سورہٴ لقمان
مکہ میں نازل ہوئی
اس کی ۳۴ آیات ہیں
سورہٴ لقمان کے مضامین
مفسرین کے درمیان مشہور یہ ہے کہ یہ سورہ مکہ میں نازل ہوا بعض علماء مثلاً شیخ
طوسی نے تفسیر تبیان میں اس کی تھوڑی سی آیات مثلاً چوتھی آیت جو نماز اور زکات کے
بارے میں ہے یا فخر الدین رازی نے اس چوتھی آیت کے علاوہ ستائیسویں آیت کو بھی
مستثنیٰ کیا ہے، یہ آیت خداوندعالم کے وسیع علم کے بارے میں بحث کرتی ہے لیکن اس
قسم کے استثناء کی کوئی واضح دلیل نہیں ملتی ۔ کیونکہ نماز اور (اپنے کلی مفہوم کے
لحاظ سے) زکوة مکہ میں بھی موجود تھیں اور خداوند عالم کے وسعت علم کی حقیقت بھی
کوئی ایسی چیز نہیں جس سے یہ پتہ چلے کہ یہ آیت مدنی ہے
اسی بناء پر سورہ لقمان مکی ہونے کے لحاظ سے دوسری مکی سورتوں کے مضامین پر مشتمل
ہے اور اس میں بھی اسلام کے بنیادی عقائد مثلاً ”مبدء“و ”معاد“ اور ”نبوت“ کے سلسلہ
میں بحث کی گئی ہے۔
بطور کلی اس سورة کے مضامین پانچ حصّوں میں تقسیم کیے جاسکتے ہیں۔
پہلے حصّہ میں حروف مقطعات کے ذکر کے بعد عظمت قرآن اور خاص صفات کے حامل مومنین کے
لیے قرآن کا ہدایت اور رحمت ہونے کا اشارہ ملتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں ایسے لوگوں کے
بارے میں بھی گفتگو موجود ہے جو ان آیات کے بارے میں سختی اور ہٹ دھرمی سے کام لیتے
ہیں اور جنھیں قرآن نے بہروں سے تشبیہ دی ہے۔ اور ایسے لوگوں کی مذمت کی گئی ہے جو
اپنی غلط سرگرمیوں کی بدولت لوگوں کو قرآن سے منحرف کرتے رہتے ہیں۔
دوسرے حصّہ میں آسمانوں کی تخلیق اور انھیں بغیر کسی ستون کے برقرار رکھنے اور زمین
میں پہاڑ پیدا کرنے، مختلف جانور معرض وجود میں لانے، بارش نازل کرنے اور بناتات
وغیرہ اگانے کا تذکرہ ہے۔
تیسرے حصّہ میں خلاق عالم کی صفات اور قدرت کی مناسبت سے حضرت لقمان کے کچھ حکمت
آمیز ارشادات کو بیان کیا گیا ہے۔ یہ نصیحتیں اس مرد خدا نے اپنے فرزند سے کیں۔
چنانچہ ان نصائح میں توحید کے تذکرے اور شرک کے ساتھ محاذ آرائی کی منزل سے لے کر
ماں با کے ساتھ نیکی کرنے، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ بجالانے، سخت
قسم کے حوادث کے مقابلہ میں صبر و شکیبائی کا مظاہرہ کرنے، لوگوں کے ساتھ خندہ
پیشانی سے پیش آنے، تواضع اور فروتنی اختیار کرنے اور تمام امور میں اعتدال پیدا
کرنے کا حکم موجود ہے۔
چوتھے حصّہ میں ایک بار پھر توحید کے دلائل پیش کئے گئے اور آسمان و زمین کی تسخیر
اور خداوند عالم کی وافر نعمتوں کا تذکرہ ہے۔ اس میں ایسے بت پرستوں کی منطق کی
مذّمت کی گئی ہے جو صرف اپنے بڑوں کی تقلید میں گمراہی کی وادی میں سرگردان ہیں اور
انہی سے خداوند عالم کے خلاقیت کا اقرار لینے کا ذکر ہے جو عبودیت کی بنیاد اور
اساس ہے۔
نیز اس سلسلے میں قرآن اسی حصّہ میں خداوند عالم کے وسیع اور غیر متناہی علم سے ایک
واضح مثال کے ذریعہ پردہ اٹھاتاہے اور اسی سلسلے میں کائنات کی آفاتی نشانیوں کے
علاوہ توحید فطری کا بھی ذکر موجود ہے جس کی تجلی انسان کے امواج بلا میں گرفتار
ہونے کے وقت ہوتی ہے اور اس بارے میں یہاں نہایت عمدہ پیرائے میں بحث کی گئی ہے۔
پانچویں حصّہ میں معاد اور موت کے بعد زندگی کی طرف مختصر لیکن دل ہلادینے والا
اشارہ موجود ہے جو خبردار کررہا ہے اس دنیاوی زندگی پر مغرور نہیں ہونا چاہیے، بلکہ
آخرت کی سرائے جاودانی کی فکر میں رہنا چاہیے۔
یہاں پرپروردگار عالم کے علم غیب کے اس حصّے کو بیان کیا گیا ہے جو انسان کے جملہ
امور سے متعلق ہے۔ ان امور میں سے انسان کی موت کا لمحہ ہے اور وہ بچہ بھی جو ابھی
شکم مادر میں ہے۔ خدا ان سب کیفیات سے باخبر ہے۔ اسی مطلب پر یہ سورہ پایہٴ تکمیل
کو پہنچ جاتا ہے۔
یہ بات بھی یاد رہے کہ اس کو سورہ ”لقمان“سے موسوم کرنے کی وجہ وہی اہم اور پر مغز
گفتگو ہے جو حضرت لقمان کی نصیحتوں پر مشتمل ہے اور یہ واحد سورہ ہے جس میں اس مرد
دانا کے بارے میں گفتگو ہوئی ہے۔
سورہٴ لقمان کی فضیلت:
۱۔ مجمع البیان، ج۸ ص۳۱۲. ۲۔ نور الثقلین، ج۴، ص۱۹۳.