تیسراسبق :قیامت کی عدالت کا نمونہ خود آپ کے وجود میں ہے

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق
دوسرا سبق:معاد زندگی کو معنی بخشتی ہے چوتھا سبق:معاد، فطرت کی جلوہ گاہ میں

چونکہ موت کے بعد کی زندگی اور قیامت کی عظیم عدالت کا مسئلہ اس محدود دنیا میں مقیّد انسان کے لئے ایک نئی بات ہے۔لہذا خد وند متعال نے اس عدالت کا ایک چھوٹا سا نمونہ ہمارے لئے اسی دنیا میں پیش کیا ہے،جس کا نام ”ضمیر(وجدان)کی عدالت“ہے۔لیکن یہ بات نہ بھولیں کہ ہم نے کہا ہے کہ یہ عدالت اس عظیم عدالت کا ایک چھوٹاسا نمونہ ہے۔
اس بات کی بیشتر وضاحت یوں ہے:
انسان،جوبھی اعمال انجام دیتا ہے ،ان کے سلسلہ میںکئی عدالتوںمیں اس کا مقدمہ چلتا ہے:
پہلی عدالت ،تمام کمزریوںاور نقائص کے باوجود وہی دنیوی اور انسانی عام عدالت ہے۔
اگر چہ ان ہی دنیوی عدالتوں کا جرائم کو کم کر نے میں نمایاں اثر ہو تا ہے،لیکن ان عدالتوں کی بنیاد ایسی ہے کہ ان سے مکمل انصاف کے نفاذ کی ہر گز توقع نہیں کی جاسکتی ہے۔
کیوں کہ اگر ان عدالتوں میں ناقص قوانین اور نالائق جج کا نفوذ ہو گا تو ان کی حالت معلوم ہے کیا ہوگی!رشوت ستانی ،پارٹی بازی :خصوصی روابط ،سیاست بازی اور اس قسم کے ہزاروں دوسرے مسائل اس عدالت کو اس قدر متاٴثر کر دیتے ہیں کہ اس کے ہونے سے نہ ہو ناہی بہتر ہے،کیونکہ ایسی عدالتوں کا وجود خودغرض لوگوں کے برے مقاصد پو رے ہونے کا سبب بنتا ہے!
اگر ان عدالتوں کے قوانین عدل وانصاف پر مبنی اور قاضی آگاہ اور با تقوی ٰبھی ہوں ،تب بھی بہت سے مجرم ایسے ہوتے ہیں جو اس قدر ماہرانہ چال چلتے ہیں۔کہ جرم کے آثار کو ہی نابود کر کے رکھدیتے ہیں۔
یا عدالت میں ایسی کاغذبازی کرتے ہیں اور ایسا داؤں پیچ مارتے ہیں کہ قاضی کے ہاتھ پاؤں باندھ کر قوانین کو بے اثر کردیتے ہیں۔
دوسری عدالت،جو اس عدالت سے منظم اور دقیق تر ہے وہ ”مکافات عمل“کی عدالت ہے۔
ہمارے اعمال کے کچھ اثرات ہو تے ہیں ،جو جلدی یا دیر سے رونما ہو کر ہمیں متاثر کرتے ہیں ۔اگر چہ یہ امر مطلق اور عام نہیں ہے ،لیکن کم ازکم بہت سے مواقع پر سچ ثابت ہوتا ہے۔
ہم نے ایسی حکومتیں بھی دیکھی ہیں جن کی بنیاد ظلم وستم پر تھی اور حکام جو چاہتے کر ڈالتے تھے،لیکن سر انجام اپنے ہی پھیلائے گئے جال میں پھنس گئے ہیں۔ان کے اعمال کے ردعمل(اثر)نے انھیں جکڑلیا اور ایسے زوال سے دوچار کر دیا کہ وہ بالکل نسیاًمنسیا ہو گئے ہیں اور لعنت ونفرین کے سوا ان کا نام ونشان تک باقی نہیں رہا ہے ۔چونکہ مکافا ت عمل وہی علت و معلول کے در میان رابطہ ہے ،اس لئے بہت کم لوگ ایسے ہیں جو چالاکی سے اس کی گرفت سے بچ نکلیں۔
اس عدالت کا نقص یہ ہے کہ یہ عمومی اور کلی نہیں ہے ،اس لئے اس عدالت کے ہوتے ہوئے ہم قیامت کی عظیم عدالت سے بے نیاز نہیں ہیں ۔
تیسری عدالت، جو اس سے بھی منظم اور دقیق تر ہے،وہ”ضمیر کی عدالت“ہے۔
حقیقت میں جس طرح نظام شمسی ایک عظیم اور حیرت انگیز نظام کے باوجود ایٹم کی ایک انتہائی چھوٹے ذرّہ کے اندر سمٹا ہوا ہے ،اسی طرح قیامت کی عظیم عدالت کا ایک چھوٹاساماڈل ہماری روح میں پایا جاتا ہے۔
انسان کے وجود کے اندر ایک مرموزطاقت ہے ،جسے فلاسفر نے ”عقل عملی“کا نام دیا ہے اور قرآن مجید کی اصطلاح میں اسے ”نفس لوامہ“کہا جاتا ہے اور آج اسے ”وجدان“اور ”ضمیر“کے نام سے جانتے ہیں۔
جوں ہی انسان کسی اچھے یا برے کام کو انجام دیتا ہے،فوراً یہ عدالت کسی شور وغل کے بغیر تشکیل پاتی ہے ،اور مکمل طور پر صحیح اور اصولوں پر مبنی محا کمہ شروع کرتی ہے اور حکم کے نتیجہ کونفسیاتی سزا یا جزا کی صورت میں نافذ کرتی ہے۔
یہ عدالت کبھی مجرموں کو اندر سے ہی ایسے کوڑے مار کر روحی اذیت پہنچاتی ہے کہ وہ دل سے موت کا استقبا ل کرتے ہیں اور اسے زندگی پر ترجیح دیتے ہیں اور اپنے وصیت نامہ میں لکھتے ہیں کہ ہم نے ضمیر کے اضطراب کی وجہ سے خود کشی کی ہے!
کبھی انسان کے ایک نیک کام انجام دینے کے نتیجہ میں اس قدر اس کی اہمیت افزائی کرتے ہے کہ اس میں وجد وسرور کی کیفیت پیدا ہوتی ہے ،وہ اپنے وجود میں ایک گہرا سکون محسوس کرتا ہے،دل کو لبھانے والا ایک ایسا سکون، جس کی لذت قابل بیان نہیں ہوتی ہے۔
اس عدالت کی عجیب خصوصیات ہیں:
۱۔اس عدالت میں قاضی،شاہد،حکم نافذ کر نے والا اور عدالت کی کاروائی دیکھنے والا سب ایک ہی ہے،وہی ضمیر کی طاقت ہے جو شہادت بھی دیتی ہے ،فیصلہ بھی کرتی ہے اور اس کے بعد آستین چڑھا کر اپنے حکم کو نافذ بھی کرتی ہے!
۲۔اس عدالت کا فیصلہ عام عدالتوں کے بر خلاف (کہ جن میں کیس کو کئی سال لگتے ہیں)فوری ہو تا ہے ،عام طور پر اس میں وقت نہیں لگتا ہے،البتہ کبھی جرم کے دلائل ثابت ہو نے اور دل کی آنکھوں کے سامنے سے غفلت کے پردے ہٹنے میں وقت کی ضرورت ہو تی ہے،لیکن دلائل پیش ہو نے کے بعد ،حکم فوری اور قطعی طورپر سنا دیا جا تا ہے۔
۳۔اس عدالت کا حکم ایک ہی مرحلہ میں انجام پاتا ہے،یہاں پر اپیل ،نظر ثانی اور سپریم کورٹ جیسی چیزوں کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے۔
۴۔یہ عدالت صرف سزائیں نہیں دیتی ہے بلکہ فرائض انجام دینے والوں کو جزا بھی دیتی ہے۔اس لئے یہ ایک ایسی عدالت ہے جس میں نیک وبد دونوں کے کیس کی تحقیق و شنوائی ہو تی ہے اور ان کے اعمال کے تناسب سے انھیں سزا یا جزا ملتی ہے۔
۵۔اس عدالت کی سزاؤں کی دنیا کی عام عدالتوں کی سزاؤں سے کوئی شباہت نہیں ہے ۔بظاہر نہ کوئی زندان ہے،نہ کوڑے،نہ تختہ دار اور نہ گولیوں کی مار،لیکن اس عدالت کا حکم مجرم کو اندر سے ایسا جلاتا ہے اور جیل میں ڈال دیتا ہے کہ اس کے لئے دنیا اپنی تمام وسعتوں کے باوجود تنگ ہو جاتی ہے ایسی کہ ایک جیل کی خوفناک اور تنگ و تاریک کال کوٹھری سے بھی زیادہ تنگ ہو جاتی ہے۔
مختصر یہ کہ عدالت اس دنیا کی عدالتوں کی جیسی نہیں ہے بلکہ قیامت کی عدالت کے مانند ہے۔
اس عدالت کی عظمت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن مجید نے اس کی قسم کھائی ہے اور اسے قیامت کی عدالت کے ساتھ ذکر کرتے ہوئے سورئہ قیامت کی آیت نمبر ۱سے ۴تک ارشاد فر ماتا ہے:
<لااقسم بیوم القیمة ولا اقسم بالنّفس اللّوّامةاٴیحسب الإنسان الّن نجمع عظامةبلٰی قادرین علی ان نّسوّی نبانہ
”میں روز قیامت کی قسم کھاتا ہوں اور برائیوں پر ملامت کرنے والے نفس کی قسم کھاتا ہوں۔کیا یہ انسان یہ خیال کرتا ہے کہ ہم اس کی ہڈیوں کو جمع نہ کرسکیں گے؟یقینا ہم اس بات پر قادر ہیں کہ اس کی انگلیوں کے پور تک درست کرسکیں۔“
لیکن ان تمام اوصاف کے باوجود ضمیر کی عدالت دنیوی ہو نے کی وجہ سے کچھ نقائص رکھتی ہے،جس کی وجہ سے یہ ہمیں قیامت کی عدالت سے بے نیاز نہیں کرسکتی ہے۔ کیونکہ:
۱۔ ضمیر کے حدود کے دائرہ میں تمام چیزیں نہیں آسکتی ہیں کیونکہ ضمیر کے حدود انسان کی فکر و تشخیص کے قلمرو کے مطابق ہوتے ہیں۔
۲۔ کبھی ایک ماہر دھو کہ باز اور چالباز انسان اپنے ضمیر کوبھی دھو کہ دے سکتاہے یعنی اپنے ضمیر کی آنکھوں میں بھی دھول جھونک سکتاہے۔
۳۔ کبھی بعض گناہگاروں کے ضمیر کی آواز اس قدر کمزور ہوجاتی ہے کہ وہ ان کے کانوں تک نہیں پہنچتی۔
لہذا چوتھی عدالت یعنی قیامت کی عظیم عدالت کی ضرورت واضح ہوجاتی ہے۔


غور کیجئے اور جواب دیجئے
۱۔ حقیقت میں انسان کامحاکمہ کتنی عدالتوں میں ہوتاہے؟
۲۔ پہلی عدالت کا نام اور اس کی خصوصیات بیان کیجئے۔
۳۔دوسری عدالت کی خصوصیات کیا ہیں؟
۴۔ تیسری عدالت کی خصوصیات کیا ہیں؟
۵۔ ضمیر کی عدالت کی خصوصیات اورنقائص بیان کیجئے۔

دوسرا سبق:معاد زندگی کو معنی بخشتی ہے چوتھا سبق:معاد، فطرت کی جلوہ گاہ میں
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma