ساتواں سبق: خداشناسی کے بارے میں قرآن مجید کا

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق
چھٹا سبق :قرآن مجید کے اعجاز کی ایک جھلک آٹھواںسبق: قرآن مجید اورجدید سائنسی انکشافات

طرز بیان

سب سے پہلے ہمیں اس معاشرے اور ماحول کا فکری اور ثقافتی اعتبار سے تجزیہ کر نا چاہئے ،جس میں قرآن مجید ناز ل ہوا ہے۔
تمام مورخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ،اس زمانے میں سر زمین حجاز دنیا کا پسماندہ ترین خطہ تھا اور عصر جاہلیت کے لوگوں کو وحشی یا نیم وحشی اقوام کے نام سے یاد کیا جاتاتھا۔
عقیدہ کے لحاظ سے وہ لوگ بت پرستی میں غرق تھے۔ان کی تہذیب وتمدن پر مختلف شکلوں میں پتھر اور لکڑی کے بنائے ہوئے بتوں کا منحوس سایہ وسیع پیمانے پر چھایا ہوا تھا،یہاں تک کہ کہا جاتا ہے کجھور کے بت بناکر ان کے سامنے دوزانو بیٹھ کر پوجا کرتے تھے ،لیکن قحط سالی کے وقت انھیں کھا جاتے تھے !
بیٹیوں سے نفرت کا یہ عالم تھا کہ انھیں انتہائی بے دردی سے زندہ در گور کر دیتے تھے ،اس کے باوجود فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں کہتے تھے !اور خداوند متعال کی ذات کو انسان کی حد تک گرادیتے تھے۔
توحید اور یکتا پرستی پر سخت تعجب کرتے تھے،جب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انھیں یکتا پرستی کی دعوت دی تو انہوں نے نہایت تعجب اور حیرانی کی حالت میں کہا:
<اٴجعل الاٰلھة إلٰھاًوّاحداً إنّ ھٰذا لشیء عجاب (سورہ/۵)
”کیا اس نے سارے خداؤں کو جوڑ کر ایک خدا بنادیا ہے یہ تو انتہائی تعجب خیز بات ہے۔“
جو بھی شخص ان کی خرافات ،ان کے جھوٹے افسانوں اور نظریات کے خلاف زبان کھولتا تھا ،وہ اسے دیوانہ کہتے تھے ۔
ان کے معا شرے پر قبائلی نظام انتہائی شدت سے حکم فر ما تھا اور مختلف قبیلوں کے درمیان اختلا فات کا یہ عالم تھا کہ ان کے در میان جنگ کے شعلے کبھی خاموش نہیں ہو تے تھے ،بار بار روئے زمین پر ایک دوسرے کے خون کی ہولی کھیلتے تھے،قتل و غارت گری ان کا روز مرہ کا معمول بن گیا تھا اور اس پر فخر و مباہات کرتے تھے۔
ان کے اہم ترین مر کزی شہر،مکہ میںچند گنے چنے ہی پڑھے لکھے افراد تھے اور عالم ودانشور تو شاذو نادر ہی پائے جاتے تھے۔
اسی ماحول اور معاشرے میں ایک ایسا شخص اٹھا ،جس نے نہ کسی مدرسہ کا رخ کیا تھا اور نہ کسی استاد کے سامنے زانوئے ادب تہ کیا تھا وہ ایک ایسی کتاب لے آیا جو مفہوم و معنی کے لحاظ سے اس قدر عظیم ہے کہ چودہ صدیاں گزرنے کے بعد بھی صاحبان علم ودانش اس کی تفسیر میں مشغول ہیں اور ہر دور میں نئے نئے حقائق کا انکشاف کرتے ہیں ۔
قرآن مجید کا ئنات اور اس کے نظام کے بارے میں نہایت دقیق حساب شدہ تصویر پیش کر تا ہے ۔تو حید کو اس کی مکمل صورت میں بیان کر تا ہے ۔زمین و آسمان کی پیدائش اور شب وروز ،چاند ،سورج،جمادات ونباتات اور انسان کی تخلیق کے اسرار کو خدائے وحدہ لاشریک کی نشانیوں کی دلیل کے طور پر اپنی مختلف آیات میں مختلف انداز،تعبیرات اور تشبیہات کے ساتھ پیش کر تا ہے۔
کبھی وہ انسان کے وجود کی گہرائیوں میں اتر کر فطری توحید کی بات کر تا ہے:
<فإذا رکبوا فی الفلک دعوا اللّٰہ مخلصین لہ الدّٰین فلمّا نجّٰھم الی البرّ اذا ھم یشرکون (سورہ عنکبوت/۶۵)
”پھر جب یہ لوگ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو ایمان و عقیدہ کے پورے اخلاص کے ساتھ خدا کو پکارتے ہیں،پھر جب وہ نجات دے کر انھیں خشکی تک پہنچا دیتا ہے تو فوراًشرک اختیار کر لیتے ہیں۔“
کبھی عقل وشعور کے ذریعہ استد لال کرتے ہوئے توحید کو ثابت کرتا ہے اور اس وسیع کائنات اور اپنے نفس کے بارے میں غور وفکر کر نے کی دعوت دیتا ہے ۔زمین وآسمان ،حیوانات ،پہاڑوں،سمندروں ،بارش کے برسنے ،باد نسیم کے جھونکوں اور انسان کے جسم و روح کے انتہائی دقیق،منظم اور پیچیدہ تخلیقی اسرار و رموز سے پر دہ اٹھا تا ہے۔
خداوند متعال کی صفات کو بیان کر نے کے لئے انتہائی گہرے اورد لکش طریقے کا انتخاب کرتا ہے ۔ایک جگہ فر ماتا ہے:
<لیس کمثلہ شیء (سورہ شوری/۱۱)
”کوئی بھی چیز اس کے مانند نہیں ہے“
دوسری جگہ پر فر ماتا ہے:
”ھواللّٰہ الّٰذی لا إلٰہ إلاّ ھو عالم الغیب والشّھادة ھو الرّحمٰن الرّحیم ھواللّٰہ الّذی لا إلٰہ إلاّھو الملک القدّوس السّلٰم المؤمن المھیمن العزیز الجبّار المتکبّر سبحٰن اللّٰہ عمّا یشرکون ھواللّٰہ الخالق الباریء المصوّر لہ الاسماء الحسنیٰ یسبّح لہ مافی السمٰوات والارض وھو العزیز الحکیم
( سورہ حشر/۲۲۔۲۴)
”وہ خدا وہ ہے جس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے اور وہ حاضر و غائب سب کا جاننے والا،عظیم اور دائمی رحمتوں کا مالک ہے۔وہ اللہ وہ ہے جس کے علاوہ کو ئی خدا نہیں ہے ۔وہ بادشاہ، پاکیزہ صفات،بے عیب، امان دینے والا، نگرانی کر نے والا، صاحب عزت ،زبر دست اور کبر یائی کا مالک ہے ۔اللہ ان تمام باتوں سے پاک وپاکیزہ ہے جو مشرکین کیا کرتے ہیں۔وہ ایسا خدا ہے جو پیدا کر نے والا ،ایجاد کر نے والا اور صورتیں بنانے والا ہے ۔اس کے لئے بہترین نام ہیں، زمین و آسمان کا ہرذرہ اسی کے لئے محو تسبیح ہے اور وہ صاحب عزت و حکمت ہے۔“
خداوند متعال کے علم کی توصیف اور اس علم کے لا محدود ہو نے کے بارے میں حسین ترین تعبیر کے ساتھ یوں بیان کر تا ہے:
<ولواٴنّما فی الارض من شجرة اقلام والبحر یمدّہ من بعدہ سبعة اٴبحرٍما نفدت کلمٰة اللّٰہ (سورہ لقمان/۲۷)
”اور اگر روئے زمین کے تمام درخت قلم بن جائیں اور (سیا ہی کے طور پر)سمندر کا سہارا دینے کے لئے سات سمندر اور آجائیں تو بھی کلمات الہٰی تمام ہو نے والے نہیں ہیں“
خداوند متعال کے تمام چیزوںپر حاوی ہو نے اور اس کے ہر جگہ حاضر و ناظر ہو نے کے سلسلہ میں قرآن مجید ایسی اعلیٰ تعبیرات پیش کرتا ہے کہ وہ تعبیرات صرف قرآن مجید سے ہی مخصوص ہیں:
<وللّٰہ المشرق والمغرب فاینما تولّوا فثمّ وجہ اللّٰہ(سورہ بقرہ/۱۱۵)
”اور اللہ کے لئے مشرق بھی ہے اور مغرب بھی،لہذا تم جس جگہ کی طرف رخ کر لو گے سمجھو وہیں خدا موجود ہے“
<وھو معکم این ماکنتم واللّٰہ بما تعملون بصیر(سورہ حدید/۴)
”اور وہ تمھارے ساتھ ہے تم جہاں بھی رہو اور وہ تمھارے اعمال کا دیکھنے والا ہے۔“
جب معاد اور قیامت کی بات کرتا ہے تو مشرکین کے تعجب اور انکار کے مقابلہ میں کہتا ہے:
”(انسان اپنی خلقت کو بھول کر کہتا ہے)ان بوسیدہ ہڈیوں کو کون زندہ کرسکتا ہے؟“
”آپ کہدیجئے کہ جس نے پہلی مرتبہ پیدا کیا ہے وہی زندہ بھی کرے گا اور وہ ہر مخلوق کا بہتر جاننے والا ہے ۔
”اس نے تمھارے لئے ہرے درخت سے آگ پیدا کردی ہے تو تم اس سے ساری آگ روشن کرتے رہو۔(وہ خدا جس نے آگ کے شعلوں کے ساتھ پانی کو بھی وجود بخشا ہے وہی مرنے کے بعد پھر زندہ کرسکتا ہے) کیا جس نے زمین وآسمان کو پیدا کیا ہے وہ اس بات پر قادر نہیں ہے کہ ان کا مثل دوبارہ پیدا کر دے؟یقینا ہے اور وہ بہترین پیدا کر نے والا اور جاننے والا ہے اس کا امر صرف یہ ہے کہ کسی شے کے بارے میں یہ کہنے کا ارادہ کر لے کہ ہوجا،تو وہ شے ہو جاتی ہے۔“ (سورہ یٓس/۷۸۔۸۲)
جب فوٹو گرافی اور ٹیب ریکارڈ ر کا تصور بھی نہیں تھا،قرآن مجیدنے انسان کے اعمال کے بارے میں اس وقت فر مایا ہے:
<یومئذٍ تحدّث اخبارھباٴنّ ربّک اوحیٰ لھا
(سورہ زلزل/۴۔۵)
”اس(قیامت کے)دن وہ (زمین)اپنی خبریں بیان کرے گی کہ تمھارے پرور دگار نے اسے اشارہ کیا ہے۔“
اور کبھی قرآن مجید ہاتھ ،پاؤں اور بدن کی جلد کی گواہی کے بارے میں ذکر کرتا ہے:
<الیوم نختم علیٰ افواھھم وتکلّمنا اٴیدیھم وتشھد اٴرجلھم (سورہ یٓس/۶۵)
”آج ہم ان کے منہ پر مہر لگا دیتے ہیں اور ان کے ہاتھ ہم سے بولیں گے اور ان کے پاؤں گواہی دیں گے۔“
<وقالوا لجلودھم شھد تم علینا قالوا اٴنطقنااللّٰہ الذی انطق کل شئی (سورہ فصلت/۲۱)
”اور وہ اپنے اعضاء سے کہیں گے کہ تم نے ہمارے خلاف کیسے شہادت دیدی ؟تو وہ جواب دیں گے ہمیں اسی خدا نے گو یا بنا یا ہے جس نے سب کو
گو یائی عطا کی ہے۔“
قرآن مجیدکے معارف کی قدر وقیمت،اس کے مضامین ومفاہیم کی عظمت اور ان کے معار ف کا خرافات سے پاک و منزّہ ہو نا اس وقت واضح ہو تا ہے جب ہم اس کا مقائسہ موجودہ تحریف شدہ توریت و انجیل سے کرتے ہیں ،مثلاًہم دیکھیں کہ آدم کی تخلیق کے بارے میں توریت کیا کہتی ہے اور قرآن مجیدکیا کہتا ہے؟
انبیاء علیہم السلام کی داستانوں کو توریت کس انداز میں پیش کرتی ہے اور قرآن مجید کا انداز بیان کیا ہے؟
توریت اور انجیل خدا وند متعال کی کیسے توصیف کرتی ہیں اور قرآن مجید کس طرح خدا کی توصیف کرتا ہے؟
اس صورت میں قرآن مجید اور توریت وانجیل کے در میان فرق واضح طور پر معلوم ہو جائے گا۔
(اس سلسلہ میں مزید تفصیلات کے لئے ”رہبران بزرگ“نامی فارسی کتاب کا مطا لعہ کریں)


 غورکیجئے اور جواب دیجئے
۱۔جس معاشرہ میں قرآن مجید نازل ہوا ہے،اس کے ماحول کی خصوصیات بیان کیجئے۔
۲۔اس معاشرے میں زندگی بسر کرنے والوں کے افکار پر بت پرستی نے کیا اثرات ڈالے تھے؟
۳۔فطری اور استدلالی توحید کے در میان کیا فرق ہے؟
۴۔پروردگار عالم کی معرفت اور اس کی صفات کے بارے میں قرآن مجید کے بیان کی روش کیسی ہے ؟مثالوں کے ساتھ واضح کیجئے۔
۵۔قرآن مجید کے مطالب و مفاہیم کو بہترین صورت میں کیسے سمجھا جاسکتا ہے؟

چھٹا سبق :قرآن مجید کے اعجاز کی ایک جھلک آٹھواںسبق: قرآن مجید اورجدید سائنسی انکشافات
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma