SiteTitle

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 

خالہ اور ماموں کے بچّوں کے دذمیان میراث میںبیٹا اور بیٹی کا حصّہ برابر ہونا [تسرے طبقہ کی میراث]

Questionایک مؤمن شخص کا انتقال ہوگیا ہے،انتقال کے وقت اس کے وارث درج ذیل اشخاص ہیں: الف) مرحوم کی زوجہ جوان کی چچازاد ہیں ۔ ب) دوسرے چچا کی بیٹی ۔ج) ایک ماموں زاد بھائی ، د) دوسرے ماموں کے تین بیٹے اور تین ماموں زاد بہنیں) دوخالہ زاد بھائی اور دو خالہ زاد بہنیں ۔ برای مہربانی آپ بیان فرمائیں کہ کیا ماموں زاد بہن بھائی اور خالہ زاد بہن بھائیوں کو برابر میراث ملے گی یا ''للذکر مثل حظی الانثیین'' کے مطابق لڑکی کو ایک حصہ اور لڑکوں کو دو حصہ ملیں گے؟
Answer: جواب: بعید نہیں ہے کہ ان کا حصہ برابر ہو لیکن احتیاط یہ ہے کہ آپس میں مصالحت کریں ۔

ولد الزنا (ناجائز اولاد) [تسرے طبقہ کی میراث]

Questionکیا زنا کے ذریعہ پیدا ہونے والا بچہ ، شرعی اولاد کے حکم میں ہوتا ہے؟
Answer: زنا کے ذریعہ پیدا ہونے والے بچہ کا حکم، پرورش اور اس کے اخراجات وغیرہ کے لحاظ سے (ان صورتوں کے علاوہ جہاں دلیل مستثنیٰ قرار دیتی ہے جیسے میراث کا مسئلہ) وہی ہے جو شرعی بچہ کا ہوتا ہے لہٰذا اس بناپر، محرم ہونے، اس کی پرورش، نگہداشت اور تربیت کے تمام احکام ولد الزنا کے بارے میں جاری ہوں گے فقط اس کو میراث نہیں ملے گی ۔

اگر وارث بہن کے بچّے اور چچا زاد ہوں [دوسرے طبقہ کی میراث]

Questionمرحوم زید کے وارثوں میں، ایک بھانجا جو اس کی ماں جائی بہن کا بچہ ہے، اور تین چچازاد بھائی ہیں جو با حیات ہیں، مرحوم زید کی میراث کیسے تقسیم کی جائے گی؟
Answer: جواب: بھانجہ کے ہوتے ہوئے، چچا زاد بھائیوں کو میراث نہیں ملے گی اور اگر دوسرا کوئی وارث نہیں ہے تو تمام مال اسی بھانجہ (یا بھانجی) کو دیا جائے گا ۔

اگر وارثین تین ابوینی (ماں باپ دونوں کی طرف سے ) بہنیں ایک دادی اور ایک نانا ہوں [دوسرے طبقہ کی میراث]

Questionایک شخص فوت ہوا، انتقال کے وقت اس کے ورثہ یہ ہیں: تین حقیقی بہنیں (جن کے ماں باپ ایک ہوں)دادی اور نانا، مذکورہ وارثوں کی میراث کے حصّے کا دقیق میزا ن کیا ہے اور کیسے ان میں تقسیم ہوگا؟
Answer: جواب: نانا، بھائی کے مثل اور دادی بہن کے مثل ہے ؛ اس بناپر مال کے چھ حصّے کئے جائیں گے، دو حصّے نانا کو دےے جائیں گے اور بقیہ چار حصے دادی اور تین بہنوں میں تقسیم ہوںہو گے ، ہر ایک کو ایک حصہ ملے گا۔

اگر وارثین بیوی/ شوہر ، ابوینی بھائی اور امّی (ماں کی طرف سے) بھائی اور بہن ہوں [دوسرے طبقہ کی میراث]

Questionاس صورت میں جبکہ متوفی کے ورثہ یہ ہوں: ۱۔شوہر ۲۔ابوینی بھائی ۳و۴۔ ایک امّی بہن اور ایک بھائی ہر ایک کے حصہ کا میزا ن کیا ہے؟
Answer: جواب: مفروضہ سوال میں شوہر آدھے کا حقدار ہے اور مال کا ۳/۱ ایک تہائی حصہ ماں کی جانب سے سوتیلی بہن اور بھائی کو ملے گا اور وہ حصہ ان میں برابر سے تقسیم ہوگا اور باقی سب یعنی چھٹا حصہ حقیقی بھائی سے متعلق ہوگا۔

کار حادثہ میں فوت ہوئے خاندان کا وارث [پہلے طبقه کی میراث]

Questionافسوس میرا بیٹا غلام عباس اپنی زوجہ محدثہ اور اپنے بیٹے محمد رضا کے ساتھ ایک ایکسیڈینٹ میں جاں بحق ہوگیا، شوہر اور بیوی تو فوراً مرگئے اور ان کا بیٹا ایمولینس کے ذریعہ اسپتال منتقل ہوگیا لیکن وہ بھی ایک گھنٹہ بعد مرگیا، غلام عباس کے ماں باپ زندہ ہیں جبکہ محدثہ کی فقط ماں زندہ ہے، شایا ن ذکر ہے کہ محدثہ کا باپ اپنی بیٹی کی شادی سے دس سال پہلے فوت ہوگیا تھا، وہ کچھ مال رکھتا ہے کہ جس میں محدثہ کا بھی حصہ ہے اور چونکہ بیٹی کے کام کرنے کی جگہ اس کی ماں کے گھر کے پاس تھی تو اس کے جہیز کا سامان بھی اس کی ماں کے گھر میں رکھا تھا، وہ تحائف اور جو شادی سے تیسرے دن اور بچے کی ولادت کے بعد اس کو ملے تھے وہ اس کے خسر کے گھر میں رکھے تھے تو اب آپ فرمائیں:
۱۔ ان میں سے ہر ایک کا حصہ کیسے دیا جائے گا؟
۲۔ وہ سونا جو شادی کے وقت بہو کے لئے خریدا گیا تھا وہ کس کا مال ہے؟
۳۔ وہ سونا جو بطور ہدیہ لوگوں نے شادی کے دن دیا تھا اور وہ موجود بھی ہے، کس کو دیا جائے؟
Answer: جواب: ۶/۱ مال کا حصہ مرحوم غلام عباس کے باپ ، ۶/۱ مال اس کی ماں، ۸/۱اس کی زوجہ کو دے کر دیگر بقیہ مال اس کے بیٹے کو پہنچے گا، اس کی زوجہ محدثہ کے حصے کا، ۶/۱ اس کی ماں کو دے کر بقیہ حصہ اس کے بیٹے محمد رضا کا حق ہوگا ، محدثہ (غلام عباس کی زوجہ) کے اموال کا ۶/۱ اس کی ماں ۴/۱ اس کے شوہر اور بقیہ حصہ اس کے بیٹے محمدرضا کا ہوگا اور شوہر کا ۴/۱ حصہ ماں باپ اور اس کے بیٹے محمد رضا کے درمیان تاتقسیم ہوگا، ماں باپ دونوں کو ۶/۱ اور بقیہ اس کے بیٹے محمد رضا کا ہوگا ۔
وہ اموال جو اوپر دی گئی تقسیم کے مطابق بیٹے محمد رضا کا حق ہے ان میں سے ۳/۲داد اور دادی (دادا کے دوحصے اور دادی کا ایک حصہ) اور ۳/۱ نانی کو ملے گا۔
اب رہا سوال لڑکی کے جہیز کا اور ان تحائف کا کہ جو بچے کی ولادت کے وقت اس کو دیے گئے تھے یا اس سونے کا جو شادی کے موقع پر دلہن کے لئے خریدا گیا تھا یا دوسروں نے دیا تھا، تمام کا تمام اسی کا مال ہے۔

خاندان کی میراث اور دیت کا حکم جو ایک ساتھ فوت ہوا ہو [پہلے طبقه کی میراث]

Questionمیرا بھائی اپنی بیوی اور بیٹے کے ساتھ ایک کار حادثہ میں ایک ہی وقت انتقال کرگئے، اس کا فقط ایک بیٹا ہے اور اس کے علاوہ اس بیٹے کے دادی اور نانا، نانی بقید حیات ہیں، مرحومین کی دیت اور ان کا تمام مال کس طرح تقسیم کیا جائے گا؟
Answer: جواب: اول فرض کریں گے کہ باپ سب سے پہلے مرا ہے، اس کی میراث منجملہ دیت بھی، ماں اور وونوں بیٹوں کے درمیان تقسیم ہوگی، ان میں سے جو حیات ہیں اپنے حصے کو لے لیں گے، وہ دو نفر جو مرگئے (یعنی زوجہ اور اس کا بیٹا) اس کا حصہ ان کے ورثہ میں تقسیم ہوگا، جن کا ذکر بعد میں کریں گے، پھر ہم فرض کریں گے کہ پہلے بیوی مری ہے، اس کی میراث اور دیت باپ، ماں اور اس کے دو بیٹوں کو پہنچے گی جو ان میں سے زندہ ہیں وہ اپنا حصہ لے لیں گے اور وہ دونوں جو فوت ہوگئے (یعنی شوہر اور پہلا بیٹا) ان کا حصہ ان کے وارثین کو پہنچے گا پھر ہم فرض کریں گے کہ بیٹا سب سے پہلے مرا ہے، اس کی میراث اور دیت فقط اس کے باپ اور ماں کو پہنچے گی اور ان سے گذرکر ان ورثہ کی طرف منتقل ہوجائے گی جن کی طرف پہلے اشارہ ہوچکا ہے، مسئلہ کی پیچیدگی کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اگر آپ عمل نہ کرپائیں کسی مقامی عالم دین سے پڑھوائیں اور عمل کریں۔

اگر میت کے وارثوں میں، شوہر ، باپ ، ماں اور ایک بیٹی ہو [پہلے طبقه کی میراث]

Questionجناب احمد نے ایک خاتون، فاطمہ سے شادی کی، مہر دس لاکھ تومان معیّن ہوا، جس میں دو لاکھ تومان، نقد ادا کردیا گیا اور باقی آٹھ لاکھ تومان کا چیک، احمد نے فاطمہ کے نام لکھ دیا اور چند شرائط کے تحت، میرے پاس امانت کے طور پر رکھ دیا، جو میرے پاس موجود ہے، وہ خاتون یعنی فاطمہ کچھ عرصہ بعد، دنیا سے گذر جاتی ہے، اس مرحومہ کی پہلے شوہر سے (جو ابھی زندہ ہے) ایک بیٹی ہے جو اپنے نانا کے ساتھ رہتی ہے، مرحومہ کے والد نے تجویز پیش کی ہے جناب احمد کا چیک جو مرحومہ کے نام ہے، وہ انہی کو واپس کردیا جائے، یہ یاددہانی بھی ضرور ی ہے کہ مرحومہ فاطمہ کے والدین باحیات ہیں نیز مرحومہ کے کچھ بہن بھائی بھی موجود ہیں، یہ تمہید مدنظر رکھتے ہوئے درج ذیل سوالات کے جواب عنایت فرمائیں:
الف) اس مرحومہ کے وارث کون ہیں؟
ب) مذکورہ چیک کی رقم میں سے، مرحومہ کی بیٹی کا حصّہ کس قدر ہے، جو اپنے نانا کے پاس رہتی ہے؟
ج) کیا میں شرعی طور پر مذکورہ چیک کو مرحومہ کے والد کے حوالہ کرسکتا ہوں تاکہ وہ مرحومہ کے شوہر (احمد) کو بخش دیں یا نہیں؟
د) شریعت کی رو سے، میرے اختیار میں چیک ہونے اور اس میں ان کے تحریر کردہ شرائط نیز اس سلسلہ میں میرے قاضی ہونے کے متعلق، میرا کیا وظیفہ ہے؟
Answer: جواب: الف) اس کے وارث، شوہر، باپ، ماں اور ایک بیٹی ہے (البتہ اگر دوسری کوئی اولاد نہ ہو) اس کے شوہر (احمد) کا حصّہ ایک چوتھائی، والدین میں سے ہر ایک کا چھٹا حصّہ اور باقی یعنی چھ حصوں سے، ڈھائی حصّے، بیٹی کے ہیں جو اسے ملیں گے ۔
جواب: ب وج) مذکورہ چیک کی رقم تمام وارثوں سے متعلق ہے اور ان کے والد فقط اپنا حصہ بخش سکتے ہیں اور جبکہ آپ کسی خاص شخص (وارث) کے حوالہ، چیک نہیں کرسکتے ہیں لہٰذا سب کے اختیار میں دیدیں ۔
جواب: د) آپ کے لئے تمام وارثوں کو اطلاع دینا ضروری ہے تاکہ وہ خود جمع ہوکر چیک کی وضعیت کو روشن کریں ۔

اگر شہید کے وارث ، اس کے باپ اور بیوی ہو [پہلے طبقه کی میراث]

Questionمیرے بھائی، ١٢سال پہلے جنگ میں لاپتہ ہوگئے تھے، اس زمانے میں یہ معلوم نہیں ہوسکا تھا کہ وہ شہید ہوگئے یا اسیر ہوئے ہیں، لیکن اب بارہ سال کے بعد ان کی شہادت مسلّم طور پر ثابت ہوگئی ہے اس شہید کی ایک بیوہ ہے لیکن بچہ کوئی نہیں ہے، آپ سے التماس ہے کہ مندرجہ ذیل سوالوں کے جواب عنایت فرمائیں:
الف) اس شہید کی تنخواہ، بارہ سال کے عرصہ میں بطور کامل اور یکبارگی، ان کی بیوی کے ذریعہ وصول اور خرچ ہوئی ہے، کیا مذکورہ تنخواہ کی مکمل رقم، شہید کی زوجہ کا حق ہے، یا اس میں سے میراث کے عنوان سے، شہید کے والدین اور بہن بھائیوں کا بھی کچھ حصّہ ہے؟
ب) اب جبکہ اُن کی شہادت یقینی طور پر ثابت ہوگئی ہے، ادارے کی جانب سے جس میں وہ کام کرتے تھے، کچھ رقم دی جارہی ہے، یہ رقم کس سے متعلق ہے یعنی یہ رقم کس شخص کی ہوگی؟
ج) یہ بات ملحوظ رکھتے ہوئے کہ وہ سن ١٣٦١ شمسی میں شہید ہوئے ہیں اور شہادت کی اطلاع سن ١٣٧٢شمسی میں ملی ہے جبکہ اُن کے والدین ٦٦ میں مرحوم ہوگئے ہیں، کیا شہید اپنے والد کی میراث لیں گے یا والد کو شہید کی میراث ملے گی؟
د) شہادت کے ثابت ہونے سے دوسال پہلے ان کی زوجہ نے 'بنیاد شہید'' نامی ادارے سے، طلاق کا تقاضا کیا تھا اور ادارے کے مدیر نے قوانین کے مطابق اس کو شرعی طلاق دے دی تھی، کیا اس صورت میں یہ زوجہ، اس شہید کی میراث لے گی؟ کیا اس رقم میں سے جو ادارے نے، دیت وغیرہ کے عنوان سے دی ہے، زوجہ کو میراث ملے گی یا نہیں؟ اور کیا اس دو سال کی مدّت میں، شہید کی تنخواہ لے کر خرچ کرنے کا حق رکھتی تھی یا نہیں؟
Answer: جواب: اس کی تنخواہ اس کی بیوی سے متعلق تھی، یعنی اس کی زوجہ کا حق ہے ۔
جواب: تمام وارثوں سے مربوط ہے مگر یہ کہ وہ ادارہ مذکورہ رقم کے لئے کوئی خاص مصرف معین کرے ۔
جواب: والد کو ان کے مال سے میراث ملے گی، لیکن حکومت سے جو رقم دی گئی ہے اس میں سے انھیں (والد کو) میراث نہیں ملے گی ۔
جواب: چنانچہ حکومت یہ جان کر کہ طلاق ہوگئی ہے، اُسے تنخواہ دیتی تھی تب تو لینا جائز ہے لیکن اگر اس شرط پر تنخواہ دیتی کہ طلاق نہیں ہوئی ہے، تب مذکورہ رقم وصول کرنا اس کے لئے جائز نہیں تھا لیکن بہرحال شہید کے مال سے میراث وصول کرے گی اور اسی طرح اس کی دیت کی رقم سے میراث لے گی ۔

اگر وارث ، باپ ماں اور زوجہ ہو [پہلے طبقه کی میراث]

Questionمرنے والے شخص کے وارثوں میں، والدین اور ایک زوجہ ہے جس سے زفاف نہیں ہوا تھا یعنی فقط نکاح ہوا تھا رخصتی نہیں، آپ سے گذارش ہے کہ وارثوں کے درمیان مرحوم کی میراث کی تقسیم کا طریقہ بیان فرمائیں؟
Answer: جواب: زمین کے علاوہ مرحوم کے مال کا چوتھائی حصہ زوجہ کو ملے گا اور سارے مال کا ایک تہائی حصہ والدہ کو اور باقی سب کچھ باپ کو ملے گا، ہاں البتہ اگر مرنے والے کے دو بھائی یا چار بہنیں یا ایک بھائی اور دو بہنیں ہوں (اور ان سب کے والدین ایک ہوں) تو اس صورت میں چھ حصوں میں سے ایک حصہ ماں کا ہوجائے گا اور باقی جو چھ میں سے ساڑھے تین حصہ ہوتے ہیں، والد کو ملیں گے ۔

بیٹے اور بیٹیوں کے درمیان میراث کو برابر تقسیم کرنے کی وصیت [پہلے طبقه کی میراث]

Questionدوسال پہلے میری والدہ محترمہ کا انتقال ہوگیا تھا، جبکہ ان کی اولاد میں سے ہم چار بھائی اور تین بہنیں ہیں، مرحومہ کی میراث میں ایک جگہ ہے جس کی قیمت تقریباً ایک کروڑ تومان ہے ، ہم لوگوں کا ارادہ تھا کہ اس کو فروخت کرکے، سب بہن بھائی اپنا اپنا حصہ لے لیں، لیکن ہماری بہنیں مرحومہ والدہ کی اس مضمون کی تحریر پیش کرتی ہیں کہ میراث تقسیم کرتے وقت میرے بچے، بیٹی اور بیٹے کے حصہ میں کوئی فرق نہ رکھیں اور سب برابر طور پر حصہ وصول کریں ، اب جبکہ ہم سب اپنی ماں کی تحریر کے صحیح ہونے یعنی یہ کہ وہ تحریر ہماری والدہ کی ہے، یقین رکھتے ہیں، لیکن ممکن ہے کہ ہمارے بعض بھائی تہہ دل سے اس بات پر راضی نہ ہوں لہٰذا آپ فرمائیں کہ ہمارا شرعی وظیفہ کیا ہے؟
Answer: جواب: اس بات پر توجہ رکھتے ہوئے کہ ماں کو اپنے مال کے ایک تہائی حصہ میں تصرف کرنے کا حق حاصل تھا، لہٰذا جو کچھ انھوں نے تمھاری بہنوں کے حصّوں کے بارے میں لکھا ہے، اس میں کوئی اشکال نہیں ہے، اس لئے کہ مذکورہ فرق ایک تہائی حصّہ سے کم ہے، لہٰذا اس بناپر ماں کی وصیت کے مطابق عمل کریں ۔

مطلّقہ ماں کیلئے بیٹے کی میراث [پہلے طبقه کی میراث]

Questionپچیس (٢٥) سال پہلے ایک خاتون نے اپنے شوہر سے طلاق لے لی تھی، اس کے شوہر نے دوسری شادی کی اور دوسری بیوی سے ایک بیٹی ہوئی پھر اس کو بھی بیس سال پہلے طلاق دیدی، اس کے بعد تیسری شادی کی ہے، پھر وہ شخص اور اس کا بیٹا، گاڑی کے گرنے اور اس میں دبنے کی وجہ سے مرجاتے ہیں اور یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ ان میں کون پہلے مرا ہے اور کس کا انتقال بعد میں ہوا ہے، اس لڑے کی ماں یعنی مطلقہ خاتون کا کہنا ہے کہ میرے بیٹے کا تو کوئی مال یا دولت نہیں ہے اس لئے کہ وہ غیر شادی شدہ تھا اور اپنے والد کے ساتھ رہتا تھا لہٰذا اس کو باپ کی میراث ملنا چاہیے، کیا اس کو میراث ملے گی؟ (ملحوظ رہے کہ اس مرحوم شخص کے وارث یہ ہیں: دو بیٹیاں، مرحوم کی ماں اور وہ زوجہ جو اس وقت اس کے گھر موجود ہے)؟
Answer: جواب: اس شخص کی میراث، اس کی دوبیٹوں، ایکسیڈنٹ میں مرنے والا بیٹا، اس شخص کی ماں اور اس کی زوجہ کو ملے گی، میراث کا آٹھواں حصہ، زوجہ کو، چھٹا حصّہ ماں کو اور باقی مال کو چار حصوں میں تقسیم کیا جائے گا حس میں سے دو حصّہ، اس کے مرحوم بیٹے کے ہیں جو اس کی ماں کو ملیں گے (یہ اس وقت ہوگاکہ جب اس کی وارث فقط ماں ہو) اور باقی ایک ایک حصّہ اس کی بیٹیوں کو ملے گا ۔

اس شوہر و زوجہ کی میراث جن کا نکاح صحیح نہیں تھا [پہلے طبقه کی میراث]

Questionاگر نکاح خوان نے کسی کا نکاح پڑھتے وقت، صیغہ نکاح میں غلطی کی ہو تو کیا ان کے بچے ماں باپ کی میراث حاصل کریں گے؟ اور کیا یہ دونوں شوہر وزوجہ ایک دوسرے کی میراث لیں گے یا بچوں کے انتقال کی صورت میں، بچوں کی میراث میں حصہ دار ہوں گے یا نہیں؟
Answer: جواب: بچوں کو ماں باپ کی اور والدین کے بچوں کی میراث ملے گی لیکن میاں بیوی کو ایک دوسرے کی میراث نہیں ملے گی ۔

بیٹے اور شوہر کے ایک ساتھ مرنے کی صورت میں زوجہ کی میراث [پہلے طبقه کی میراث]

Questionایک شخص کا اپنے تین بچوں کے ساتھ، رات کے وقت، کوئلہ کی بھٹی کی زہریلی گیس سے دم گھٹ کر انتقال ہو گیا، اور یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ کون پہلے مرا اور کس کا بعد میں انتقال ہوا ہے، قابل غور بات یہ ہے کہ بچوں کے پاس تو کوئی مال و دولت نہیں تھی اور والد کے وارثوں میں، ان کی بیوہ اور والدین ہیں، ان کے درمیان کیسے میراث تقسیم کی جائے برای مہربانی بیان فرمادیں؟
Answer: جواب: والد کی میراث میں سے (ان کے ساتھ میں مرنے والے) بچوں کا حصہ لیکر ان کے وارثوں کو دیا جائے گا اور باقی حصہ دوسرے وارثوں کو دیا جائے گا ۔

زرتشت (آتش پرست) گھرانے کے مسلمان بیٹے کی میراث [میراث کے طبقے]

Questionیرے شوہر اور میرے بچّوں کے والد، مرحوم بہرام جو زرتشتی (مجوسی)مذہب پر تھے، انھوں نے انتقال سے ۵ سال پہلے ایک مسلمان عورت سے عقد متعہ کیا تھا اور نکاح نامہ میں خود کو مسلمان ظاہر کیا تھا ، اس عقد متعہ کے نتیجہ میں ان کے یہاں دو بچہ ہوئے، لیکن چونکہ ہمیں ا ن کے مسلمان ہونے کے بارے میں جس کا امکان ہے ، کوئی اطلاع نہیں تھی، نیز ہم نے کبھی انھیں دینِ مقدس اسلام کے فرائض انجام دیتے ہوئے دیکھا بھی نہیں تھا اور خود انھوں نے بھی اس سلسلہ میں کوئی بات ہم سے یا دوسرے لوگوں سے نہیں کی تھی، لہٰذا جب ان کا انتقال ہوا تو ہم نے ایک مجوسیہونے کی حیثیت سے اور مجوسی رسم ورواج کے مطابق انھیں زرتشتی کے قبرستان میں دفن کردیا جبکہ ان کی متعی بیوی اور دونوں بچوں نے بھی ہم سے ان کے سلسلہ میں مسلمان ہونے یا اسلام لانے یا عقد متعہ کے متعلق کوئی تذکرہ نہیں کیا حالانکہ وہ لوگ ان کے دفن، کفن اور دیگر تمام رسومات میں شریک تھے یہاں تک کہ بعد میں ہمیں ان کے عقد متعہ اور نکاح نامہ کے بارے میں اطلاع ملی کہ جس میں ان کا دین، اسلام تحریر کیا گیا تھا تب ہم نے اس موضوع کو اپنے ایک مسلمان پڑوسی کے سامنے رکھا جو اسلامی فقہ اور حقوق کے موضوع پر کافی مطالعہ اور تحقیق کرچکے ہیں، انھوں نے دین مقدس اسلام کے امتیازات اور بہت سی خوبیاں بیان کرتے ہوئے اور یہ کہ دین مبین اسلام، حق اور تمام ادیان الٰہی سے برتر، کاملترین، بہترین اور آخری دین الٰہی ہے، ہمیں اسلام کی جانب تشویق دلائی اور اسلام کی دعوت دی اور آخر کار ان کی ہدایت، راہنمائی اور بے لوث کوششوں سے ہم لوگ، دین مقدس اسلام کے احکام کی تعلیم سے شرفیاب ہوئے اور مسلمان ہوکر شیعہ اثناعشری ہوگئے، مذکورہ مطالب نیز یہ بات ملحوظ رکھتے ہوئے کہ ان کے مسلمان ہونے پر کوئی مستند دلائل موجود نہیں ہیں جو ان مرحوم کے مسلمان ہونے کو ثابت کرسکیں، ہماری خواہش ہے کہ آپ مندرجہ ذیل سوالوں کے جواب عنایت فرمائیں:
الف)کیا وہ مرحوم مسلمان تھے؟
ب) کیا ان کا مسلمان خاتون سے عقد کرنا صحیح تھا ؟
ج) کیا وہ بچّے جو عقد متعہ کے نتیجہ میں پیدا ہوئے ہیں، ان کی جائز اولاد ہیں اور ان کے ترکہ میں سے ان دونوں بچوں کو بھی میراث ملے گی یا نہیں ؟
د) یہ بات مدنظر رکھتے ہوئے کہ مرنے والے کا ابھی تک قرض ادا نہیں کیا گیا اور ابھی تک ان کی میراث بھی تقسیم نہیں ہوئی ہے بلکہ ان کے ترکہ کا حساب کا ابھی تک یقینی حکم بھی جاری نہیں ہوا ہے کیا ہم لوگ جو مسلمان ہوگئے ہیں ان کے وارثوں میں شمار ہوں گے اور ان کے ترکہ میں سے ہمیں بھی میراث ملے گی یا نہیں؟
Answer: جواب:
الف) اگر اس نے اسلام کا اظہار کیا ہے تو اس پر اسلام کے احکام جاری ہوں گے اگرچہ عبادت اور دینی وظیفوں کے انجام دینے میں کوتاہی کی ہے ۔
ب) بظاہر صحیح تھا ۔
ج) مذکورہ بچے جائز ہیں ان کو میراث ملے گی ۔
د) مفروضہ مسئلہ میں کہ ابھی تک ترکہ تقسیم نہیں کیا گیا اور آپ لوگ مسلمان ہوگئے ہیں تو میراث کے بارے میں اسلامی قانون کے مطابق آپ لوگوں کو بھی میراث ملے گی ۔

میراث کے تمام طبقوں کو قصاص کا حق ہے [میراث کے طبقے]

Questionکیا میراث کے دوسرے طبقہ کے وارثوں کو، قصاص کا حق ہے؟
Answer: جواب: تما م وارثوں کو جنھیں میراث ملتی ہے، قصاص کا حق ہے، مگر شوہر اور زوجہ کہ انھیں قصاص کا حق نہیں ہے البتہ دیت کی رقم میں حصّہ دار ہیں ۔

بیٹے اور شوہر کے ایک ساتھ مرنے کی صورت میں زوجہ کی میراث [میاں بیوی کی میراث]

Questionایک شخص کا اپنے تین بچوں کے ساتھ، رات کے وقت، کوئلہ کی بھٹی کی زہریلی گیس سے دم گھٹ کر انتقال ہو گیا، اور یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ کون پہلے مرا اور کس کا بعد میں انتقال ہوا ہے، قابل غور بات یہ ہے کہ بچوں کے پاس تو کوئی مال و دولت نہیں تھی اور والد کے وارثوں میں، ان کی بیوہ اور والدین ہیں، ان کے درمیان کیسے میراث تقسیم کی جائے برای مہربانی بیان فرمادیں؟
Answer: جواب: والد کی میراث میں سے (ان کے ساتھ میں مرنے والے) بچوں کا حصہ لیکر ان کے وارثوں کو دیا جائے گا اور باقی حصہ دوسرے وارثوں کو دیا جائے گا ۔

اگر میت کے وارثوں میں، شوہر ، باپ ، ماں اور ایک بیٹی ہو [میاں بیوی کی میراث]

Questionجناب احمد نے ایک خاتون، فاطمہ سے شادی کی، مہر دس لاکھ تومان معیّن ہوا، جس میں دو لاکھ تومان، نقد ادا کردیا گیا اور باقی آٹھ لاکھ تومان کا چیک، احمد نے فاطمہ کے نام لکھ دیا اور چند شرائط کے تحت، میرے پاس امانت کے طور پر رکھ دیا، جو میرے پاس موجود ہے، وہ خاتون یعنی فاطمہ کچھ عرصہ بعد، دنیا سے گذر جاتی ہے، اس مرحومہ کی پہلے شوہر سے (جو ابھی زندہ ہے) ایک بیٹی ہے جو اپنے نانا کے ساتھ رہتی ہے، مرحومہ کے والد نے تجویز پیش کی ہے جناب احمد کا چیک جو مرحومہ کے نام ہے، وہ انہی کو واپس کردیا جائے، یہ یاددہانی بھی ضرور ی ہے کہ مرحومہ فاطمہ کے والدین باحیات ہیں نیز مرحومہ کے کچھ بہن بھائی بھی موجود ہیں، یہ تمہید مدنظر رکھتے ہوئے درج ذیل سوالات کے جواب عنایت فرمائیں:
الف) اس مرحومہ کے وارث کون ہیں؟
ب) مذکورہ چیک کی رقم میں سے، مرحومہ کی بیٹی کا حصّہ کس قدر ہے، جو اپنے نانا کے پاس رہتی ہے؟
ج) کیا میں شرعی طور پر مذکورہ چیک کو مرحومہ کے والد کے حوالہ کرسکتا ہوں تاکہ وہ مرحومہ کے شوہر (احمد) کو بخش دیں یا نہیں؟
د) شریعت کی رو سے، میرے اختیار میں چیک ہونے اور اس میں ان کے تحریر کردہ شرائط نیز اس سلسلہ میں میرے قاضی ہونے کے متعلق، میرا کیا وظیفہ ہے؟
Answer: جواب: الف) اس کے وارث، شوہر، باپ، ماں اور ایک بیٹی ہے (البتہ اگر دوسری کوئی اولاد نہ ہو) اس کے شوہر (احمد) کا حصّہ ایک چوتھائی، والدین میں سے ہر ایک کا چھٹا حصّہ اور باقی یعنی چھ حصوں سے، ڈھائی حصّے، بیٹی کے ہیں جو اسے ملیں گے ۔
جواب: ب وج) مذکورہ چیک کی رقم تمام وارثوں سے متعلق ہے اور ان کے والد فقط اپنا حصہ بخش سکتے ہیں اور جبکہ آپ کسی خاص شخص (وارث) کے حوالہ، چیک نہیں کرسکتے ہیں لہٰذا سب کے اختیار میں دیدیں ۔
جواب: د) آپ کے لئے تمام وارثوں کو اطلاع دینا ضروری ہے تاکہ وہ خود جمع ہوکر چیک کی وضعیت کو روشن کریں ۔

اگر شہید کے وارث ، اس کے باپ اور بیوی ہو [میاں بیوی کی میراث]

Questionمیرے بھائی، ١٢سال پہلے جنگ میں لاپتہ ہوگئے تھے، اس زمانے میں یہ معلوم نہیں ہوسکا تھا کہ وہ شہید ہوگئے یا اسیر ہوئے ہیں، لیکن اب بارہ سال کے بعد ان کی شہادت مسلّم طور پر ثابت ہوگئی ہے اس شہید کی ایک بیوہ ہے لیکن بچہ کوئی نہیں ہے، آپ سے التماس ہے کہ مندرجہ ذیل سوالوں کے جواب عنایت فرمائیں:
الف) اس شہید کی تنخواہ، بارہ سال کے عرصہ میں بطور کامل اور یکبارگی، ان کی بیوی کے ذریعہ وصول اور خرچ ہوئی ہے، کیا مذکورہ تنخواہ کی مکمل رقم، شہید کی زوجہ کا حق ہے، یا اس میں سے میراث کے عنوان سے، شہید کے والدین اور بہن بھائیوں کا بھی کچھ حصّہ ہے؟
ب) اب جبکہ اُن کی شہادت یقینی طور پر ثابت ہوگئی ہے، ادارے کی جانب سے جس میں وہ کام کرتے تھے، کچھ رقم دی جارہی ہے، یہ رقم کس سے متعلق ہے یعنی یہ رقم کس شخص کی ہوگی؟
ج) یہ بات ملحوظ رکھتے ہوئے کہ وہ سن ١٣٦١ شمسی میں شہید ہوئے ہیں اور شہادت کی اطلاع سن ١٣٧٢شمسی میں ملی ہے جبکہ اُن کے والدین ٦٦ میں مرحوم ہوگئے ہیں، کیا شہید اپنے والد کی میراث لیں گے یا والد کو شہید کی میراث ملے گی؟
د) شہادت کے ثابت ہونے سے دوسال پہلے ان کی زوجہ نے 'بنیاد شہید'' نامی ادارے سے، طلاق کا تقاضا کیا تھا اور ادارے کے مدیر نے قوانین کے مطابق اس کو شرعی طلاق دے دی تھی، کیا اس صورت میں یہ زوجہ، اس شہید کی میراث لے گی؟ کیا اس رقم میں سے جو ادارے نے، دیت وغیرہ کے عنوان سے دی ہے، زوجہ کو میراث ملے گی یا نہیں؟ اور کیا اس دو سال کی مدّت میں، شہید کی تنخواہ لے کر خرچ کرنے کا حق رکھتی تھی یا نہیں؟
Answer: جواب: اس کی تنخواہ اس کی بیوی سے متعلق تھی، یعنی اس کی زوجہ کا حق ہے ۔
جواب: تمام وارثوں سے مربوط ہے مگر یہ کہ وہ ادارہ مذکورہ رقم کے لئے کوئی خاص مصرف معین کرے ۔
جواب: والد کو ان کے مال سے میراث ملے گی، لیکن حکومت سے جو رقم دی گئی ہے اس میں سے انھیں (والد کو) میراث نہیں ملے گی ۔
جواب: چنانچہ حکومت یہ جان کر کہ طلاق ہوگئی ہے، اُسے تنخواہ دیتی تھی تب تو لینا جائز ہے لیکن اگر اس شرط پر تنخواہ دیتی کہ طلاق نہیں ہوئی ہے، تب مذکورہ رقم وصول کرنا اس کے لئے جائز نہیں تھا لیکن بہرحال شہید کے مال سے میراث وصول کرے گی اور اسی طرح اس کی دیت کی رقم سے میراث لے گی ۔

اگر وارث ، باپ ماں اور زوجہ ہو [میاں بیوی کی میراث]

Questionمرنے والے شخص کے وارثوں میں، والدین اور ایک زوجہ ہے جس سے زفاف نہیں ہوا تھا یعنی فقط نکاح ہوا تھا رخصتی نہیں، آپ سے گذارش ہے کہ وارثوں کے درمیان مرحوم کی میراث کی تقسیم کا طریقہ بیان فرمائیں؟
Answer: جواب: زمین کے علاوہ مرحوم کے مال کا چوتھائی حصہ زوجہ کو ملے گا اور سارے مال کا ایک تہائی حصہ والدہ کو اور باقی سب کچھ باپ کو ملے گا، ہاں البتہ اگر مرنے والے کے دو بھائی یا چار بہنیں یا ایک بھائی اور دو بہنیں ہوں (اور ان سب کے والدین ایک ہوں) تو اس صورت میں چھ حصوں میں سے ایک حصہ ماں کا ہوجائے گا اور باقی جو چھ میں سے ساڑھے تین حصہ ہوتے ہیں، والد کو ملیں گے ۔

مطلّقہ ماں کیلئے بیٹے کی میراث [میاں بیوی کی میراث]

Questionپچیس (٢٥) سال پہلے ایک خاتون نے اپنے شوہر سے طلاق لے لی تھی، اس کے شوہر نے دوسری شادی کی اور دوسری بیوی سے ایک بیٹی ہوئی پھر اس کو بھی بیس سال پہلے طلاق دیدی، اس کے بعد تیسری شادی کی ہے، پھر وہ شخص اور اس کا بیٹا، گاڑی کے گرنے اور اس میں دبنے کی وجہ سے مرجاتے ہیں اور یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ ان میں کون پہلے مرا ہے اور کس کا انتقال بعد میں ہوا ہے، اس لڑے کی ماں یعنی مطلقہ خاتون کا کہنا ہے کہ میرے بیٹے کا تو کوئی مال یا دولت نہیں ہے اس لئے کہ وہ غیر شادی شدہ تھا اور اپنے والد کے ساتھ رہتا تھا لہٰذا اس کو باپ کی میراث ملنا چاہیے، کیا اس کو میراث ملے گی؟ (ملحوظ رہے کہ اس مرحوم شخص کے وارث یہ ہیں: دو بیٹیاں، مرحوم کی ماں اور وہ زوجہ جو اس وقت اس کے گھر موجود ہے)؟
Answer: جواب: اس شخص کی میراث، اس کی دوبیٹوں، ایکسیڈنٹ میں مرنے والا بیٹا، اس شخص کی ماں اور اس کی زوجہ کو ملے گی، میراث کا آٹھواں حصہ، زوجہ کو، چھٹا حصّہ ماں کو اور باقی مال کو چار حصوں میں تقسیم کیا جائے گا حس میں سے دو حصّہ، اس کے مرحوم بیٹے کے ہیں جو اس کی ماں کو ملیں گے (یہ اس وقت ہوگاکہ جب اس کی وارث فقط ماں ہو) اور باقی ایک ایک حصّہ اس کی بیٹیوں کو ملے گا ۔

حکومت کی رقم سے شہید کی زوجہ کی میراث کا حصّہ (سہم) [میاں بیوی کی میراث]

Questionایک شخص اپنا ٹرک لیکر، میدان جنگ یعنی محاذ پر جاتا ہے اور وہاں پر خود شہید اور ٹرک منہدم اور بر باد ہوجاتا ہے، اس کے بعد حکومت ٹرک کا معاوضہ، اس کے گھرواوں کو دیدیتی ہے کیا شہید کی زوجہ (بیوہ) مذکورہ رقم میں سے، میراث کے طور پر اپنے حق کا مطالبہ کرسکتی ہے؟
Answer: جواب: اگر محاذ پر ٹرک کو لیجانا، حکومت کے کہنے سے تھایا حکومت نے ضمانت لی تھی (اگرچہ عام طور پر حکومت نے ضمانت لی ہو نہ فقط اس مورد میں) تو اس صورت میں شہید کی زوجہ کو اس رقم کا آٹھواں حصہ میراث کے طور پر ملے گا اور اگر مذکورہ شہید، حکومت کے کہے بغیر یا اس کی ضمانت کے بغیر اپنی مرضی سے محاذ پر ٹرک لے گیا تھا تب مربوط افسروں سے دریافت کرنا ضروری ہے کہ ٹرک کا معاضہ دینے سے ان کا کیا مقصد ہے شہید کے بچوں کی مدد کرنا ہے یا اس کی زوجہ بھی شامل ہے نیز دریافت کرنا ضروری ہے کہ عطاء کی ہوئی یہ رقم، اس کی میراث کا حصہ ہے یا اس سے کم یا زیادہ ہے؟

اگر وارث فقط بیوی ہو [میاں بیوی کی میراث]

Questionاگر شوہر اور زوجہ کا ایک دوسرے کے علاوہ، کوئی اور وارث نہ ہو تو اس صورت میں اُن کی میراث کیسے تقسیم کی جائے گی مہربانی فرماکر بیان فرمائیں؟
Answer: جواب: جب کوئی شوہر یا زوجہ دنیا سے گذر جائیں اور کوئی دوسرا شخص ان کا وارث نہ ہو، اس صورت میں اگر زوجہ کا انتقال ہوجائے تو اس کا تمام مال، شوہر کا حق ہے اور اگر شوہر کا انتقال ہوجائے تو اس کا ایک چوتھائی مال، زوجہ کا حق ہے اور باقی مال امام علیہ السلام سے متعلق ہے ۔(١)
١ جواہر، ج،٣٩؛ وسائل الشیعہ، ج١٧، باب میراث الزواج

اگر مرد کے بچّے نہ ہوں تو اسکی میراث میں بیوی کا حصّہ [میاں بیوی کی میراث]

Questionزید کی پہلی زوجہ کا وضع حمل کے وقت انتقال ہوگیا، اس کے کچھ دیر کے بعد اس کا نومولود بچہ بھی مرگیا، اس واقعہ کے ایک سال بعد اس نے اپنے خاندان ہی کی ایک لڑکی سے دوسری شادی کی اور بیس سال ازدواجی زندگی بسر کی لیکن دوسری زوجہ سے کوئی اولاد نہیں ہوئی، یہاں تک کہ اب اس کا انتقال ہوگیا ہے، اس صورت میں اس کی بیوہ کی میراث کی کیفیت کیا ہے؟
Answer: جواب: جب انتقال کے وقت ، شوہر کے کوئی اولاد نہ ہو تو اس کے مال کا ایک چوتھائی حصہ میراث کے طور پر اس کی بیوہ کو ملے گا (زمین کے علاوہ) اور باقی مال ودولت دوسرے وارثوں کا حق ہے ۔

آبیاری کی نالیوں اور کنویں کے پانی کی میراث سے بیوی کا حصّہ [میاں بیوی کی میراث]

Questionکیا زوجہ کو، آبیاری کے لئے قدرتی حوض اور نالیاں یا کنویں کے پانی میں سے میراث ملے گی؟
Answer: جواب: فقط اس مقدار پانی سے جو شوہر کے انتقال کے وقت، اس میں موجود تھا، میراث ملے گی ۔

زوجہ کے مہر میں سے، شوہر کا میراث پانا [میاں بیوی کی میراث]

Questionکیا زوجہ کا مہر بھی اس کی میراث کا حصہ ہے اور اگر میراث کا حصہ ہے تو کیا شوہر کو حق ہے کہ مہر میں سے اپنا حصہ نکال کر باقی رقم کو، زوجہ کے دیگر وارثوں کو دیدے؟
Answer: جواب: جی ہاں، اس کی میراث کا حصہ ہے اور اس کے دیگر تمام مال کی طرح تقسیم کیا جائے گا ۔

عقد نکاح کے وقت ایک کو میراث ہبہ کرنے کی شرط لگانا [میاں بیوی کی میراث]

Questionکیا شادی کرتے وقت، نکاح کے ضمن میں شوہر اپنی زوجہ سے شرط کرسکتا ہے کہ اگر وہ پہلے مرگیا اور زوجہ اس وارث ہوگئی، تو وہ اپنی میراث کو اس کے بیٹے کو ہبہ کردے جو اس شخص کی پہلی زوجہ سے ہے جس کا انتقال ہوگیا تھا؟
Answer: جواب: یہ بات ملحوظ رکھتے ہوئے کہ یہ شرط، کاملاً مبہم اور غیر واضح ہے، اشکال سے خالی نہیں ہے ۔

مقتول شوہر کی دیت میں زوجہ کی میراث [میاں بیوی کی میراث]

Questionکیا اس رقم میں جو شوہر کی دیت کے عنوان سے دریافت ہوئی ہو، زوجہ کا بھی حق ہے؟
Answer: جواب: جی ہاں، دوسرے تمام مال کی طرح اس میں سے بھی زوجہ کو میراث ملے گی ۔

میت کی میراث کے مال میں دوسری بیوی کا حصّہ [میاں بیوی کی میراث]

Questionمیرا نام فاطمہ ہے، میرے شوہر کا سن ٦٣ھ شمسی میں انتقال ہوگیا تھا، ملحوظ رہے کہ میں ان مرحوم کی دوسری بیوی ہوں، ان کے انتقال کے دو سال بعد ان کے بچوں نے ان کا مال میراث کے طور پر تقسیم کرلیا جبکہ مجھے میرا حق بالکل نہیں دیا گیا، اُن مرحوم کی دولت وثروت اور زمین جائداد درج ذیل شرح کے مطابق ہے:
١۔ پستہ کے باغات، ٢۔تین رہائشی مکان جو اُن مرحوم کے نام ہیں ٣۔ٹریکٹر اور اس کا سازوسامان ٤۔کنواں، ٹیوب ویل اور اس کی عمارت، پانی بجلی کا کنکشن اور کنویں بنانے کے لئے حکومت سے اجازت نامہ ٥۔منقولہ مال اور گھر کی ضروریات کا سامان، مذکورہ مطالب کو ملحوظ رکھتے ہوئے برائے مہربانی درج ذیل سوالوں کے جواب عنایت فرمائیں:
الف) کیا مجھے ان چیزوں میں کوئی حق ہے اور اگر ہے تو اس کی کیا صورت ہے؟
ب) یہ بات مدنظر رکھتے ہوئے کہ اس ١٣سال کی مدت میں مجھے میرا حق نہیں دیا گیا ہے کیا ان چند سال کی آمدنی میں بھی میرا حصہ ہے؟
ج) کیا ان چیزوں کی میراث دینے کے لئے، ان کی دور حاضر کی قیمت معیار ہے، یا میت کے انتقال کے وقت کی قیمت اور اگر میت کے انتقال کے وقت کی قیمت معیار ہے تو کیا مہنگائی وغیرہ کا اس میں حساب ہوگا؟
Answer: جواب:
الف) غیر منقولہ چیزوں (جیسے باغات وغیرہ) کا آٹھواں حصّہ اور اسی طرح منقولہ چیزوں کا آٹھواں حصّہ دونوں بیویوں کو ملے گا، جو برابر دونوں میں تقسیم کیا جائے گا ۔
ب) منقولہ مال کی آمدنی میں سے ، مذکورہ مدّت کے منافعہ کو ادا کریں اور احتیاط یہ ہے کہ غیر منقولہ چیزوں کے بارے میں بھی ایسا ہی کریں (یعنی مذکورہ مدت کا منافعہ ادا کریں)
ج) ادا کرتے وقت کی قیمت معیار ہے ۔
TotalPages : 103