موجودات عالم کی عمومی تسبیح

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 12
وہ حق سے کیو نکر فرار کرتے ہیں؟ایک سوال کا جواب

قرآن کی مختلف آیات میں یہ بات آئی ہے کہ عالم ہستی کے موجودات خدائے عظیم کی تسبیح اور حمد کرتے ہیں ۔ ان سب آیات میں شاید زیادہ صریح زیرِ بحث آیت ہے ۔ اس آیت کے مطابق عالم ہستی کے تمام موجودات بلا استثناء مصروف تسبیح ہیں ۔ اس کے مطابق زمین، آسمان، ستارہ، کہکشاں، انسان، حیوان، نباتات یہاں تک کہ ایٹم کے چھوٹے چھوٹے ذرّات بھی اس عموی تسبیح و حمد میں شریک ہیں ۔
قرآن کہتا ہے عالم ہستی سر تا پا زمزمہ و نغمہ ہے ۔ ہر موجود ایک طرح سے حمد و ثنائے حق میں مشغول ہے ۔بظاہر خاموش عالم ہستی کے صحن میں مسلسل ایک نغمہ ہے ۔ بے خبر لوگ اسے سننے کی توانایی نہیں رکھتے لیکن وہ صاحبان فکر و نظر جن کا قلب و روح نور ایمان سے زندہ اور روشن ہے ہر طرف سے کان اور جان سے یہ صدا سن رہے ہیں ۔ بقول شاعر:
۱۔گر تو را از غیب چشمی باز شد با تو ذراتِ جہاں ہمراہ شد
۲۔نطق آب و نطق خاک و نطق گل ہست محسوس حواس اہلِ دل!
۳۔جملہ ذرّات در عالم نہاں با تو می گویند روزان و شباں
۴۔ ما سمیم و بصیر و باہشیم با شما نامحرمان ما خامشیم!
۵۔ا زجمادی سوئی جان حاں شوید غلغل اجزای عالم بشنوید
۶۔فاش تسبیح جمادات آیدت وسوسہ ی تاٴویلھا بزد ایدت
۱۔ اگر تجھے نگاہ غیب حاصل ہو جائے تو ذرات عالم تجھ سے باتیں کرنے لگیں ۔
۲۔ پانی، خاک اور مٹی کا بولنا اہلِ دل محسوس کرتے ہیں ۔
۳۔ سارے عالم کے موجودات چپکے چپکے شب و روز تجھ سے کہتے ہیں ۔
۴۔ وہ سنتے ہیں، دیکھتے ہیں اور باہوش ہیں البتہ تم نا حرموں سے بات نہیں کرتے ۔
۵۔ ایک جماد بے جاں سے جانِ جاں ہوجاوٴ تو اجرائے عالم کا غلغلہ سنو۔
۶۔جمادات کی تسبیح تمہیں صاف سنائی دے گی اور تاویلوں کا وسوسہ کم کردے گی۔
اس حمد و تسبیح کی حقیقت کے بارے میں فلاسفہ اورمفسرین کے درمیان بہت اختلاف ہے ۔ بعض نے اسے ”حالی“ کہا ہے اور بعض نے ”قالی“ ہمارے نزدیک اان کے جو قابلِ قبول نظریات ہیں، ذیل میں ان کا خلاصہ پیشِ خدمت ہے ۔
۱۔ ایک گروہ کا نظریہ ہےں کہ اس جہان کے سب ذرّات انہیں ہم عاقل سمجھیں یا غیر عاقل ایک قسم کے ادراک اور شعور کے حامل ہیں اگر چہ ہم میں یہ قدرت نہیں کہ ان کے ادراک و احساس کی کیفیت سمجھ سکیں اور ان کی حمد و تسبیح سن سکیں ۔
وہ مختلف آیات اپنے نظریے کا شاہد قرار دیتے ہیں، مثلاً:
<وَإِنَّ مِنْھَا لَمَا یَھْبِطُ مِنْ خَشْیَةِ اللهِ
بعض پتھر خوفِ خدا سے پہاڑوں کی چوٹی سے نیچے گِر جاتے ہیں ۔ (بقرہ۔۷۴)
<فَقَالَ لَھَا وَلِلْاٴَرْضِ اِئْتِیَا طَوْعًا اٴَوْ کَرْھًا قَالَتَا اٴَتَیْنَا طَائِعِینَ
اللہ نے آسمان و زمین سے فرمایا طوعاً یا کرہاً میرے فرمان کی طرف آؤ تو انہوں نے کہا کہ ہم اطاعت کا راستہ اپنائیں گے ۔ (حٰم ٓ السّجدہ۔۷۴)
۲۔ بہت سوں کا نظریہ ہے کہ یہ تسبیح اور حمد وہی چیز ہے جسے ہم ”زبان حال“ کہتے ہیں ۔یہ تسبیح حقیقی ہے نہ کہ مجازی لیکن زبانِ حال سے ہے نہ کہ زبان قال سے (غور کیجئے گا) ۔
اس کی وضاحت یہ ہے کہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اگر کسی شخص کے چہرے اور آنکھوں سے تکلیف ، رنج و غم اور بے خوابی نمایاں ہو تو ہم کہتے ہیں کہ اگر چہ تم اپنی تکلیف اور رنج و غم کے بارے میں زبان سے کچھ نہیں کہتے لیکن تمہاری آنکھیں کہہ رہی ہیں کہ تم کل رات نہیں سوئے اور تمہارا چہرہ کہہ رہا ہے کہ تم کسی جان کاہ رنج و غم سے گزر رہے ہو۔ یہ زبان حال کبھی اس قدر قوی ہوتی ہے کہ زبان قال سے انکار چھپانے کی کوشش بھی کی جائے تو حقیقت چھپ نہیں سکتی۔ بقول شاعر:
گفتم کہ با مکرو فسوں پنہان کنم رازِ دروں
پنہاں نمی گردو کہ خون از دید گانم می رود
میں نے چاہا کہ کسی حیلے سے رازِ دروں چھپا لوں ۔
لیکن وہ نہیں چھپتا کیونکہ میری آنکھوں سے خون جاری ہے ۔
یہی بات حضرت علی علیہ السلام اپنے مشہور جملے میں فرماتے ہیں:
ما اضمر احد شیئاً الاظہر فی فلتات لسانہ و صفحات وجھہ
کوئی شخص اپنے دل کا بھید نہیں چھپاتا مگر یہ کہ لا علمی میں اس کی گفتگو کے دوران اور اس کے چہرے کے صفحہ پر آشکار ہوجاتا ہے ۔ (2)
کیا انکار کیا جاسکتا ہے کہ عظیم نامور شعراء کا دیوان ان کے ذوقِ ادراک اور طبیعت عالی کی حکایت کرتا ہے اور ہمیشہ صاحبِ دیوان کی تعریف کرتا ہے ۔ کیا انکار کیا جاسکتا ہے کہ عظیم عمارتیں اور بڑے بڑے کاخانے اور پیچیدہ کمپیوٹر وغیرہ زبانی سے اپنے موجد کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں اورہر ایک اپنی اپنی حد تک اپنے موجد کی ستائش کرتا ہے ۔
لہٰذا ماننا پڑے گا کہ یہ عجیب و غریب عالم ہستی اپنے عجیب نظام، اسرار، خیرہ کن عظمت اور حیرت انگیز باریکییوں کے ساتھ خدا کی تسبیح و حمد کرتا ہے ۔
کیا”تسبیح“ عیوب سے پاک شمار کرنے کہ علاوہ کچھ اور ہے؟ اس عالم ہستی کے ساخت اور اس کا نظم او ر نسق ہوتا ہے کہ اس کا خالق ہر قسم کے نقص اور عیب سے مبرا اوںر منزہ ہے ۔
کیا حمد و ثنا صفات کمال بیان کرنے کے علاوہ کچھ اور ہے؟ جہان آفرینش کا نظام۔ الله کی صفات کمال ،اس کے بے پایان علم، بے انتہا قدرت اور وسیع اور ہمہ گیر حکمت کی حایت کرتا ہے ۔
مخصوصاً سائنس و اور علم و دانش کی پیشرفت سے اور اس وسیع عالم کے اسرار کے بعض گوشوں سے پردہ اٹھنے سے موجودات عالم کی یہ عمومی حمد وتسبیح زیادہ آشکار ہوئی ہے ۔
اگر ایک دن کوئی نکتہ پرداز شاعر سبز و درختوں کے ہر پتے کو معرفت پروردگار کا ایک دفتر سمجھتا تھا تو آج کے ماہرین نباتات اور سائنس دانوں نے ایک دفتر نہیں بلکہ کئی کتابیں لکھی ہیں آج ان ماہرین نے پتوں کے چھوٹے سے چھوٹے اجرا کی حیرت انگیز ساخت پر بحث کی ہے ۔ پتوں کے اجرائے حیات ،cellules سے لے کر ان کی سات تہوں، ان کے تنفس کے نظام ،آب غذا کے حصول کے لیے ان کے رشتے ناتوں پر کتابیں لکھی گئی ہیں ۔ کئی پیچیدہ پتوں کی خصوصیات پر بھی ایسی کتابوں میں بحث کی گئی ہے ۔
لہٰذا ہر پتّہ شب و روز مزمہٴ توحید گنگناتا ہے ۔ پتوں کی تسبیح کی دلنشین آواز باغوں، کہساروں اور درّوں کے پُر پیچ راستوں میں گونج رہی ہے لیکن بے خبر لوگوں کوکچھ نہیں آتا وہ انہیں خاموش اور گونگا سمجھتے ہیں ۔
موجودات کی عمومی تسبیح و حمد کا یہ مفہوم پوری قابلِ فہم ہے اور ضروری نہیں کہ ہم اس بات کے قائل ہوں کہ عالم ہستی کے تمام ذرّات ادراک و شعور رکھتے ہیں کیونکہ اس بات کے لیے ہمارے پاس کوئی قطعی دلیل نہیںہے او رزیادہ احتمال یہی ہے کہ مذکورہ آیات اسی”زبانِ حال“ کی طرف اشارہ کرتی ہیں ۔

 


1۔ نہج البلاغہ، کلمات قصار۲۶-

 

وہ حق سے کیو نکر فرار کرتے ہیں؟ایک سوال کا جواب
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma