غنا شیاطین کے بڑے جالوں میں سے ایک جال ہے

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 17
شان نزول۱۔ غناکی حرمت

ان آیات میں گفتگو اس گروہ کے بارے میں ہے جو ”محسنین“ اور ”موٴمنین“ کے گروہ کے بالکل مد مقابل قرار دیئے گئے جن کا ذکر گزشتہ آیات میں ہوچکا ہے۔
یہاں پر گفتگو ان لوگوں کے بارے میں ہے جو اپنے سرمائے کوبیہودہ اور لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے خرج کرتے ہیں اور اپنے لیے دنیا و آخرت کی بدبختی مول لیتے ہیں۔
پہلے فرماتا ہے: ”بعض لوگ وہ ہیں جو باطل اور بے ہودہ باتیں خرید کرتے ہیں تاکہ خلق خدا کو جہالت اور نادانی کی بناء پرراہ خدا سے گمراہ کردیں،، (وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَشْتَرِی لَھْوَ الْحَدِیثِ لِیُضِلَّ عَنْ سَبِیلِ اللهِ بِغَیْرِ عِلْمٍ) ۔ ”اور آیات خدا کا مذاق اڑاتے ہیں “(وَیَتَّخِذَھَا ھُزُوًا) (۱)
اور آیت کے آخرمیں ارشاد فرماتاہے: ”ایسے لوگوں کے لیے رسواکن عذاب ہے ،، (اٴُولَئِکَ لَھُمْ عَذَابٌ مُھِینٌ)

باطل اوربے ہودہ باتوں کی خریداری یاتو اس طرح ہے کہ وہ واقعاً باطل اور خرافات سے بھر پورداستانیں پیسے دے کر حاصل کرتے ہیں جیسا کہ”نضر بن حارث“ کا واقعہ بیان ہوچکا ہے۔
اور یا اس طرح سے ہے کہ لہو و لعب اور راگ ورنگ کی محفلیںگا نے والی کنیزیں خرید کرمنعقدکرتے ہیں جیساکہ اسی آیت کے شان نزول کے ضمن میں پیغمبراکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کی حدیث بیان ہوچکی ہے۔
یاوہ مال ودولت کو اس طرح خرچ کرتے ہیں کہ چاہے کچھ ہو جائے وہ اس غیرشرعی مقصدیعنی باطل اور بے ہو باتوں تک رسائی ضرورحاصل کرلیں ۔
تعجب کی بات یہ ہے کہ یہ دل کے اندھے باطل اور لغویات کو توگراں ترین قیمت اداکر کے بھی خریدلیتے ہیں لیکن آیات الٰہی اور حکمت سے بھر پوراقوال جو خدا دندعالم نے بلا قیمت انھیں دیئے ہیں ، اُن کی پرواہ تک نہیں کرتے ۔
یہ احتمال بھی ہے کہ یہاں پر (اشتراء) یعنی خریداری کو کنا یہ کے طورپر استعمال کیا گیا ہو جس سے مراداس مقصدتک پہنچنے کے لیے ہرقسم کی سعی وکوشش ہے۔
لیکن ”لھوالحدیث،، کا ایک وسیع مفہوم ہے جو ہر قسم کی باتوں یا سرگرم رکھنے اور غافل کر نے والی راگ ورنگ کی سُروں اور آہنگوں کو بھی شامل ہے جو انسان کو بے ہودگی یا برائی کی طرف کھینچ کرلے جاتی ہیں .چائے وہ غناہو، گانا ہو، شہوت انگیزو ہوس آلود لحن اور آہنگیں ہوں یا ایسی تقریریں اور تحریریں آہنگ وطرزکے لحاظ سے نہیں بلکہ اپنے مفہوم ومطالب کے لحاظ سے انسان کو برائیوں کی طرف کھیچ کرلے جائیں ۔
یا دونوں طریقوں سے جیسا کہ عام گانے والوں کی تصنیفات اور عشقیہ اشعار ہوتے ہیں ۔اور ان کہ مضامین بھی گمراہ ہوتی ہیں اور آہنگین اور سریں بھی۔
یا وہ واہمات اور خرافات قصے کہانیوں اور داستانیں ہوتی ہیں جو لوگون خدا کے مقرر کردہ ”صرات مستقیم “سے انحراف کا سبب بنتی ہیں ۔
یا تمسخر آمیز اور ہنسی مذاق پر مبنی باتیں جو حق کا مٹانے اور ایمان کی بنیادوں کو کمزور کرنے کے لیے پیش کی جاتی ہے۔ جیساکہ ابوجہل اور اس کے احباب کے بارے میں ابھی بیان کر چکے ہیں کہ وہ قریش کی طرف منہ کر کے کہتاتھا:
”آیا تم چاہتے ہو کہ تمھیں وہ ”زقوّم “کھلاؤں جس سے محمد صلی الله علیہ وآلہ وسلّم تمھیں ڈراتے ہیں ؟“
پھر وہ کسی کو بھیج کر”مگن اور خرما“منگوالیتا اور کہتا ”یہ وہی زقوّم ہے“ اور اس طرح سے وہ آیات الٰہی کا مذاق اڑاتاتھا ۔
بہر حال ”لھوالحدیث“ ایک وسیع مفہوم رکھتا ہے جوان تمام مذکورہ اشیاء اور امورکو شامل ہے ، اور اگر اسلامی روایات اور مفسرین کے اقوال میں ان میں سے کسی ایک کو اختیار کیا جائے تو وہ ہر گز آیت کے مفہوم کے انحصارا ور محدودیت کی دلیل نہیں ہے۔
جواحادیث اہل بیت اطہار علیہ اسلام سے ہم تک پہنچی ہیں ان میں ایسی تعبیریں نظرآتی ہیں جو اس لفظ کے مفہوم کی وسعت کو بیان کرتی ہیں، منجملہ ان کے حضرات امام صادق علیہ اسلام کا ارشادہے:
”الغناء مجلس لاینظر الیٰ اٴھلہ، وھو مما قال الله عزّوجل ”وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَشْتَرِی لَھْوَ الْحَدِیثِ“
غنا اور لہوولعب کی محفل ایسی محفل ہے ایسی محفل ہے جس کے اہل پر خدا (اپنے لطف و کرم کی نگاہ نہیں ڈالتا۔ اور یہ اسی آیہ کا مصداق ہے کہ خداوند عزوجل فرماتا ہے بعض لوگ ایسے ہیں جو بیہودہ باتوں کو خرید کرتے ہیں تاکہ لوگوں کو راہ خدا سے گمراہ کردیں۔(2)
”الْحَدِیث لَھْوَ“ کی بجائے ”لَھْوَالْحَدِیث“ کو بیان کرنا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان کا اصل مقصد تو وہی لہو ولعب ہے بات یا گفتگو تو اس تک پہنچنے کا ایک ذریعہ ہے۔
”لِیُضِلَّ عَنْ سَبِیلِ اللهِ“کا جملہ بھی ایک وسیع مفہوم رکھتا ہے جو اعتقادات کے گمراہ کرنے کو بھی شامل ہے جیسا کہ ابھی نضر بن حارث اور ابوجہل کی داستان میں بیان ہوچکا ہے۔ اور اخلاقی طور پر گمراہ کرنے کو بھی شامل ہے جیسا کہ کہ غنا کے بارے میں مذکور احادیث میں آیا ہے۔
”بِغَیْرِ عِلْمٍ“ کی تعبیر اس باتن کی طرف اشارہ ہے کہ یہ گمراہ اور منحرف گروہ اپنے باطل مذہب پر بھی ایمان نہیں رکھتا بلکہ صرف جہالت اور اندھی تقلید کی وجہ سے دوسروں کی پیروی کرتے ہیں اور ایسے جاہل ہیں کہ دوسروں کو بھی اپنی جہالت اور نادانی میں پھنساتے ہیں۔
یہ اس صورت میں ہے اگر ہم ”بِغَیْرِ عِلْم“ کی تعبیر کو گمراہ کرنے والوں کی صفت قراردیں۔ لیکن بغض مفسرین کا یہ احتمال بھی ہے کہ شاید ”گمراہ ہونے والوں“ کی صفت ہے۔ یعنی وہ جاہل اور بے خبر لوگوں کا لاشعوری طور پر وادی انحراف و باطل کی طرف کھینچ لے جاتے ہیں۔
یہ بے خبر لوگ کبھی اس سے بھی آگے چلے جاتے ہیں یعنی و ہ صرف ان سرگمیوں ، کھیل کو د ، اور غافل کرنے والی حرکتوں پر ہی قانع نہیں ہوتے بلکہ اپنی فضول ، لا یعنی اور بے ہودہ باتوں کو آیات الٰہی کے مذاق اور تمسخر کا ذریعہ قرار دیتے ہیں اور یہ وہی چیز ہے جس کی طرف اُو پر والی آیت کے آخرین اشارہ کرتے ہوئے فر ماتاہے ” وَیَتَّخِذَھَا ھُزُوًا“
باقی رہا ”عَذَابٌ“ کو ” مُھِین“ (خوار اور رسوا کرنے والا) کے ساتھ موصوف کرنا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ سزاکو جرم کے مانندہو جاناچاہیئے انھوں نے آیات الٰہی کے کی توہین کی تو خدانے بھی ان کے لیے وہی سزا متعین کی ہے جو دردناک ہونے کے علاوہ ذلّت آمیزبھی ہے ۔
بعد والی آیت ،آیات الٰہی کے مقابلہ میں اس گروہ کے ردعمل کی طرف اشارہ کررہی ہے کہ درحقیقت لہوا لحدیث کے مقابلہ میں ان کے ردعمل کا ا ظہارکرتے ہوئے فرماتاہے ”جس وقت ان کے سامنے آیات پڑھی جاتی ہیں تو وہ متکبرانہ انداز میں منہ پھیرلیتا ہے گویا اس نے ہماری آیات کو سُناہی نہیں ، گویا اس کے کان بہرے ہیں“ اور وہ بالکل ہی کوئی بات نہیں سُنتا : (وَإِذَا تُتْلَی عَلَیْہِ آیَاتُنَا وَلَّی مُسْتَکْبِرًا کَاٴَنْ لَمْ یَسْمَعْھَا کَاٴَنَّ فِی اٴُذُنَیْہِ وَقْرًا)
اور آخرمیں اس شخص کی سزا اور دردناک عذاب کو اس طرح بیان کرتا ہے ”اس کو دردناک عذاب کی خوشخبری دے دو“ (فَبَشِّرْہُ بِعَذَابٍ اٴَلِیمٍ) ۔
”ولیّٰ مستکبرًا“ کی تعبیراس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ اس کا روگردانی کرنا اس لیے نہیں ہو تا کہ اس کے دنیاوی مفادات اور ہوس رانی پر زدپڑرہی ہوتی ہے بلکہ معاملہ تو اس سے بھی بالاتر ہے اور وہ یہ کہ خدا وآیات خدا کے مقابلہ میں استکبار وتکّبرجو عظیم ترین گناہ ہیں اس کے عمل میں موجود ہیں۔
تو جہ طلب بات یہ ہے کہ پہلے تو یہ کہا ہے کہ ”وہ اس طرح آیات الٰہی سے بے اعتنائی کرتے ہیں گویا انھیں سُنا ہی نہیں اور مکمل طور پر بے اعتنائی کے ساتھ ان کے قریب سے گزرجا تے ہیں “ پھرمزیدکہتا ہے کہ وہ نہ صرف یہ کہ ان آیات کو سنتا ہی نہیں بلکہ گویا بالکل بہرہ ہے اور کوئی بات نہیں سن پاتا۔
اس قسم کے افراد کی سزا بھی ان کے اعمال سے مطابقت رکھتی ہے کہ جس طرح ان کا عمل اہل حق کے لیے دردناک تھا خدا نے اس کی سزابھی دردناک مقرر کی ہے کہ انھیں دردناک عذاب میں گرفتار کرے گا۔
اس نکتہ کی طرف بھی توجہ ضروری ہے کہ ”بشر“(خوشخبری دیدو) کی تعبیر خداکے درد ناک عذاب کے سلسلہ میں ایسے مستکبرین کے کام کے شایان شان ہے جو آیات الٰہی کا مذاق اڑا تے اورابوجہل جیسے افراد جو ”زقوم جہنّم “ کی ”مکھن اور خرما “سے تفسیر کرتے تھے۔
بعد ولی آیات میں سچے مومنین کے حالات کی تفصیل وتشریح کی طرف ٹوتتا ہے کہ ابتداء میں جن کے ساتھ یہ تقابل شرو ع ہوا آخر میں اختتام بھی انھی پر کرتا ہے، فرماتا ہے: ”جو لوگ ایمان لائے اور عمل صالح انجام دیا تو نعمت سے بھر پور جنّت کے باغات ان کے لئے ہیں“ (إِنَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَھُمْ جَنَّاتُ النَّعِیم) ۔
جی ہاں !یہ گروہ مومناں، بے ایمان مستکبرین اور دل کے اندھوں کے بالکل بر عکس ہے جو نہ تو دنیا میں خدا کے آثار اور نشانیوں کو دیکھتے ہیں اور نہ ہی خدا کے پیغمبروں کے ارشاد ات کو دل کے کانون سے سنتے ہیں بلکہ یہ مومن لوگ بیدار عقل و خرد اور چشم بینا ور گوش شنوا کے حکم جو خدانے انھیں عطا فر مائے ہیں آیات الٰہی پر ایمان بھی لاتے ہیں اور اپنے اعمال صالحہ میں انھیں استعمال بھی کرتے ہیں۔پھر مزے کی بات یہ ہے کہ وہ مستکبرین ”عَذَاب الیم“کے اور یہ مومنین ”جَنَّاتُ النَّعِیم“کے مستحق ہیں ۔
زیادہ اہم بات یہ ہے کہ جنت کے یہ نعمتوں بھرے باغات ان کے لیے جاودانہ اور ہمیشہ کے لیے ہیں ”ہمیشہ اسی میں رہیں گے“ (خَالِدِینَ فِیھَا) ۔
”خدا کا اٹل اور مسلّم وعدہ ہے جس کی خلاف وزری ہرگز نہیں ہو سکتی “ (وَعْدَ اللهِ حَقًّا) خدا نہ تو جھوٹا وعدہ کرتا ہے اور نہ ہی وہ اپنے وعدہ کی وفائی سے عاجزہے کیونکہ ”وہ عزیز، صاحب قدرت اور حکیم وآگاہ ہے“ (وَھُوَ الْعَزِیزُ الْحَکِیمُ) ۔
یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ مستکبرین کے بارے میں ”عذاب “ بصورت مفردذکر ہواہے اور صالح العمل مومنین کے بارے میں ”جنات“کو جمع کی صورت میں بیان کیا ہے جو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ خدا کی رحمت ہمیشہ اس کے غضب پر سبقت رکھتی ہے ۔
خلوداور خدا کے وعدہ حق پر تاکید کرنا بھی ”رحمت“ کے ”غضب“ پر زیادہ ہونے کی تاکید ہے ”نعیم “جو ”نعمت“ کے مادہ سے ہے ایک وسیع معنی رکھتا ہے جو ہر قسم کی مادی اور معنوی نعمتوں کو شامل ہے یہاں تک کہ ان نعمتوں کو بھی جو اس دنیا کے زندان بدن میں محبوس ومقیدلوگوں کے لیے قابل ادراک ہیں۔ ”راغب“ اپنی کتاب ”مفردات“ میں کہتے ہیں کہ ”نعیم“”بہت سی نعمتوں“ کے معنی میں ہے (النعیہ النعمةالکثیرة) ۔
۱. ”یتخذھا“ کی ضمیر ”آیات الکتاب“ کی طرف لوٹ رہی ہے جس کا گذشتہ آیات میں ذکر ہوچکا ہے اور بعض مفسرین کا احتمال یہ ہے کہ یہ لفظ ”سبیل“ کی طرف لوٹتی ہے جو قرآن مجید میں کبھی مذکر اور کبھی موٴنث استعمال ہوا ہے۔
2۔ وسائل الشیعہ، ج۱۲، ۲۲۸ن (باب تحریم الغناء) .
شان نزول۱۔ غناکی حرمت
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma