ہم تجھے ہر اچھے کام کے لئے آمادہ کریں گے

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونه جلد 27
خدا وند ِ عظیم کی تسبیح کر وہ دستور العمل جو تمام آسمانی کتب میں آیاہے

گزشتہ آیتوں میں پروردگار کی ربوبیت اور توحید کے بارے میںگفتگو تھی ۔ اس کے بعد زیر بحث آیات میں قرآن اور پیغمبر کی نبوت کی بات ہورہی ہے ۔
گزشتہ آیات میں عام موجودا ت کی ہدایت متعلق گفتگو تھی اور زیربحث آیات میں نوع انسانی کی ہدایت کی بات ہے ۔ خلاصہ یہ کہ گزشتہ آیات میں پروردگار علی و اعلیٰ کی تسبیح کا ذکر آیا تھا اور ان آیات میں اس قرآن کی بات ہے جو اس تسبیح کو بیان کرتاہے ۔
فرماتاہے : ” ہم عنقریب تیرے لئے قراٴت کریں گے اور تو کبھی نہیں بھولے گا۔“( سنقرئک فلا تنسیٰ) اس بناپر نزول وحی کے وقت عجلت سے کام نہ لے اور آیات الہٰی کے بھول جانے کے بارے میں کبھی پریشان نہ ہو ۔ وہ ذات جس نے یہ عظیم آیات انسانوں کی ہدایت کے لئے تجھ پر نازل کی ہیں ، وہ ان کا محافظ و نگہبان بھی ہے ۔
وہ ان آیات کا نقش تیرے مبارک سینے میں اس طرح ثبت کرے گا کہ نسیان کا گرد و غبار اسے کبھی مکدر نہیں کرے گا۔
یہ اس مفہوم کی نظیر ہے جو سورہ طٰہٰ کی آیت ۱۱۴ میں آیا ہے ( ولا تعجل بالقرآن من قبل ان یقضیٰ الیک وجیہ و قل رب زدنی علماً) قرآن پڑھنے کے سلسلہ میں اس سے پہلے کہ اس کی وحی تجھ پر تمام ہو ، جلدی نہ کر اور کہہ پر وردگار میرے علم میں اضافہ فرما“۔
پھر سورہ قیامت کی آیت ۱۶۔ ۱۷۔ میں ہم پڑھتے ہیں :( لاتحرک بہ لسانک لتعجل بہ ان علینا جمعہ و قراٰنہ ) ” اپنی زبان کو قرآن کے ساتھ حرکت نہ دے اس سے پہلے کہ وحی تجھ پر تمام ہو، یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس کو جمع کریں اور تیرے سامنے پڑھیں۔“
اس کے بعد خدا کی قدرت کو ثابت کرنے اور یہ جو کچھ خیر و بر کت ہے وہ اسی کی طرف ہے ،مزید کہتاہے : ” تو آیات ِ الٰہی میں سے کسی چیز کو نہیں بھولے گا، مگر وہ جسے خدا چاہے۔ اس لئے کہ وہ آشکار و پنہاں کو جاننے والاہے “۔ ( الاَّ ما شاء اللہ انہ یعلم الجھر ومایخفیٰ
اس تعبیر کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ پیغمبر آیات الہٰی میں سے کسی چیز کو بھول جائیں گے ، یا ان کی گفتگو سے اطمینان قلب ہوجائے گا۔
مقصود کلام یہ ہے کہ آیات الہٰی کو یادر کھنے کی نعمت خدا کی طرف سے ہے ، لہٰذا جس وقت وہ چاہے اسے پیغمبر سے چھین سکتا ہے ، یا دوسرے لفظوں میں ہدف و مقصد خدا کے علم ذاتی اور اس کے پیغمبر کے علم وہبی کے درمیان جو فرق ہے اس کو بیان کرنا ہے۔
یہ آیت حقیقت میں اس چیز کے مشابہ ہے جو سورہ ہود کی آیت ۱۰۸ میں اہل بہشت کے جنت میں ہمیشہ رہنے کے بارے میں آئی ہے (و اما الذین سعدوا ففی الجنة خالدین فیھا مادامت السماوات و الارض الاَّ ما شاء ربک عطاء غیر مجذوذ)
سعادتمند ہمیشہ جنت میں رہیں گے ، جب تک کہ آسمان و زمین قائم ہیں وہ جو تیرا پروردگار چاہے ،یہ عطا ہے جو کبھی منقطع نہیں ہو گی“۔
یہ طے شدہ بات ہے کہ اہل جنت ہمیشہ جنت میں رہیں گے اور آیت کا آخری حصہ گواہ ہے :( الاَّ ما شاء ربک) کا جملہ خداکے ارادے اورحاکمیت کی طرف اشارہ ہے اور اس طرف اشارہ ہے کہ ہر چیز اس کی مشیت سے ربط رکھتی ہے ، اپنی ابتدا و خلقت میں بھی اور بقاء و استمرار میں بھی ۔
من جملہ ان امور کے جو اس موضوع کے گواہ ہیں ، یہ ہے کہ خدا اپنے پیغمبر کے لئے ایک نعمت کے طور پر بیان کرے ۔ لہٰذا مراد تمام آیاتِ قرآن اور احکام و معارف اسلام کا حفظ اور یاد رکھنا ہے ۔
بعض مفسرین نے یہ بھی کہا ہے کہ اس اثناء سے مراد وہ آیتیں ہیں جنکے معنی اور تلاوت دونوں منسوخ ہو گئے ہیں ، لیکن یہ تفسیر بہت بعید نظر آتی ہے اصولی طور پر اس قسم کی آیات کا وجود ہی ثابت نہیں ہے ۔
بعض مفسرین نے یہ احتمال بھی پیش کیا ہے کہ استثناء قراٴت سے متعلق ہے ۔ اس لئے کہ آیت کا مفہوم یہ ہے کہ ہم عنقریب تیرے لئے قراٴت کریں گے اور اپنی آیات کو بیان کریں گے، مگر وہ آیات کے سیاق کی طرف توجہ کرتے ہوئے بعید نظر آتی ہے ( انہ یعلم الجھر و ما یخفیٰ) کا جملہ حقیقت میں ا س مفہوم کی علت کا بیان ہے جو سنقرئک کے جملہ میں آیاہے ، جو اس طرف اشارہ ہے کہ وہ خدا جو تمام آشکار و پنہاں حقائق سے باخبر ہے، وہ تجھ پر نوعِ بشر کی احتیاجات میں سے باقی رہ جانے والی چیزیں وحی کے ذریعہ القا کرتا ہے اور اس سلسلہ میں کسی چیز کو نظر انداز نہیں کرے گا۔
یہ احتمال بھی ہے کہ مراد یہ ہوکہ پیغمبر وحی کے حصول میں عجلت نہ کریں اور بھول چوک کا خوف نہ رکھیں ، اسلئے کہ وہ خدا ، جو آشکار و پنہاں حقائق کاعلم ہے ، اس نے وعدہ کیا ہے کہ پیغمبر کو نسیان نہیں ہوگا ۔
بہر حال یہ پیغمبر ِ اسلام کا ایک معجزہ ہے کہ طولانی آیات کو جبرائیل کے ایک ہی مرتبہ تلاوت کرنے سے یاد کرلیتے ، ہمیشہ یاد رکھتے اور کوئی بات بھی نہیں بھولتے تھے۔
اس کے بعد پیغمبر کی دلداری کرتے ہوئے مزید کہتا ہے :”ہم تجھے ہر اچھے کام کے انجام دینے کی تو فیق دیںگے “۔ ( ونیسرک للیسریٰ) ۱
دوسرے لفظوں میں مقصودِ کلام یہ ہے کہ ا س راستہ میں جو تجھے در پیش ہے ، بہت سی سختیاں اور مشکلات ہیں ، وحی کے اخذ کرنے اور اسے یاد رکھنے کی راہ میں بھی ، تبلیغ رسالت میں بھی اور اچھے کام انجام دینے میں بھی ، ہم ان تمام امور میں ( وحی کے حصول ، اس کی تبلیغ ، نشر و اشاعت، تعلیم دینے اور اس پر عمل کرنے میں ) تیری مدد کریں گے اور مشکلات کو تجھ پر آسان کردیں گے
یہ جملہ ، ہو سکتا ہے کہ دعوت فکر ِ پیغمبر کے نفس مضمون ، پیغمبر کی ذمہ داریوں اور خدا کی طرف سے بھیجے ہوئے لائحہ عمل کی طرف بھی اشارہ ہو ، یعنی اس کا مفہوم و مضمون آسان ہے ، اس کی شریعت شریعت سہلہ ہے اور اس کی خدائی دین میں حوصلہ شکن تکلیفیں اور ذمہ داریاں نہیں ہیں۔
اس بناپر مندرجہ بالا آیات کا ایک بہت ہی وسیع مفہوم ہے ۔ اگر چہ بہت سے مفسرین نے اسے ایک ہی جہت میں محدود کردیا ہے ، اور واقعی کار خدا کی مدد ، توفیق اور نصرت نہ ہوتی تو ان مشکلات پر پیغمبر کاقابو پانا ممکن نہیں تھا ، خود پیغمبر اسلام کی زندگی بھی اس حقیقت کی تعلیم کا ایک نمونہ تھی ، آپ کسی چیز میں بھی ، قطع نظر اس سے کہ لباس ، خوراک، سواری یا زندگی کے دوسرے وسائل میں سخت گیر نہیں تھے ۔ ہر مناسب غذا کھالیتے ، ہر قسم کا لباس باعثِ عیب و نقص نہ ہوتا ، زیب تن فرمالیتے ، کبھی بستر پر آرام کرتے ، کبھی عام فرش پر ، حتیٰ کبھی بیابان کے ریت پر ، نیز آپ ہر قسم کے تعلق اور تقید سے آزاد تھے ۔
پیغمبر اسلام پر وحی آسمانی کی موہبت و نعمت اور آپ کے لئے توفیق اور تسہیل امور کے وعدے کے بیان کرنے کے بعد آپ کی اہم ترین ذمہ داری کو بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے : ” پس تذکرمفید ہو “ ( فذکر انفعت الذکریٰ ) بعض مفسرین نے کہا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ تذکربہر حال مفید ہے ، وہ افراد جو اس سے کسی طرح بھی مستفید نہ ہوں ، وہ بہت کم ہیں ، علاوہ ازیں اور کچھ نہیں کم از کم منکرین پر اتمام حجت کا سبب تو ہے ، جو بجائے خود ایک بہت بڑی منفعت ہے ۔ 2
جبکہ بعض کا نظریہ ہے کہ آیت میں کچھ محذوف ہے اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ تذکرکردار اور یاد دہانی کراچاہے مفید ہو یا نہ و( فذکر ان نفعت الذکرٰ اولم تنفع) یہ حقیقت میں اس چیز کے مشابہ ہے جو سورہ نحل کی آیت ۸۱ میں آئی ہے ( و جعل لکم سرابیل تقیکم الحر) خدا نے تمہارے لئے پیراہن قرار دیئے ہیں ، جو تمہیں گرمی ( سردی ) سے محفوظ رکھتے ہیں ۔
اس آیت میں صرف گرمی کا ذکر ہو اہے اوردوسری قرینہِ تقابل سے معلوم ہوتی ہے لیکن بعض مفسرین کا اصرار ہے کہ جملہ شرطیہ یہاں مفہوم رکھتا ہے اور مراد یہ ہے کہ وہاں تذکر کرجہاں مفید ہو او رجہاں کوئی فائدہ نہ ہو تو پھر اس کی کوئی ضرورت نہیں ۔
یہ احتمال بھی پیش کیا گیا ہے کہ” ان “ یہاں شرطیہ نہ ہو بلکہ ”قد“ کے معنی میں تاکید و تحقیق کے لئے ہو اور جملہ کا مفہوم یہ ہو کہ تذکر مفید و فائدہ بخش ہے ۔ ان چاروں تفسیروں میں سب سے زیاد ہ مناسب پہلی تفسیر ہے ۔
پیغمبر اسلام کا لائحہ عمل بھی اس پر گواہ ہے کہ وہ اپنی تبلیغات و تذکرات کے لئے کسی قسم کی قید و شرط کے قائل نہیں تھے ، سب کو وعظ و نصیحت کرتے اور خوفِ خدا دلاتے تھے ۔
بعد والی آیت میں تذکر، وعظ اور انذار کے مقابلہ میں لوگوں کے رد عمل کو پیش کرتا ہے اور انہیں دو گروہوں میں تقسیم کرتے ہوئے فرماتا ہے :  عنقریب و ہ لوگ جو خد اسے ڈرتے ہیں اور مسئولیت و ذمہ داری کا احساس کرتے ہیں ، متذکر ہوں گے “ ( سیذکر من یخشیٰ
جی ہاں جب روح میں خوف خدا اور خشیت الہٰی نہ ہو ، یا دوسرے لفظوں میں حق طلبی اور حق جوئی کی روح انسان میں نہ ہو ، جو تقویٰ کاایک مرتبہ مواعظ الٰہیہ اور تذکراتِ انبییاء فائدہ نہیں پہنچاتے۔ اسی لئے سورہ بقرہ کے آغاز میں پروردگار قرآن کو پرہیز گاروں کے لئے سبب ہدایت شمار کرتے ہوئے فرماتا ہے : ( ھدیً للمتقین ) ایک بعد والی آیت میں ایک دوسرے گروہ کو پیش کرتے ہوئے مزید ارشادہوتا ہے :” لیکن زیادہ بد بخت افراد اس سے دوری کرتے ہیں“( ویتجنبھا الاشقی3
بعض روایا ت میں آیا ہے کہ ابن عباس کہتے ہیں کہ آیت ( سیذکر من یخشیٰ) عبد اللہ ابن مکتوم ،۔پاک دل و حق طلب نابینا کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ (یتجنبھا الاشقیٰ)ولید بن مغیرہ اور عتبہ بن ربیعہ کے بارے میں ہے کہ کفار ومشرکین کے سر غنہ تھے ۔ 4
بعض مفسرین نے کہا ہے کہ اشقیٰ سے مراد یہاں معاندین اور دشمنان حق ہیں ، اس لئے کہ لوگو ں کے تین گروہ ہیں : ایک عارف و آگاہ گروہ ، دوسرا، متوقف اور شک کرنے والاگروہ اور تیسرا گروہ دشمنی کرنے والا گروہ ۔ فطری و طبعی امر ہے کہ پہلا اور دوسرا گروہ تو فہمائش سے فائدہ اٹھا تے ہیں ۔ صرف تیسرا گروہ ہے جو مشیت سے فائدہ نہیں اٹھا تا ۔ ان کے بارے میں فہمائش کی تاثیر صرف وہی اتمام حجت ہے جس ذکر کیا گیا ۔
اس آیت سے ضمنی طور پرمعلوم ہوتاہے کہ پیغمبر اسلام تیسرے گروہ کو بھی اپنی فہمائش سے مستفید فرماتے تھے ، لیکن وہ لوگ دوری اختیار کرتے اور روگرداں ہوتے تھے ۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ ان دونوں آیتوں میں شقاوت و خشیت کا نقطہٴ مقابل قرار دیا گیا ہے جبکہ قاعدةً اسے سعادت کے مقابلہ میں قرار پانا چاہئیے تھا یہ اس بناپر ہے کہ انسان کی سعادت اور خوش بختی کا اصل سبب مسئولیت و ذمہ داری کا احساس اور خشیت ہی ہے ۔
بعد والی آیت میں آخری گروہ کی سر نوشت اس طرح بیان فرماتاہے :” وہ شقی جو دوزخ کی عظیم آگ میں داخل ہو گا اور وہاں قرار پائے گا“( الذی یصلی النار الکبریٰ ) پھر اس آگ میں ہمیشہ رہے گا ، نہ مرے گا اور نہ زندہ رہے گا ۔ ( ثم لایموت فیھا ولا یحییٰ) یعنی نہ تو مرےگا تاکہ آسودہ ہو اور نہ اس حالت کو جس میں وہ زندگی کا نام دیا جا سکتا ہے ۔ ۔ وہ ہمیشہ زندگی اور موت کے درمیان ہاتھ پاوٴں مارتا رہے گا ، جو کیفیت ایسے افراد کے لئے بد ترین بلا و مصیبت ہے ۔
( النارالکبریٰ ) سے کیا مراد ہے ؟ ایک جماعت کا کہنا ہے کہ جہنم کا سب سے نچلا طبقہ اسفل السافلین ہے ۔ ایسا کیوں نہ ہوکہ وہ شقی ترین اور معاند ترین لوگ ہیں ۔ لہٰذا ان پر نازل ہونے والا عذاب بھی سخت ترین اور ہولناک ترین ہونا چاہئیے ، لیکن بعض مفسرین نے کہا ہے کہ اس آگ کی لفظ کبریٰ کے ساتھ توصیف آتشِ صغریٰ کے مقابلہ میں ہے ، یعنی اس دنیا کی آگ کے مقابلہ میں، جیسا کہ ایک حدیث میں آیاہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:
( ان نارکم ھٰذہ جزء من سبعین جزء من نارجھنم و قد اطفئت سبعین مرة بالماء ثم التھبت ولولا ذالک ما استطاع ادمی ان یطیقھا )۔ ” یہ تمہاری آگ جہنم کی آگ کی ستر اجزاء میں سے ایک ہے ۔ وہ پانی سے ستر مرتبہ دھوئی گئی پھر بھی وہ بھڑک اٹھی ۔ اگر ایسانہ ہو تا تو پھر کوئی آدمی اس کے تحمل کی طاقت نہ رکھتا اور ا سکے قریب نہ ٹھہر سکتا ۔ 5
مشہور دعا ئے کمیل جو امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام ہے اس میں دنیا کی آگ اور آخرت کی آگ کے موازنہ میں ہم پڑھتے ہیں ( علیٰ ان ذالک بلاء و مکروہ مکثہ یسیر بقائہ قصیر مدتہ) یہ ایسی بل ااو رمکروہ و ناپسندیدہ چیز ہے جس میںتوقف کم ہے ، اس کی بقا مختصر ہے اور اس کی مدت تھوڑی ہے ۔
۱۴۔ قد افلح من تزکیٰ ۔
۱۵۔ و ذکراسم ربہ فصلیٰ۔
۱۶۔ بل توٴثرون الحیٰوةَ الدنیا ۔
۱۷۔ و الآخرةُ خیر وَّ ابقیٰ ۔
۱۸۔ انّ ھٰذا لفی الصحفِ الاولیٰ ۔
۱۹۔صحف ابراہیم و موسیٰ ۔
ترجمہ
۱۴۔ یقینا وہ رستگار ہوگا جو تزکیہ کرے ۔
۱۵۔ اور اپنے پر وردگار کے نام کا ذکر کرے اور نماز پڑھے ۔
۱۶۔ بلکہ تم دنیا کی زندگی کو مقدم سمجھتے ہو۔
۱۷۔ جب کہ آخرت زیادہ پائیدار اور بہتر ہے ۔
۱۸۔ یہ احکام پہلی آسمانی کتب میں آچکے ہیں ۔
۱۹۔ کتاب ابراہیم و موسیٰ میں ۔


 

۱۔ بعض نے کہا ہے کہ واقعی آیت کا مفہوم ونیسرک الیسریٰ لک تھا ، اور تاکید کے عنوان سے تقدیم و تاخیر ہوئی ہے اور نیسرک للیسریٰ ہو گیا ہے ۔ البتہ یہ اس صورت میں ہے کہ نیسرک نوفقک کے معنی میں نہ ہو ورنہ تقدیم و تاخیر کی ضرورت نہیں ہے ۔
2۔ اور یہ جو قرآن کہتاہے ”سواء علیہم ء انذرتھم ام لم تنذر ھم لا یوٴمنون “ان کے لئے برابر ہے چاہے تو انہیں ڈرائے یا نہ ڈرائے ۔وہ ایمان نہیں لائیں گے۔(بقرہ۔ ۶) یہ لوگوں کی صرف ایک اقلیت کے لئے ، ورنہ اکثریت بہر حال اچھی باتوں کا اثر لیتی ہے ، البتہ بعض لوگ بہت زیادہ اور اس کے بر عکس بعض لوگ بہت کم اثر لیتے ہیں ۔ لیکن بہر حال سنجیدہ باتیں عام طور پر اثر کرتی ہیں ۔ اس وجہ سے یہاں جملہ شرطیہ قید غالب کی قبیل سے ہے جو اثر نہیں رکھتی ۔
3۔ یتجنبھا کی ضمیر ذکریٰ کی طرف لوٹتی ہے جو گزشتہ آیات میں آیا ہے ۔( غور کیجئے)
4۔تفسیر قرطبی ، جلد ۱۰، ص ۷۱۱۰ دوسرا حصہ تفسیر کشاف و روح المعانی زیر بحث آیات کے ذیل میں ۔
5۔ بحار الانوار ، جلد ۸، ص ۲۸۸، حدیث ۲۱۔

خدا وند ِ عظیم کی تسبیح کر وہ دستور العمل جو تمام آسمانی کتب میں آیاہے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma