قابلِ اطمینان سہارا:

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 17
سوره لقمان / آیه 20 - 24سوره لقمان / آیه 25 - 30

حضرت لقمان کے مبد اٴومعادا اور راہ ورِسم زندگی اور اجتماعی واخلاقی پر وگراموں کے سلسلہ میں دس نکاتی پندو نصائح کے اختام پر قرآن ا ن کی تکمیل کے لیے خدائی نعمتوں کے بیان کی طرف جاتا ہے ، تا کہ لوگوں کے احساس شکر گزاری کو اجاگر کرے وہ شکر جو ”معرفة اللّٰہ “کا منبع اور اس کے فرمان کی اطاعت کا سبب ہے۔(۱)
روئے سخن تمام انسانوں کی طرف کرتے ہوئے کہتا ہے ”کیا تم نے نہیں دیکھا کہ خدا نے آسمانوں اور زمین میں موجود چیزوں کو تمھارے لیے مسخّر کرد یا تا کہ وہ تمھارے مفادات کے لیے سر گرِم عمل رہیں “:(اٴَلَمْ تَرَوْا اٴَنَّ اللهَ سَخَّرَ لَکُمْ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی الْاٴَرْضِ) ۔
انسان کے لیے آسمانی اور زمینی موجودات کی تسخیر ایک وسیع مفہوم رکہتی ہے جو اُن امور کو بھی شامل ہے جو اس کے قبضہ واختیار میں ہیں ، اور وہ اپنی مرضی اور ارادہ سے انھیں ہیں لیکن اپنے مفادات کی راہ میں استعمال کرتاہے ، جیسے زمین کے بہت سے موجودات ۔یا وہ امور جو انسان کے اختیار میں نہیں ہیں لیکن خدانے انھیں مامور کیا ہے کہ وہ انسان کی خدمت کریں ، جیسے سورج اور چاند وغیرہ ۔

اس بناء پر تمام موجودات انسانوں کی منفعت کی راہ میں فرمان خدا کے مطابق مسخّر ہیں ، چا ہے وہ حکم انسان کے مسخّر ہوں یا نہ ہوں ۔اور اس طرح سے ”لکم “میں ”لام “اصطلاح کے مطابق ”لام منفعت “ہے ۔(2)
آگے چل کر مزید کہتا ہے: ”خدا نے اپنی نعمتوں کو خواہ وہ ظاہری ہوں یاباطنی، وسیع اور زیادہ کیا ہے“(وَاٴَسْبَغَ عَلَیْکُمْ نِعَمَہُ ظَاھِرَةً وَبَاطِنَةً)
”اسبغ“ مادہ ”سبغ“ (بروزن صبر) ا صل میں کھلی اور کشادہ پیراہن یا زرہ اور وسیع وکامل کے معنی میں ہے اور پھر وسیع وفراوان نعمت پر بھی بولا جانے لگاہے۔
یہ کہ یہاں ”ظاہری “ و”باطنی“ نعمتوں سے مر اداس آیت میں کیا ہے؟ اس پر مفسرین نے بہت کچھ گفتگوکی ہے۔ بعض ”ظاہری نعمت “ اس چیز کو سمجھتے ہیں جو کسی بھی شخص کے لیے قابلِ انکار نہیں ہے۔ جیسے خلق، حیات اور انواع واقسام کے رزق وغیرہ اور ”باطنی“ نعمتیں ان امور کی طرف اشارہ سمجھتے ہیں جو غوروفکر اور سوچ بچا را ور مطالعہ کے بغیر قابل ادراک نہیں ہیں۔ (جیسے بہت سی روحانی طاقتیں اور تعمیری غریزے۔)
بعض نے ”نعمت ظاہر“ اعضاء ظاہر کو اور نعمت ”باطن“ دل کو شمار کیا ہے۔
بعض دوسروں نے ”نعمت ظاہر“ چہرہ کی زیبائی اور خوبصورتی ، قدوقامت کی راستی اور اعضاء کی سلامتی اور نعمت ”باطن“ ”معرفة اللہ “ کو تسلیم کیا ہے۔
پیغمبراسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کی ایک حدیث میں پڑھتے ہیں ، جبکہ ابن عباس نے آنحضرت صلی الله علیہ وآلہ وسلّم سے اس سلسلے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا:
اے ابنِ عباس ! نعمت ظاہر، اسلام اور پروردگار کی طرف سے کامل اور منظم خلقت اور وہ رزق وروزی ہے، جو اس نے تم پر ارزانی کی ہیں۔ اور نعمت باطن تمھارے برُے اعمال پر پردہ پوشی اور لوگوں کے سامنے تمھیں رسوا نہ کرنا ہے۔ (3)
ایک اور حدیث میں امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:
”نعمت ظاہر پیغمبر ، معرفة اللہ اور توحید ہے جسےِ پیغمبرلا تے ہیں۔ اور نعمت باطنی وپوشیدہ ہم اہلِ بیت کی دلایت اور ہماری دوستی کا عہدوپیمان ہے“۔ (4)
حقیقت یہ ہے کہ ان تفاسیر کے درمیان کسی قسم کا تضادنہیں ہے۔ کیونکہ آیت کے مفہوم کو محدُدو کیے بغیر ان میں سے ہر ایک ظاہری اور باطنی نعمت کے ہر مصداق کو بیان کرتی ہے۔
اور آیت کے آخر میں قرآن ایسے لوگوں کے بارے میں گفتگو کرتا ہے، جو خدا کی ان عظیم نعمتوں کا انکار کرتے ہیں جو انسان کا اندراور باہر سے احاطہ کیے ہوئے ہیں اور حق کے ساتھ لڑنے کے لیے اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ فرماتا ہے ”بعض ایسے لوگ ہیں جو خدا کے بارے میں بغیر علم ودانش اور ہدایت وواضح کتاب کے ، مجادلہ کرتے ہیں “:(وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یُجَادِلُ فِی اللهِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَلَاھُدًی وَلَاکِتَابٍ مُنِیرٍ) ۔

اور بجائے اس کے کہ تمام پاہر ی اور باطنی نعمتوں بخشنے والے کو پہچانے ، جہالت وسرکشی کی بناء پر شرک اور کفر کا رُخ کرتے ہیں ۔
”علم “و”ہدایت “اور ”کتاب منیر“ کے در میان کیا فرق ہے؟شایدبہترین بیان یہ ہو کہ ایسے علم ادراکات کی طرف اشارہ ہے، جنہیں انسان اپنی عقل وخرد کے ذریعہ سے درک کرتا ہے اور ”ھدی “ایسے خدائی اور آسمانی معلمین ورہبران اور علماء کی طرف اشارہ ہے جو اس کی راہ میں انسان کا ساتھ پکڑ کر اسے منزل مقصود تک پہنچاتے ہیں۔اور ”کتاب منیر“ سے وہ آسمانی کتابیں مراد ہیں جو وحی کے ذریعہ انسان کے دل وجان کو منور کرتی ہیں۔
حقیقت میں یہ ضدی اور ہٹ دھرم گروہ نہ خودعلم ودانش رکھتا ہے، نہ کسی راہبر ورہنما کا اتباع کرتا ہے اور نہ ہی وحی الٰہی سے مددیتاہے۔ چونکہ راہ ہدایت ان تینوں چیزوں میں منحصر ہے، لہٰذا ان کے ترک کرنے سے انسان گمراہی اور شیاطین کی وادی میں کھینچ کر چلا جاتا ہے۔
بعدوالی آیت میں اس گمراہ گروہ کی بودی اور کمزور منطق کی طرف اشارہ کرتے ہوُئے کہتا ہے: اور جس وقت اُن سے کہا جائے، جوکچھُ خدا نے نازل کیا ہے۔ اس کی پیردی کروتووہ کہتے ہیں، نہیں ہم تو اس چیز کی پیروی کریں گے، جس پر ہم نے اپنے آباء (واجداد) کو پایاہے: (وَإِذَا قِیلَ لَھُمْ اتَّبِعُوا مَا اٴَنزَلَ اللهُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا وَجَدْنَا عَلَیْہِ آبَائَنَا) ۔
اور چونکہ ان کے جاہل ومنحرف بزرگوں کی پیروی اوپر والے ہدایت آفرین تین طریقوں میں سے کسی کی بھی جزاء نہیں لہٰذا قرآن اسے راہ شیطان کے عنوان سے ذکر کرتاہے اور فرماتاہے: ”کیا حتی اگر شیطان انھیں بھڑکتی ہوئی آگ کے شعلوں کی طرف دعوت دے تو پھر بھی انھیں اس کا اتباع کرنا چاہئیے؟ (اٴَوَلَوْ کَانَ الشَّیْطَانُ یَدْعُوھُمْ إِلَی عَذَابِ السَّعِیرِ) ۔(5)
حقیقت میں قرآن نے یہاں بڑوں کی سنّت اور اُن کے طور واطوار کی پیروی کے نقاب کو اُلٹ دیا ہے۔ جو ظاہر بظاہر فریب پر بنی ہے اور ان کے عمل کے واقعی چہرہ کو نمایاں کردیا، یعنی وہی جہنم کی راہ اختیار کرنے میں ہی شیطان کی پیروی ہے۔
جی ہاں! شیطان کی راہری ہی اس بات کے لیے تہنا کافی ہے کہ انسان اس کی مخالفت کرے، اگر چہ وہ حق کی طرف دعوت کے پردوں میں کیوں نہ لپٹی ہو ئی ہو۔ کیونکہ وہ یقینا ایک گمراہ کن نقاب ہے جس کے اندر سے جہنم کی آگ کے لیے دعوت دی جارہی ہے اور جہنم کی آگ کی طرف دعوت دیناہی اس بات کے لیے کافی ہے کہ اس کی مخالفت کی جائے۔ اگر چہ دعوت دینے والا مہجوال الحال ہو۔ لیکن اگر دعوت دینے والا شیطان ہواور اس کی دعوت بھی جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ کی طرف ہوتو بات صاف ظاہر ہے۔ کیا کوئی عقل مند انسان اللہ کے پیغمبروں کی بہشت کی طرف دعوت کو چھوڑ کر شیطانی دعوت کے پیچھے جہنم کی طرف جا سکتا ہے؟
اس کے بعد دوگروہوں یعنی خالص موٴمن اور گناہوں سے آلودہ کفار کے حالات کو بیان کرکے اُن کا آپس میں تقابل کرتا ہے اور اس بارے میں بھی تقابل کرتا ہے کہ جو لوگ شیطان کے پیروکار اور اپنے بزرگوں کی اندھی تقلید کرتے ہیں، محل تو جہ قرار دیتے ہوُئے کہتاہے۔ ”جس شخص نے اپنے دل وجان کو خدا کے سپرد کردیا اور پروردگار عالم کے آستان پر سرتسلیم خم کردیا۔ جبکہ وہ محسن اور نیکوکار بھی ہے تو اس نے محکم دستے کو پکڑلیا ہے“ (وَمَنْ یُسْلِمْ وَجْھَہُ إِلَی اللهِ وَھُوَ مُحْسِنٌ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَی) ۔
”خدا کے لیے اپنے چہرے کو تسلیم اور خم کرنے “ سے مراد حقیقت میں پروردگار کی ذات پاک کی طرف اپنے تمام وجودکے ساتھ مکمل توجہ کی طرف اشارہ۔ ”وجھہ “ (جس کا معنی چہرہ ہے) چونکہ بدن کاشرلیف ترین عضو اور حواس انسانی کا اہم ترین مرکزہے۔ لہٰذا انسان کی ذات سے کنایہ کے طورپر استمال ہئواہے ۔
”ھومحسن “ کی تعبیر ایمان کے بعد عمل صالح کے ذکرکی قسم ہے۔
محکم عردہ اور دستہ کو پکڑ نا اس حقیقت کے متعلق ایسی اطیف تشبیہ ہے کہ انسان مادیت کے گہرے کھڈے سے نکلنے اور معرفت ، معنویت اور روحانیت کی بلند ترین چوٹی تک پہنچنے کے لیے ایک محکم اور مقابِل اطمینان وسیلہ کا محتاج ہے اور یہ وسیلہ ایمان اور عمل صالح کے علاوہ کوئی اور چیز نہیں ہو سکتی، ان کے علاوہ باقی سب کچھ فرسود ، پارہ پارہ ہونے والا ، سقود اور موت کا سبب ہیں ۔علاوہ ازیں صرف وسیلہ ہی کو بقا حاصل ہے ۔اس کے علاوہ سب کچھ فانی اور نابود ، ہونے والا ہے۔اس لیے آیت کے آخر میں فرماتا ہے ”تمام کاموں کی عاقبت خا کی طرف ہے:“ (وَإِلَی اللهِ عَاقِبَةُ الْاٴُمُورِ) ۔
اس حدیث میں جو تفسیر بر ہان میں اہل سنت کے طریقوں سے امام علی مُوسیٰ رضاعلیہالسلام کے ذریعہ پیغمبر اسلام سے نقل ہوئی ہے ، اس طرح آیا ہے:
”سیکون بعدی فتنة مظلمة، النّاجی منہا من تمسک بالعروةالوثقی فقیل یا رسول الله وما العروة الوثقیٰ؟ قال: ولایة سیّد الوصیین، قیل یا رسول الله ومن سید الوصیین؟ قال: اٴمیر الموٴمنین، قیل یا رسول الله ومن اٴمیر الموٴمنین؟ قال: مولی المسلمین وامامھم بعدی، قیل یا رسول الله ومن مولی المسلمین وامامھم بعدک؟ قال: اٴخی علی بن اٴبی طالب(ع) “
”میرے بعد تاریک اور ظلمانی فتنہ رونما ہو گا، صرف وہ لوگ اس سے نجات حاصل کریں گے۔ جو عروةالوثقیٰ اور مضبوط دستہ کوپکڑ لیںگے۔ عرض کیا گیا اے اللہ کے رسول !عروة الوثقیٰ کیاہے؟ فرمایا سیّد ادصیاء کی ولایت! لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! سیّد اوصیاء کون ہے ؟فرمایا مسلمانوں کامولیٰ اور میرے بعد ان کا امام پیشوا! پھر انھوں نے اس بناء پر کہ زیادہ صریح جواب حاصل کریں ، عرض کیا وہ کون ہے؟ فرمایا میرا بھائی علی بن ابی طالب (ع) “(۶)

او ر وایات بھی اس سلسلے میں کہ ”عروةالو ثقی “سے مراد اہل بیت علیہ السلام یا آلِ محمد صلی الله علیہ وآلہ وسلّم یا اولاد حسین علیہ السلام میں سے آئمہ کی دوستی ہے ، نقل ہوئی ہے ۔(۷)
ہم بار ہاکہہ چکے ہیں کے اس کی قسم کی تفسیریں اپنے واضح مصداق کا بیان ہوتی ہیں اور توحید وتقویٰ وغیرہ جیسے دوسرے مصادیق کی متضاد نہیں ہیں ۔
اس کے بعد دوسرے گروہ کی حالت بیان کرتے ہوئے کہتاہے ”جو شخص کا فر ہوجائے اور ان واضح حقائق کا انکار کرے، اس کا کُفرآپ کو غمگین نہ کردے“ (وَمَنْ کَفَرَ فَلَایَحْزُنْکَ کُفْرُہُ) ۔
کیونکہ آپ نے اپنی ذمہ داری کو اچھی طرح انجام دے دیا۔ اب وہ ہے کہ جوانپے اوپر ظلم وستم کرتاہے۔ اس قسم کی تعبیریں جو قرآن مجید میں بارہا آئی ہیں نشان دہی کرتی ہیں کہ پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلّم جو مشاہدہ کرتے تھے کہ ایک جاہل، ضدی، ہٹ دھرم اور اکھڑمزاج گروہ ان واضح وروشن دلائل اور نشانیوں کے باوجود خدا کی راہ کو ترک کرکے بے راہ روی اختیار کرتا ہے پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کو اس سے سخت رنج پہنچتا، اور وہ اس قدر غمگین ہوتے کہ بارہا خدا ان کی دل داری کرتا اور تسلّی دیتا۔ اور دل سوز رہبر کی یہی راہ ورسم تو ہوتی ہے۔
نیز (اے پیغمبر!) آپ اس سے بھی پرشان نہ ہوں کہ اگر ایک گروہ دُنیا میں باوجود یکہ کُفراختیار کرتا اور ظُلم ڈھاتا ہے، پھر بھی خدائی نعمتوں سے بہرہ ورہے اور سزا اور عذاب میں مبتلانھیں ، کیونکہ ابھی دیر نہیں ہوئی ۔
” ان سب کی بازگشت ہماری طرف ہے اور ہم انھیں ان کے اعمال اور ان کے تلخ اور منحوس نتائج سے آگاہ کریں گے:“ (إِلَیْنَا مَرْجِعُھُمْ فَنُنَبِّئُھُمْ بِمَا عَمِلُو)
ہم نہ صرف ان کے اعمال سے آگاہ ہیں بلکہ ان کی نیتوں اور دل کے اندرونی اسرار سے بھی باخبر ہیں۔ ”کیونکہ خدا اس سے جو سینوں کے اندر ہے آگاہ ہے: (إِنَّ اللهَ عَلِیمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ) ۔
یہ تعبیر کہ خدا لوگوں کو قیامت میں ان کے اعمال سے باخبر کرے گا یاجس میں وہ اختلاف کرتے تھے اس سے باخبر کرے گا، قرآن مجید کی بہت سی آیات میں نازل ہوا ہے اور اس طرف توجہ کرتے ہوُئے کہ ”ننبئکم“ ”نباٴ“ کے مادے سے ہے۔ مفردات راغب کی تصریحات کے مطابق ”نباٴ“ اس خبرکو کہتے ہیںجو اہم مضمون اور فائدہ کی حامل ہواور صریح وآشکارہو اور ہر قسم کے جھوٹ سے خالی ہو اس سے واضح ہوجاتاہے کہ یہ تعبیرات اس طرف اشارہ ہیں کہ خدا وندِ عالم قیامت میں انسانوں کے اعمال کو اس طرح فاش کرے گا کسی کے لیے بھی کسی قسم کے اعتراض وانکار کی گنجائش باقی نہیں رہے گی۔ لوگ جو کچھ اس دنیامیں انجام دیتے ہیں اور عالم طور پراسے فراموش کردیتے ہیں، سب کو بعینہ (ہوبہو) ظاہر کرے گا اور حساب وجزا کے لیے حاضر کرے گا۔

یہاں تک کہ جو کچھُ انسان کے دل میں گزرتا ہے اور خدا کے علاوہ کوئی شخص بھی اس سے آگاہ نہیں ہو تا وہ سب کچھ ان کے گوش گزارکرے گا۔
پھر مزید کہتا ہے کہ ان کا دنیاوی زندگی سے بہرہ ور ہونا آپ کو تعجب اورحیرت میں نہ ڈال دے۔ ”ہم تھوڑی سی متاع دُنیا ان کے اختیار میں دے دیتے ہیں۔ اور متاع دُنیا جتنا بھی زیادہ ہو، پھر بھی کم اور نا چیز ہے۔ پھر انھیں جبری طور پر عذابِ شدید کی طرف کھینچ کر لے جائیں گے۔ مسلسل اور دردناک عذاب کی طرف:“ (انُمَتِّعُھُمْ قَلِیلًا ثُمَّ نَضْطَرُّھُمْ إِلَی عَذَابٍ غَلِیظ)
ہوسکتا ہے کہ یہ تعبیر اس طرف اشارہ ہو کہ وہ یہ تصورنہ کریں کہ وہ اس جہان میں خدا کے قبضہٴ قدرت سے خارج ہیں۔ بلکہ وہ خودچاہتا ہے کہ انھیں آزمائش ، اتمام حجت اور دوسرے مقا صد کے لیے آزاد رکھے اور ان کی یہ متاعِ قلیل بھی اس کی طرف سے ہے اس گروہ کی حالت جو ذِلّت وجواری اور جبرواکراہ کے ساتھ خدا کے شدید اور سخت عذاب کی طرف کھینچا جائے گا، ان لوگوں کی حالت سے کتنی مختلف ہے، جن کا سارا وجود خدا کے اختیار میں ہے اور انہوں نے عروة الوثقیٰ کو پکڑرکھا ہے اور دنیا میں پاک وپاکیزہ اور نیکی کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ اور آخرت میں رحمتِ خدا کے جوار میں نعمتوں سے بہر ہور ہوں گے۔
۱۔ بعض مفسرین مثلاً ”آلوسی “”روح المبانی “اور ”فخر رازی “”تفسیر کبیر “میں زیر بحث آیات کو لقمان کی وصیتوں سے پہلے ذکر شدہ آیات سے مربوط جانتے ہیں جن میں مشرکین کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے ”یہ خدا کی مخلوق ہے تم نشاند ہی کرو کہ بتوں نے کیا کچھ بنایاہے “؟اور زیر بحث آیات میں کہتا ہے ”کیا تم نے دیکھا نہیں ہے کہ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے خدا نے تمھارے لیے مسخر کیا ہے “لیکن اس آیت کا ذیل اور اس کے بعد والی آیات اور روایات جو اس کی مفسرین میں وارد ہوئی ہیں ، وہ آیت کے مفہوم کی عمامیت کے ساتھ زیادہ سازگار ہیں ۔
2۔ انسان کے لیے تسخیر وجودات کے بارے میں تفسیر نمونہ کی جلد نمبر ۱۰سورہٴ رعد کی آیت ۲ کے ذیل میں بھی ہم نے بحث کی ہے ۔
3۔مجمع البیان زیرِ بحث آیت کے ذیل میں ۔
4۔مجمع البیان زیرِبحث آیت کے ذیل میں ۔
۵۔ مفسرین عام طور پر ”لو“ کو یہاں ”لوشرطیہ“‘ کے معنی لیتے ہیں جس کی جزاء محذوف ہے اور جملہ کی تقدیر یوں ہے: ”لوکان الشیطان یدعوھم الیٰ عذاب السعیر یتبعونہ“
۶۔تفسیر برہان جلد ۳ صفحہ ۲۷۹ ۔زیر بحث آیت کے ذیل ہیں ۔
۷۔ مزیدوضاحت کے لئے تفسیر برہان، ص۲۷۸ اور ۲۷۹ کی طرف رجوع فرمائیں۔
سوره لقمان / آیه 20 - 24سوره لقمان / آیه 25 - 30
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma