انفاق و بخشش میں اعتدال

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 12
چند اہم نکاتچند اہم نکات

ان آیات میں اسلام کے بنیادی احکام کا ایک اور حصہ بیان کیا گیا ہے ۔ ان میں قریبیوں، حاجت مندوں اور مسکینوں کے حق کی ادائیگی کے بارے میں حکم ہے نیز انفاق میں فضولی خرچی سے روکا بھی گیا ہے
پہلے فرمایا گیاہے: قریبیوں اور نزدیکیوں کا حق انہیں دے(وَآتِ ذَا الْقُرْبیٰ حَقَّہُ) ۔ اسی طرح حاجت مندوں اور راہ میں رہ جانے والوں کا حق انہیں دے(وَالْمِسْکِینَ وَابْنَ السَّبِیلِ) ۔ لیکن اس طرح سے کہ ہرگز فضولی خرچی نہ ہو(وَلَاتُبَذِّرْ تَبْذِیرًا) ۔
”تبذیر“ اصل میں ”بذر“ کے مادہ سے بیج ڈالنے اور دانہ چھڑکنے کے معنی میں ہے لیکن یہ لفظ ایسے مواقع سے مخصوص ہے جہاں انسان اپنے اموال کو غیر منطقی اور غلط کام میں خرچ کرے ۔ فارسی میں اس کا متبادل ہے”ریخت وپاش “۔دوسرے لفظوں میں ”تبذیر“ نامناسب مقام پر مال خرچ کرنے کو کہتے ہیں چاہے تھوڑا ساہی کیوں نہ ہو۔ بر محل مقام پر خرچ کرنے کو ”تبذیر“ نہیں کہتے چاہے زیادہ ہی کیوں نہ ہو۔ جیسا کہ تفسیر عیاشی میں امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ(ص) نے اس آیت کے بارے میں سوال کرنے والے کے جواب میں فرمایا:
من اٴنفق شیئاً فی غیر طاعة الله فہو مبذّر ومن اٴنفق فی سبیل الله فہو مقتصد-
جو شخص حکم الٰہی اطاعت کے خلاف کہیں خرچ کرے وہ”مبذر“(فضولی خرچ) ہے اور جو شخص راہ خدا میں خرچ کرے وہ مقتصد (میانہ رو) ہے(۱) ۔
آپ ہی سے منقول ہے کہ ایک مرتبہ آپ(ص) نے حاضرین کے لیے ترو تازہ کھجوریں لانے کا حکم دیا ۔
بعض لوگ کھجور کھاتے اور ان کی کٹھلیاں دور پھینک دیتے ۔آپ(ص) نے فرمایا: ایسا نہ کرو”تبزیر“ ہے اور خدا برائی کو پسند نہیں کرتا ۔ (2)
اسراف اور تبذیر کا معاملے اتنا باریک ہے کہ ایک حدیث میں ہے کہ پیغمبر اکرم صلی الله علیہ والہ(ص) وسلم ایک راستہ سے گزر رہے تھے ۔ آپ کے ایک صحابی سعد وضو کر رہے تھے اور پانی زیاد ہ ڈال رہے تھے ۔ آپ نے فرمایا:
اسراف کیوں کرتے ہو؟
سعد نے عرض کیا:
کیا وضو کے پانی میں بھی اسراف ہے؟
آپ نے فرمایا:
نعم وان کنت علی نھر جار-
ہاں اگر چہ تم جاری دریا کے کنارے ہی کیوں نہ ہو۔ (3)
اس سلسلے میں کہ ”ذی القربیٰ“ سے آنحضرت کے سب رشتہ دار مراد ہیں یا مخصوص رشتہ دار(کیونکہ آیت میں مخاطب آنحضرت ہی ہیں)، اس سلسلے میں مفسرین میں اختلاف ہے ۔
متعدد احادیث کہ جن کے بارے میں”چند اہم نکات“ کے زیر عنوان بحث آئے گی، میں ہم پڑھیں گے کہ یہ آیت رسول الله کے”ذوی القربیٰ“ سے تفسیر ہوگئی ہے ۔ یہاں تک کہ بعض احادیث میں ہے کہ یہ آیت آنحضرت کی طرف سے حضرت فاطمہ الزہرا اسلام الله علیہا کو فدک کا علاقہ بخشے کے بارے میں ہے لیکن جیسا کہ ہم نے بار ہا کہا ہے ایسی تفسیر آیات کے وسیع مفہوم کو محدود نہیں کرتیں ۔ در اصل ان میں روشن اور واضح مصداق کا ذکر ہوتا ہے ۔
”واٰت“میں رسول الله سے خطاب کیا گیا ہے لیکن یہ بات اس امر کی دلیل نہیں کہ حکم آنحضرت ہی سے مخصوص ہے ۔کیونکہ باقی احکام جوان آیات میں آئے ہیں مثلا فضولی خرچی کی ممانعت، سائل اور مسکین سے نرمی یا بخل کی ممانعت سب رسول اکرم سے خطاب کی صورت میں ہیں حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ یہ احکام آپ سے مخصوص نہیں ہیں اور ان کا مفہوم طرح عام ہے ۔
اس نکتے کی طرف بھی توجہ ضروری ہے کہ رشتہ داروں، مسکینوں اور مسافروں کا حق ادا کرنے کے حکم کے بعد فضولی خرچی کی ممانت اس طرف اشارہ ہے کہ کہیں انسان قرابت کے جذبات یا مسکین اور مسافر سے کسی جذباتی وابستگی کے زیر اثر نہ آ جائے اور ان کے استحقاق سے زیادہ خرچ نہ کرے اور سرف کی راہ اختیار نہ کرے کیونکہ اسراف اور فضولی خرچی ہر مقام پر مذموم ہے ۔
بعد والی آیت”تبذیر“ کی ممانعت پر استدال اور تاکید کے طور پر ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے: اسراف کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں(إِنَّ الْمُبَذِّرِینَ کَانُوا إِخْوَانَ الشَّیَاطِینِ) ۔
اور شیطان نے پروردگار کی نعمتوں کا کیسے کفران کیا تو اس کا جواب واضح ہے کیونکہ الله تعالیٰ نے اسے بہت زیادہ قوت و استعداد دے رکھی تھی۔ اس نے ان سب قوتوں کوغلط مقام پر صرف کیا یعنی لوگوں کوگمراہ کیا ۔
رہا یہ کہ اسراف کرنے والے شیطان کے بھائی کیسے ہیں؟ تو اس کو وجہ یہ ہے کہ وہ بھی خدا داد نعمتوں کا کفران کرتے ہیں اور جہاں انہیں استعمال کرنا چاہئے وہاں کی بجائے انہیں غلط مقام پر خرچ کرتے ہیں ۔
”اخوان“(بھائی) یا اس بناء پر ہے کہ ان کے اعمال شیطانوں سے اس طرح ہم آہنگ ہیں جیسے بھائیوں کے کہ جو ایک جیسے عمل کرتے ہیں اور یا اس بناء پر کہ وہ دوزخ میں شیطانوں کے ہم نشین ہوں گے جیسا کہ سورہ زخرف آیہ ۳۹ میں شیطان کا گناہوں سے آلودہ انسانوں سے بہت نزدیکی تعلق بیان کرنے کے بعدفرمایا گیا ہے:
<وَلَنْ یَنفَعَکُمْ الْیَوْمَ إِذْ ظَلَمْتُمْ اٴَنَّکُمْ فِی الْعَذَابِ مُشْتَرِکُونَ
آج شیطان سے اظہار برائت اور علیحد گی کا تقاضا تمہارے لیے سود مند نہیں ہے کیونکہ تم سب عذاب میں مشترک ہو۔
رہا یہ کہ”شیاطین“ یہاں جمع کی صورت میں ہے ۔ ہو سکتا ہے یہ اس چیز کی طرف اشارہ ہو جو سورہ ز خرف کی آیات سے معلوم ہوتی ہے کہ جو شخص یاد خدا سے منہ پھیر لے ایک شیطان کو اس کا ہمنشین قرار دیا جاتا ہے جو نہ صرف اس جہاں میں اس کے ہمراہ ہوگا بلکہ اس جہان میں بھی ساتھ ہوگا ۔ قرآن کے الفاظ میں:
<وَزُخْرُفًا وَإِنْ کُلُّ ذٰلِکَ لَمَّا مَتَاعُ الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَالْآخِرَةُ عِنْدَ رَبِّکَ لِلْمُتَّقِینَ، وَمَنْ یَعْشُ عَنْ ذِکْرِ الرَّحْمَانِ نُقَیِّضْ لَہُ شَیْطَانًا فَھُوَ لَہُ قَرِینٌ، ---- حَتَّی إِذَا جَائَنَا قَالَ یَالَیْتَ بَیْنِی وَبَیْنَکَ بُعْدَ الْمَشْرِقَیْنِ فَبِئْسَ الْقَرِینُ(زخرف/۳۶و۳۸)
بعض اوقات کوئی مسکین کسی کے پاس آتا ہے لیکن اس کی ضرورت کے مطابق اس کی مدد کرنا اس کے بس میں نہیں ہوتا ۔ اس سلسلے میں اگلی آیت بتاتی ہے کہ ضرورت مندوں سے کیسا سلوک کرنا چائیے ۔
ارشاد ہوتا ہے:”اگر تو ان ضرورت مندوںسے(وسائل نہ ہونے کی وجہ سے اور) رحمت کے انتظار میں ہونے کے باعث رُخ موڑے تو ایسا تحقیر اور بے حرمتی سے نہیں ہونا چاہئے بلکہ ان سے نرم اور سنجیدہ گفتگو سے بڑی محبت سے پیش آنا چاہئے ۔“ یہاں تک کہ اگر ہوسکے تو ان سے آئندہ کا وعدہ کرلے تا کہ وہ مایوس نہ ہوں(وَإِمَّا تُعْرِضَنَّ عَنْھُمْ ابْتِغَاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّکَ تَرْجُوھَا فَقُلْ لَھُمْ قَوْلًا مَیْسُورًا) ۔
”میسور“ ”یسر“ کے مادہ سے راحت اور آسان کے معنی میں ہے ۔ یہاں یہ لفظ وسیع مفہوم رکھتا ہے ۔ اس میں ہر قسم کی اچھی گفتگو اور محبت آمیز برتاوٴ کا مفہوم شامل ہے ۔ لہٰذا اگر بعض نے اس کی تفسیر کسی خاص عبارت سے کی ہے آئندہ کا وعدہ کرنا مراد لیا ہے تو یہ مصداق کی حیثیت رکھتا ہے ۔
روایات میں ہے کہ اس آیت کے نزول کے بعد جب کوئی شخص رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم سے کچھ مانگتا اور آپ کے پاس دینے کو کچھ نہ ہوہوتا تو فرماتے:
یرزقنا الله وایاکم من فضلہ-
میں امید رکھتا ہوں کہ خدا ہمیں اپنے فضل سے رزق دے گا ۔ (4)
ہمارے ہاں قدیمی طریقہ ہے کہ کوئی سائل گھر کے دروازے پر آئے اور اسے دینے کو کچھ نہ ہوتا تو کہتے ہیں: معاف کرو۔
یہ اس طرف اشارہ ہے کہ تیرے آنے سے ہمارے اوپر ایک حق عائد ہو گیا ہے اور تو اخلاقی طور پر ہم سے کچھ طلب کر رہا ہے ۔ ہم تجھ سے درخواست کرتے ہیں کہ اپنا یہ اخلاقی حق ہمیں بخش دے کیونکہ ہم تمہارے حق کا تقاضا پورا نہیں کر سکتے ۔
اعتدال چونکہ ہر چیز میں ضروری ہے یہاں تک کہ انفاق میں بھی، لہٰذا اگلی آیت میں اس بارے میں تاکید کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے: اپنے ہاتھ کا گردن کے گرد حلقہ نہ بنا(وَلَاتَجْعَلْ یَدَکَ مَغْلُولَةً إِلیٰ عُنُقِکَ) ۔
یہ تعبیر اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ دینے والا ہاتھ تیرے پاس ہونا چاہئے اسے بخیلوں کے ہاتھ کی طرح گردن کی زنجیر نہیں بن جانی چاہیے کہ انسان مدد کرنے کے قابل نہ رہے ۔
دوسری طرف یہ بھی ہے کہ”اپنا ہاتھ اتنا بھی کھلانا رکھ اور بخشش اتنی بھی بے حساب نہ کر کہ تو کام کاج سے رہ جائے اور کبھی اِس اور کبھی اُس کی ملامت سنتار ہے اور لوگوں سے جدا ہو جائے“(وَلَاتَبْسُطْھَا کُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُومًا مَحْسُورًا) ۔
جیسے ہاتھ کا گردن کے لیے حلقہ زنجیربن جانا بخل کے لیے کنایہ ہے اسی طرح ہاتھ کا بالکل کھلا ہونا بے حساب بخشش کرکے بیٹھ رہنے اور بیکار ہوجانے کی طرف اشارہ ہے لفظ”تقعد“”قعود“ کے مادہ سے بیٹھے کے معنی میں ہے ۔
لفظ”ملوم“ اس طرف اشارہ ہے کہ بعض اوقات زیادہ انفاق اور بخشش نہ صرف انسان کی فعالیت ختم کردیتی ہے اوراسے لوگوں کی ملامت کا بہی شکار کردنتی ہے ۔
”محسور“ ”حسر“ (بروزن ”قصر“ )کے مادہ سے در اصل لباس اتار کر کچھ حصہ برہنہ کرنے معنی میں ۔اسی بناء پر ”حاسر“اس جنگجو کو کہتے ہیں جس کے بدن پر زِرہ اور سر پر خود نہ ہو ۔نیز جانور جو زیادہ چلنے کی وجہ سے تھک کررہ گئے ہو ں انہیں بھی ”حسیر“یا ”حاسر“ کہا جاتا ہے ۔گویا ان کی جسمانی طاقت کا لباس اتر جاتا ہے اور وہ برہنہ ہو جاتے میں ۔بعد ازاں اس لفظ مفہوم میں وسعت پیدا ہو گئی اور ہر اس شخص کو جو تھکا ماندہ ہو اور مقصد تک پہنچنے سے عاجز ہو ”حسیر“یا ”حاسر“”محسور“یا ”حسیر“یا ”حاسر“کہا جانے لگا ۔
لفظ ”حسرت“(بمعنی غم واندازہ )اسی مادہ سے لیاگیا ہے کیونکہ یہ حالت عام طور پر انسان پر ایسے عالم میں طاری ہوتی ہے جب وہ مشکلات کو ختم کر نے کی سکت نہ رکھتا ہو گویا اس کی طاقت کا جامہ اتر گیا ہو ۔
انفاق میں بھی انسان حد سے گزر جائے اور اس میں اپنی تمام قوت ہاتھ سے دے بیٹھے تو فطری امر ہے کہ وہ اپنی کار کردگی اور رکھنے اور زندگی کا سازدسامان مہیا کرنے سے رہ جاتاہے گویا اس کی برطرف ہوجاتی ہیں اور وہ غم والم میں ڈوب جاتاہے اور لوگوں سے بھی اس کا میل ملاپ منقطع ہوجاتا ہے ۔
بعض روایات جو اس آیت کی شان نزول میں منقول ہیں ۔ان میں یہ مفہوم وضاحت سے نظر آیا ہے ۔ایک روایات میں ہے :
رسول ا لله ایک گھر میں موجود تھے ۔اس گھر کے دروازہ ے پر ایک سائل آیا اسے دینے کے لیے کوئی چیز مہیانہ تھی ۔اس نے قمیص مانگی تھی۔ رسول الله نے اپنی قمیص اتار کر اسے دے دی ۔اس وجہ سے آپ اس روز مسجد میں نماز کے لیے نہ جا سکے ۔کفار نے اس مسئلے کو اچھا لا طرح طرح کی باتیں کرنے لگے ۔انہوں نے کہا ،محمّد(ص)سو گیاہے یالہو ولعب میں مشغول ہے اور اس نے اپنی نماز بھلادی ہے ۔
اس طرح یہ کام دشمن کی علامت وشماتت کا سبب بھی بنا اور دوستوں کی جدائی کا بھی ۔یعنی ”ملوم ومحسور “کا مصداق ہوا ۔اس پرمند رجہ بالا آیت نازل ہوتی اور رسول الله سے کہا گیا کہ اس کام کا اعادہ نہ ہو ۔
یہ مسئلہ ظاہر اًجس مو قع پر مسئلہ ایثار سے متضادہے، اس کے بارے میں ہم ”چند اہم نکات“کے زیر عنوان بحث کریں گے ۔
بعض نے یہ بھی نقل کیا ہے کہ بعضی اوقات رسول الله بیت المال میں جو کچھ ہوتا کسی ضرورت مند کو دے دیتے ۔ بعد میں کوئی حاجت مند آتا تو پھر آپ کے پاس کچھ نہ ہوتا اور آپ کو شرمندگی محسوس ہوتی۔ ایسے میں بسا اوقات ضرورتمند شخص ملامت کرنے لگتا اور پیغمبر اکرم کے پاک دل کو آزردہ کرتا لہٰذا حکم دیا گیا کہ جو کچھ بیت المال میں ہو سارے کا سارا نہ دیا جائے اور نہ ہی سارا رکھ چھوڑا جائے تا کہ اس قسم کی مشکلات پیش نہ آئیں ۔
یہاں یہ سوال سامنے آتا ہے کہ اصلاً بعض لوگ محروم، نیاز اور مسکین کیوں ہیں کہ جن کی وجہ سے ان کے لیے خرچ کرنا ضروری ہے ۔ کیا بہتر نہ تھا کہ خدا تعالیٰ خود انہیں جس چیز کی ضرورت ہے دے ویتا تا کہ وہ اس کے محتاج نہ ہوتے کہ ان پر خرچ کیا جائے ۔
زیر نظر آخری آیت گویا اس سوال کا جواب ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے: خدا اپنی روزی جس کے لیے چاہتا ہے کشادہ کرتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے تنگ کردیتا ہے کیونکہ وہ اپنے بندوں کے بارے میں آگاہ وبینا ہے(إِنَّ رَبَّکَ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَشَاءُ وَیَقْدِرُ إِنَّہُ کَانَ بِعِبَادِہِ خَبِیرًا بَصِیرًا)
یہ تمھارے لئے ایک آزمائش اور امتحان ہے ورنہ اس کے لئے ہر چیز ممکن ہے، وہاس طرح سے تمھاری تربیت کرنا چاہتا ہے ۔ وہ تم میں سخاوت اور فداکاری کے جذبے پروان چڑھانا چاہتا ہے وہ تمہارے اندر خود غرضی کا خاتمہ چاہتا ہے ۔
علاوہ ازیں بہت سے ایسے لوگ ہیں کہ اگر وہ بالکل بے نیاز ہوجائیں تو سرکشی کی راہ اختیار کرلیں ۔ان کے لیے مصلحت اسی میں ہے کہ ان کو محدود طور پر روزی ملے کہ جس سے وہ فقر و فاقہ میں بھی مبتلا نہ ہوں اور طغیان و سرکشی کی راہ بھی اختیار نہ کریں ۔
ان تمام امور سے قطع نظر انسانوںمیں(معلول، معذور اور مجبور افراد کے علاوہ) رزق کی تنگی اور وسعت ان کی سعی و کوشش سے وابستہ ہے اور یہ جو فرمایا گیا ہے کہ خدا جس کے لیے چاہتا ہے روزی کشادہ کردیتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے تنگ کردیتا ہے، اس کا یہ چاہنا اس کی حکمت کے ساتھ ہم آہنگ ہے اور اس کی حکمت کا تقاضا ہے کہ جس شخص کی کوشش زیادہ ہے اس کا حصہ زیادہ ہو اور جس کی کوشش کم ہے اس کا حصہ کم ہو۔بعض مفسرین نے اس آیت کے گزشتہ آیات سے متعلق کے بارے میں ایک اور احتمال قبول کیا ہے وہ یہ کہ زیر نظر آخری آیت انفاق میں افراط و تفریط سے روکنے کے حکم کی دلیل کے طور پر آئی ہے ۔ فرمایا گیا ہے کہ یہاں تک کہ خدا اپنی اس قدرت و طاقت کے با وجود عطائے رزق میں اعتدال رکھتا ہے نہ اس طرح سے بخشا ہے کہ برائی اور سرکشی بر پا ہوجائے اور نہ اس طرح تنگ کرتا ہے کہ لوگ زحمت و مصیبت میں پڑ جائیں یہ سب کچھ بندوں کے مفاد کے پیش نظر ہے لہٰذا حق یہی ہے کہ تم بھی خدائی اخلاق اپنا کر اعتدال کی راہ اختیار کرو اور افراط اور تفریط سے پرہیز کرو۔ (5)

 


۱۔ تفسیر صافی، زیرِ بحث آیت کے ذیل میں-
2۔ تفسیر صافی، زیرِ بحث آیت کے ذیل میں-
3۔ تفسیر صافی، زیرِ بحث آیت کے ذیل میں-
4۔ تفسیر مجمع البیان ، زیرِ بحث آیت کے ذیل میں-
5۔ المیزان، ج۱۳، ص۸۸-

 

چند اہم نکاتچند اہم نکات
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma