تکاثر و تفاخر کی مصیبت

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونه جلد 27
اس سورہ کی فضیلت۱۔ تفاخرکا سر چشمہ

ان آیات میں پہلے ملامت بھرے لہجہ میں فرماتا ہے : ” تفاخر اور ایک دوسرے پر کثرت رکھنے کے خیال نے تمہیں خدا اور قیامت سے غافل کرکے اپنی طرف مشغول کردیا ہے “۔ ( الھاکم التکاثر
” یہاں تک کہ تم قبروں کی زیارت اور دیدار کے لیے بھی گئے اور تم نے اپنے مردوں کی قبروں کو شمار کیا“ ( حتی زرتم المقابر
آیت کی تفسیر میں یہ بھی احتمال دیا گیا ہے کہ ” تکاثر“ اور تفاخر نے انہیں اس طرح سے اپنی طرف مشغول کرلیا ہے کہ وہ قبروں میں وارد ہونے کے لمحہ تک جاری و ساری ہے ۔
لیکن پہلا معنی ” زرتم المقابر“کی تعبیر ، اور اسی طرح شانِ نزول اور نہج البلاغہ کے خطبہ کے ساتھ ، جس کی طرف انشاء اللہ بعدمیں اشارہ ہوگا ، زیادہ ساز گار ہے ۔
الھاکم “ ” لھو“ کے مادہ سے ، چھوٹے چھوٹے کاموں میں مشغول ہوجانا، اور کاموں سے غافل رہنے کے معنی میں ہے ۔ ”راغب“ ” مفردات“ میں کہتا ہے ” لھو“ اس چیز کو کہتے ہیں جو انسان کو اپنی طرف مشغول رکھتے ہوئے اس کے اہداف و مقاصد سے باز رکھتی ہے ۔
تکاثر کثرت“ کے مادہ سے ، تفاخراور مباہات اور ایک دوسرے پر اپنی بڑائی جتلانے کے معنی میں ہے ۔۱
” زرتم“ ” زیارة“ اور ” زور“ ( بر وزن قول ) کے مادہ سے اصل میں سینہ کے اوپر والے حصہ کے معنی میں ہے اس کے بعد ملاقات کرنے اور روبرو ہونے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ۔ اور ” زور“ ( بر وزن قمر) سینہ کے اوپر والے حصہ کے ٹیڑھا ہوجانے کے معنی میں ہے ۔ اور چونکہ جھوٹ ایک قسم کا حق سے انحراف ہے ، اس لیے اس پر ” زور“ ( بر وزن نور) کا اطلاق ہوتا ہے ۔
” مقابر“ ” مقبرة“ کی جمع ہے جو میت کی قبر کی جگہ کے معنی میں ہے اور یہاں قبروں کی زیارت کرنا یاتو ( بعض تفاسیر کے مطابق) موت سے کنایہ ہے یا شمارکرنے اور فخر و مباہات کرنے کے لیے قبروں کے پاس جانے کے معنی میں ہے (جو اس کی مشہور تفسیر کے مطابق ہے )۔
اور جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے دوسرا معنی زیادہ صحیح نظر آتاہے اور ا س کے شواہدمیں سے ایک امیر المومنین علی علیہ السلام کا وہ کلام ہے جو اس سلسلہ میں نہج البلاغہ میں آیا ہے ، جو آپ نے ” الھاکم التکاثر حتیٰ زرتم المقابر“ کے بعد فرمایاہے :
یا لہ مراماً ماابعدہ؟ وزراً ما اغفلہ؟ و خطراً ما افظعہ ؟ لقد استخلوا ،منھم ای مدّ وتنا و شوھم من مکان بعید افبمصارع اٰبائھم یفخرون؟ تکاثر و تفاخر کی مصیبت
ان آیات میں پہلے ملامت بھرے لہجہ میں فرماتا ہے : ” تفاخر اور ایک دوسرے پر کثرت رکھنے کے خیال نے تمہیں خدا اور قیامت سے غافل کرکے اپنی طرف مشغول کردیا ہے “۔ ( الھاکم التکاثر
” یہاں تک کہ تم قبروں کی زیارت اور دیدار کے لیے بھی گئے اور تم نے اپنے مردوں کی قبروں کو شمار کیا“ ( حتی زرتم المقابر
آیت کی تفسیر میں یہ بھی احتمال دیا گیا ہے کہ ” تکاثر“ اور تفاخر نے انہیں اس طرح سے اپنی طرف مشغول کرلیا ہے کہ وہ قبروں میں وارد ہونے کے لمحہ تک جاری و ساری ہے ۔
لیکن پہلا معنی ” زرتم المقابر“کی تعبیر ، اور اسی طرح شانِ نزول اور نہج البلاغہ کے خطبہ کے ساتھ ، جس کی طرف انشاء اللہ بعدمیں اشارہ ہوگا ، زیادہ ساز گار ہے ۔
الھاکم “ ” لھو“ کے مادہ سے ، چھوٹے چھوٹے کاموں میں مشغول ہوجانا، اور کاموں سے غافل رہنے کے معنی میں ہے ۔ ”راغب“ ” مفردات“ میں کہتا ہے ” لھو“ اس چیز کو کہتے ہیں جو انسان کو اپنی طرف مشغول رکھتے ہوئے اس کے اہداف و مقاصد سے باز رکھتی ہے ۔
”تکاثر“ کثرت“ کے مادہ سے ، تفاخراور مباہات اور ایک دوسرے پر اپنی بڑائی جتلانے کے معنی میں ہے ۔2
” زرتم“ ” زیارة“ اور ” زور“ ( بر وزن قول ) کے مادہ سے اصل میں سینہ کے اوپر والے حصہ کے معنی میں ہے اس کے بعد ملاقات کرنے اور روبرو ہونے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ۔ اور ” زور“ ( بر وزن قمر) سینہ کے اوپر والے حصہ کے ٹیڑھا ہوجانے کے معنی میں ہے ۔ اور چونکہ جھوٹ ایک قسم کا حق سے انحراف ہے ، اس لیے اس پر ” زور“ ( بر وزن نور) کا اطلاق ہوتا ہے ۔
” مقابر“ ” مقبرة“ کی جمع ہے جو میت کی قبر کی جگہ کے معنی میں ہے اور یہاں قبروں کی زیارت کرنا یاتو ( بعض تفاسیر کے مطابق) موت سے کنایہ ہے یا شمارکرنے اور فخر و مباہات کرنے کے لیے قبروں کے پاس جانے کے معنی میں ہے (جو اس کی مشہور تفسیر کے مطابق ہے )۔
اور جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے دوسرا معنی زیادہ صحیح نظر آتاہے اور ا س کے شواہدمیں سے ایک امیر المومنین علی علیہ السلام کا وہ کلام ہے جو اس سلسلہ میں نہج البلاغہ میں آیا ہے ، جو آپ نے ” الھاکم التکاثر حتیٰ زرتم المقابر“ کے بعد فرمایاہے :
یا لہ مراماً ماابعدہ؟ وزراً ما اغفلہ؟ و خطراً ما افظعہ ؟ لقد استخلوا ،منھم ای مدّ وتنا و شوھم من مکان بعید افبمصارع اٰبائھم یفخرون؟ ام بعد ید الھلکی یتکاثرون؟ یر تجعون منھم اجساداً خوت، و حرکات سکنت، ولایکونوعبراً احق من ان یکونوا مفتخراً !“:
” تعجب ہے وہ مقصد سے کتنے زیادہ دور ہیں اور کیسے غافل زیارت کر نے والے ہیں ؟ اور کیسا موہوم اور رسوا کرنے والا افتخار ہے ؟ ایسے افراد کی بوسیدہ ہڈیوں کی یاد میں بڑے ہوئے ہیں کو سالہا سال سے مٹی ہوچکے ہیں اور وہ یاد بھی کیسی؟ اتنے دور دراز کے فاصلہ پر ایسے لوگوں کی یاد میں پڑے ہیں جو ان کی حالت کو کوئی فائدہ نہیں پہنچاتی۔ کیا وہ اپنے آباو اجداد کی نابودی کی جگہ پر فخر کرتے ہیں یا اپنے مردوں او رمعدود مین کی تعدا کو شمار کرکے خو د کو بہت زیادہ سمجھتے ہیں وہ ایسے جسموں کی باز گشت کے خواہاں ہیں جن کا تارد پودر بکھر چکا ہے اور جن کی حرکتیں ختم ہو چکی ہیں ، یہ بوسیدہ جسم اگر عبرت کا باعث ہوں تو وہ اس سے زیادہ سزاوار ہیں کہ جب موجبِ افتخار ہوں “3
یہ خطبہ جس کے صرف ایک حصہ کی طرف ہم نے اشارہ کیا ہے اس قدر ہلادینے والا گویا و صریح ہے کہ ” ابن ابی الحدید معتزلی“ کہتا ہے کہ : میں اس ذات کی قسم کھا تا ہوں جس کی تمام امتیں قسم کھاتی ہیں کہ میں نے پچھلے پچاس سال سے لے کر آج تک اس خطبہ کو ایک ہزار بار پڑھا ہے ، اور ہر بار میرے دل میں ایک نیا لرزہ و خوف اور ایک نئی پند و نصیحت پیدا ہوئی ہے ، اور اس نے میری روح کے اندر ایک شدید اثر چھوڑاہے او رمیرے اعضاء و جوارح لرزنے لگے اور کبھی ایسا نہیں ہوا ، کہ میں اس میں غور و فکر کروں اور اس حال میں اپنے خاندان ، عزیزو ں اور دوستوں کی موت کو یاد نہ کروں، اور ٹھیک میرے سامنے یہ بات مجسم ہو جاتی تھی کہ میں وحی ہوں جس کی امام نے وضاحت کی ہے ۔
اس سلسلے میں کتنے ہی واعظوں ، خطباء، سخن وروں اور فصیح افراد نے گفتگو کی ہے، اور میں نے انہیں کان لگا کر سنا ہے اور ان کی باتوں میں غور و فکر کیا ہے ، کسیی ایک میں بھی میں نے کلامِ امام  والی تاثیر نہیں پائی ۔
یہ تاثیر جو ان کا کلام میرے دل میں چھوڑتا ہے ، یا تو اس کا سر چشمہ اس کا وہ ایمان ہے جو اس کاکہنے والارکھتاہے ، یا اس کے یقین و اخلاص والی نیت اس بات کا سبب بن گئی ہے کہ وہ اس طرح ارواح میں نفوذ کرے اور دلوں میں جاگزیں ہو جائے۔ 4
” ابن ابی الحدید“ اپنی گفتگو کے ایک اور حصہ میں کہتا ہے :
ینبغی لو اجتمع فصحاء العرب قاطبةفی مجلس و تلی علیہم یسجدوا لہ ! “:
” یہ خطبہ اس لائق ہے کہ ، اگر فصحائے عرب سب کے سب کسی مجلس میں جمع ہوں اور یہ خطبہ ان کے سامنے پڑھا جائے، تو وہ اس کے سامنے سجدہ کریں “۔
اور اسی مقام پر امیر المومنین علی علیہ السلام کی فصاحت کے بارے میں معاویہ کی گفتگو کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ وہ کہتا ہے:
و اللہ ما سنّ الفصاحة لقریش غیرہ
” خدا کی قسم قریش کے لیے علی  کے سوا کسی نے فصاحت و بلاغت کی بنیاد نہیں رکھی۔
بعد والی آیت میں ان لوگوں کو اس بات کے ساتھ سختی سے تہدید کرتے ہوئے فرماتا ہے :” ایسا نہیں ہے جیسا کہ تم گمان کرتے ہو، اور تم اس کے ذیعے ایک دوسرے پر فخر و مباہات کرتے ہو۔ تم عنقریب اس موہوم تفاخر کا نتیجہ دیکھ لوگے“۔ ( کلّا سوف تعلمون )۔
پھر دوبارہ مزید تاکید کے لیے کہتاہے :” پھربھی اس طرح نہیں ہے جس طرح تم خیال کرتے ہو۔ عنقریب تم جا ن لو گے“۔ ( ثم کلّا سوف تعلمون
مفسرین کی ایک جماعت نے ان دونوں آیتوں کو ایک ہی مطلب کی تکرار اور تاکید سمجھا ہے اور یہ دونوں ہی سر بستہ طور پر ان عذابوں کی خبر دیتی ہےں جو ان متفاخر مستکبرین کے انتظار میں ہے ۔
جب کہ بعض دوسروں نے پہلی آیت کو عذاب قبر اور عذاب برزخ کی طرف اشارہ سمجھا ہے ، جس سے انسان کی موت کے بعد روبرو ہوگا اور دوسری کو عذاب قیامت کی طرف ۔
ایک اور حدیث میں امیر المومنین علی علیہ السلام سے آیا ہے کہ آپ نے فرمایا:
مازلنا نشک فی عذاب القبرحتیٰ نزلت الھاکم التکاثر، الیٰ قولہ کلّا سوف تعلمون، یرید فی القبر، ثم کلا سوف تعلمون بعد البعث
” ہم میں سے ایک گروہ ہمیشہ عذاب قبر کے بارے میں شک کیا کرتا تھا یہاں تک کہ سورہ ” الھاکم التکاثر“ نازل ہوئی ، یہاں تک کہ فرماتا ہے : ” کلا سوف تعلمون “ اس سے مراد عذاب قبر ہے ۔ اس کے بعد فرماتا ہے : ثم کلا سوف تعلمون “ اس سے مراد قیامت کا عذاب ہے “۔5
تفسیر کبیر فخر رازی میں یہ مطلب علی علیہ السلام کے ایک صحابی” زربن جیشن“ سے نقل ہوا ہے ،جو کہتا ہے : ” ہم عذابِ قبرکے بارے میں شک کیا کرتے تھے ، یہاں تک کہ ہم نے علی علیہ السلام سے سنا کہ آپ  فرماتے ہیں :”یہ آیت عذابِ قبر پر دلیل ہے“۔6
اس کے بعد مزید کہتا ہے : ” ایسا نہیں ہے جیساکہ تم ایک دوسرے پر فخر کرنے والے خیال کرتے ہو۔ اگر تمہارا آخرت پر ایمان ہوتااور علم الیقین کے ساتھ جان لیتے ، تو ہر گز ایسا کام نہ کرتے اور ان باطل مسائل پر فخر و مباھات کرنے سے باز آتے۔ ( کلا لو تعلمون علم االیقین )7
پھر دوبارہ تاکید اور مزیدڈرانے کے لیے اضافہ کرتا ہے : تم یقینی طو رپر جہنم کو دیکھو گے“۔ ( لترون الجحیم
”پھر اس میں داخل ہو کر عین الیقین کے ساتھ اس کا مشاہدہ کرو گے“۔ ( ثم لتر ون ھا عین الیقین
” پھر اس دن تم سے ان نعمتوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا“۔( ثم لتسئن یومئذ عن النعیم
اس دن تمہیں اس بات کی وضاحت کرنی پڑے گی کہ تم نے ان خدا داد نعمتوں کو کس طریقہ سے صرف کیا ہے ؟ اور ان سے تم نے خدا کی اطاعت کے لیے مددلی ہے یا اس کے معصیت کے لیے ، یا ان نعمتوں کو ضائع کرکے ہر گز ا ن کا حق ادا نہیں کیا ہے ؟


 

۱۔ فارسی کے روز مرہ کے استعمالات میں ” تکاثر“ دولت جمع کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ، حالانکہ یہ معنی لغت کی اصل کے اعتبار سے نہیں ہے ، لیکن بعض روایات میں جن کی طرف اشارہ کریں گے، اس قسم کا استعمال ہوا ہے ۔
2-«نهج البلاغه»، خطبه 221.
3۔۔ نہج البلاغہ خطبہ ۲۲۱۔
4۔ ” شرح نہج البلاغہ“ ابن ابی الحدید“ جلد۱۱ ص ۱۵۳۔
5۔ ” مجمع البیان“ جلد ۱۰ ص ۳۴۔
6۔ ” تفسیر فخر رازی“ جلد ۲۲ ص ۷۲۔
7۔ بعض کا نظر یہ یہ ہے کہ ایسے موقعوں پر لفظ” کلا“ تاکید کے لیے ہوتا ہے اور ”حقاً“کے معنی میں ہوتا ہے ، یہ بات طبرسی نے مجمع البیان میں نقل کی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ ” العرب توٴکد بکلّا و حقّاً“ عرب لفظ کلا اور حقا سے تاکید کرتے ہیں ۔

اس سورہ کی فضیلت۱۔ تفاخرکا سر چشمہ
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma