مگر تسبیح ترک کرنے سے ۔ (3)
امام باقر علیہ السلام نے چڑیا کی آواز سنی توفرمایا: جانتے ہو یہ کیا کہتی ہیں؟
ابو حمزہ ثمالی جو آپ کے خاص اصحاب میں سے تھے نے عرض کیا: نہیں ۔
اس پر آپ(ص) نے فزمایا:
یسبحن ربہن عزوجل و یسئلن قوت یومہن
یہ خدائے عزوجل کی تسبیح کرتی ہیں اور اس سے دن کی روزی مانگتی ہیں ۔ (4)
ایک اور حدیث میں ہے:
ایک روز رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم حضرت عائشہ کے پاس آئے ۔ فرمایا: میرے یہ دونوں کپڑے دھو ڈالو۔
کہنے لگیں: یا رسول اللہ! کل میں نے انہیں دھویا تھا ۔
رسول اللہ نے فرمایا:
اما علمت ان الثوب یسبحن فاذا اتسخ انقطع تسبیحہ۔
کیا جانتی نہیں ہو کہ کپڑے تسبیح کرتے ہیں اور جب میلے ہوجائیں تو ان کی تسبیح رُک جاتی ہے ۔ (5)
ایک اور حدیث میں امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ(ص) نے فرمایا:
للدابة علی صاحبہا ستة حقوق لا یحملہا فوق طاقتہا، ولا یتخذ ظہرہا مجلساً یتحدث علیہا، و یبدء بعلفہا اذا نزل، ولا یسمہا فی وجہہا، ولا یضربہا فانہا تسبح و یعرض علیہا الماء اذا مربہا ۔
جانور اپنے مالک پر چھ حق رکھتا ہے:
۱۔ اس کی طاقت سے زیادہ اس پر بار نہ لادے ۔
۲۔ اس کی پشت کو باتیں کرنے کی مجلس نہ بنائے (بلکہ جب کسی سے سرِراہ ملاقات ہوجائے اور اس سے باتیں کرنا چاہے تو سواری سے اتر کرے اور بات چیت ختم ہوجائے تو سوار ہوکر چل دے) ۔
۳۔ جس منزل پر پہنچے اسے پہلے چارہ مہیا کرے ۔
۴۔ اس کے منہ کو نہ داغے ۔
۵۔ اور نہ اس کے منہ پر مارے کیونکہ وہ خدا کی تسبیح کرتا ہے ۔
۶۔ اور چشمہ آب یا ایسی کسی جگہ سے گزرے تو اسے پانی کے پاس لے جائے(تاکہ اگر وہ پیاسا ہے تو پانی پی لے) ۔ (6)
مجموعی طور پر یہ روایات کہ جن میں سے بعض دقیق اور باریک معانی کی حامل ہیں، نشاندہی کرتی ہیں کہ موجودات کی تسبیح والا عام حکم بلا استثناء سب چیزوں پر محیط ہے اور یہ سب چیزیں مذکورہ بالا دوسری تفسیر(تفسیر تکوینی اور زبان حال کے معنی میں تسبیح) سے پوری طرح مطابقت رکھتی ہیں اور یہ جو ان روایات میں ہے کہ جس وقت لباس کثیف ہوجاتا ہے تو اس کی تسبیح رُک جاتی ہے، ممکن ہے یہ اس طرف اشارہ ہو کہ جب تک موجودات طبیعی حالت میں اور پاک صاف ہوں تو انسان کو یاد الٰہی میں ڈالتی ہیں ۔ لیکن جب طبیعی حالت میں اور پاک صاف نہ ہوں تو پھر یاد کا یہ سلسلہ باقی نہیں رہتا ۔

 


1۔ نور الثقلین ج ۳ ص ۱۶۸-
2۔ نورالثقلین ج ۳ ص ۱۶۸-
3۔ نور الثقلین ج ۳ ص ۱۶۸-
4۔ تفسیر المیزان، بحوالہ حلیة الاولیاء از ابونعیم اصفہانی-
5۔ تفسیر المیزان، بحوالہ حلیة الاولیاء از ابونعیم اصفہانی-
6۔ تفسیر المیزان، بحوالہ کافی ۴-
موجودات عالم کی عمومی تسبیحسوره اسراء آیت 44 - 47
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma