آٹھواں سبق:”امر بین الامرین“(یاوسطی مکتب)کیا ہے؟

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق
ساتواں سبق : ارادہ و اختیارکی آزادی پر واضح ترین دلیل نواں سبق :ہدایت وگمراہی خدا کے ہاتھ میں ہے


۱۔”جبر“کے مقابلہ میں ”عقیدئہ تفویض“

افراط پر مبنی”عقیدئہ جبر“کے مقابلہ میں ”تفویض“کے نام سے ایک دوسرا مکتب موجود ہے۔یہ مکتب ”تفریط“پر مبنی ہے۔
عقیدئہ تفویض کے معتقد افراد کا کہنا ہے :خدا وند متعال نے ہمیں پیدا کر نے کے بعد تمام کام ہمارے سپرد کر دیئے ہیں اور اب خدا کا ہمارے اعمال وافعال سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔لہذا ہم اپنے اعمال کے قلمرو میں مکمل اور مستقل طور پر آزاداور حاکم ہیں!
بیشک،یہ عقیدہ بھی ”عقیدئہ توحید“کے بالکل موافق نہیں ہے ،کیونکہ ”توحید“نے ہمیں اس بات کی تعلیم دی ہے کہ تمام کا ئنات خدا کی ملکیت ہے اور کوئی چیز اس کی دسترس سے خارج نہیں ہے،حتی کہ ہمارے اعمال ہمارے ارادہ کی آزادی کے باوجود اس کی دسترس اور قدرت سے ہرگز باہر نہیں ہوسکتے ورنہ شرک لازم آئے گا۔
واضح تر عبارت میں:ہم دوخداؤں کے قائل نہیں ہو سکتے ہیں کہ ان میں سے ایک بڑا خدا ہو جس نے کائنات کو پیدا کیا ہے اور دوسرا چھوٹا خدا یعنی ”انسان“جو اپنے تمام اعمال وافعال میں اس قدر آزاداور با اختیار ہے کہ خدا وند متعال بھی اس کے اعمال و افعال پر اثر انداز نہیں ہو سکتا!
یہ واضح شرک ہے اور دو یا چند خداؤں کی پرستش ہے ۔حق بات یہ ہے کہ ہم انسان کو آزاد اور با اختیار بھی تسلیم کریں اور خدا وند متعال کو اس پر اور اس کے اعمال پر حاکم بھی مانیں۔

۲۔در میانی مکتب

باریک نکتہ یہی ہے کہ ہم یہ خیال نہ کریں کہ ان مذکورہ دو باتوں کے در میان تضاد موجود ہے ۔اس امر میں گہری فکر کی ضرورت ہے کہ ہمیں خدا وند متعال کی ”عدالت“کو بھی مکمل طور پر قبول کر نا چاہئے ،اس کے بندوں کے لئے ”آزادی“اور”ذمہ داری“ کا بھی قائل ہو نا چاہئے ،اس کے علاوہ پوری کائنات پر اس کی حاکمیت اور توحید کابھی قائل ہو نا چاہئے اور یہ وہی چیز ہے جسے”امربین الامرین “سے تعبیر کیاگیا ہے۔(یعنی وہ عقیدہ جو افراط وتفریط کے در میان واقع ہوا ہے)
چونکہ یہ بحث ذرا پیچیدہ اور دقیق ہے،لہذا ہم اس کو ایک مثال سے واضح کرتے ہیں۔
فرض کیجئے آپ بجلی سے چلنے والی ایک ریل گاڑی میں سفر کر رہے ہیں اور اس ٹرین کے ڈرائیور بھی آپ ہی ہیں ۔ٹرین کے پورے راستہ پر بجلی کا ایک قوی تارکھینچا گیا ہے اور ٹرین کی چھت پر لگا ہوا ایک مخصوص دائرہ (کڑا)بجلی کے اس تار سے ملا ہوا ہے اور حر کت کر رہا ہے اور لمحہ بہ لمحہ بجلی کو ایک قوی مر کز سے ٹرین کے انجن میں اس طرح منتقل کر رہا ہے کہ اگر ایک لمحہ کے لئے بھی اس قوی مرکز سے ٹرین تک بجلی نہ پہنچے تو ٹرین فوراً رک جائے گی۔
اس ٹرین کے ڈرائیورکی حیثیت سے بیشک آپ آزاد ہیں کہ راستے میں جہاں پر بھی چاہیں ٹرین کو روک سکتے ہیں ،اسے آہستہ یا تیز چلا سکتے ہیں لیکن اس تمام آزادی کے باوجود بجلی کے مرکز یعنی بجلی گھر میں بیٹھا ہوا شخص جب چاہے بجلی کو منقطع کر کے آپ کی ٹرین کو روک سکتا ہے ۔کیونکہ آپ کی ٹرین کی حر کت بجلی کی مر ہون منت ہے اور اس کی چابی مرکز برق میں بیٹھے ہوئے شخص کے ہاتھ میں ہے۔
اس مثال میں غور کر نے کے بعد واضح ہو جاتا ہے کہ ٹرین کا ڈرائیور تمام تر آزادی ،اختیار اور ذمہ داری کے باوجود کسی اور کے کنٹرول میں ہے اور یہ دونوں امر ایک دوسرے کے منافی نہیں ہیں۔
دوسری مثال:
فرض کیجئے کو ئی شخص کسی بیماری یا حادثہ کی وجہ سے اپنے ہاتھوں کے اعصاب سے محروم ہو جاتا ہے اور اپنے ہاتھوں کو حرکت دینے پر قادر نہیں ہو تا ہے۔اگر اس کے اعصاب کو ایک خفیف اور ملایم برقی رو سے ارتباط دیا جائے تو اس کے اعصاب گرم ہو کر دوبارہ حرکت میں آسکتے ہیں ۔اب یہ شخص اسی ہاتھ سے کوئی بھی کام انجام دے سکتا ہے۔مثلاً اگر یہ شخص اسی ہاتھ سے کہ جس سے برقی روکا اتصال ہے کسی پر ظلم کرے ،کسی کے چہرے پر طمانچہ مارے یا کسی بے گناہ کے سینے میں چھرا گھونپ دے تووہ اپنی اس حر کت پر یقینا جواب دہ ہو گا ۔کیونکہ اس نے اپنی قدرت اور اختیار سے اس کام کو انجام دیا ہے۔اور قادر ومختار شخص اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہو تا ہے ۔
لیکن اس کے باوجود اس انسان کے ہاتھ میں برقی رو داخل کر نے والا شخص بھی اس پر حاکمیت رکھتا ہے اور یہ انسان اپنی تمام آزادی و اختیار کے باوجود اس کے قبضئہ قدرت میں ہے۔
اب ہم اصلی مطلب کی طرف پلٹتے ہیں:
خدا وند متعال نے ہمیں ہمت اور طاقت عطا کی ہے ،ہمیں عقل وہوش اور جسمانی طاقت سے نوازا ہے ۔یہ تمام وسائل ہمیں لمحہ بہ لمحہ خدا وند متعال کی طرف سے عطا ہو رہے ہیں اگر ایک لمحہ کے لئے بھی خداوند متعال کا لطف وکرم ہم پر رک جائے اور اس سے ہمارا رابطہ منقطع ہو جائے تو ہم نابود ہو کر رہ جائیں گے۔
اگر ہم کوئی کام انجام دیتے ہیں تو یہ اسی کی طرف سے عطا کردہ قوت کے نتیجہ میں ہے جو لمحہ بہ لمحہ جاری ہے حتی کہ ہماری آزادی اور اختیار بھی اسی کی طرف سے عطا کی ہوئی نعمت ہے اور وہ چاہتا ہے کہ ہم آزاد ہوں اور اس کی عظیم نعمتوں کے سایہ میں کمال کی منزل تک پہنچنے کا راستہ طے کریں۔
پس ہم اختیار اور ارادہ کی آزادی کے باوجود اس کے قبضہ قدرت میں ہیں اوراس کی بار گاہ میں سر جھکائے ہو ئے ہیں اور اس کی حاکمیت کے قلمرو سے باہر نہیں ہو سکتے ۔ہم تمام تر قدرت اور توانائی کے باوجود اسی کے مرہون منت ہیں اور اس کے بغیر کچھ بھی نہیں ہیں۔”الامر بین الامرین“کا یہی معنی و مفہوم ہے ،کیو نکہ ہم نے کسی بھی موجود کو اس کے مثل قرار نہیں دیا ہے کہ شرک لازم آئے اور نہ ہی خدا کے بندوں کو ان کے اعمال میں مجبور جا نتے ہیں کہ ظلم لازم آئے ۔(غور فر مائیے!)۔
ہم نے یہ درس مکتب اہل بیت علیہم السلام سے حاصل کیا ہے،کیو نکہ ان حضرات سے سوال کیا جاتا تھا کہ کیا جبر و تفویض کے در میان کوئی تیسرا راستہ بھی ہے؟ تو وہ فر ماتے تھے :
”ہاں ،تیسرا راستہ بھی موجود ہے جو زمین و آسمان کے در میان فاصلہ سے وسیع تر ہے۔“(اصول کافی:ج۱،ص۱۲۱ باب الجبروالقدر والامر بین الامرین)

۳۔قرآن مجید اور جبرو اختیار کا مسئلہ

قرآن مجید انسان کے ارادہ میں آزادی کے مسئلہ کو واضح طور پر ثابت کرتا ہے اور اس سلسلہ میں قرآن مجید میں سینکڑوں آیات ذکر ہوئی ہیں۔
الف۔وہ تمام آیات جن میں امر ونہی ،ذمہ داریوں اوراصول وقوانین کا ذکر کیا گیا ہے ،اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ انسان اپنے ارادہ و اختیار میں آزاد ہے، کیونکہ اگر انسا ن آزاد نہ ہو تو اس کو بعض کاموں کا حکم دینا اور بعض کاموں سے روکنا لغو و بیہودہ شمار ہو گا۔
ب۔بد کاروں کی مذمت اور نیک لوگوں کی ستائش میں بیان شدہ آیات انسان کے خود مختار ہو نے پر دلالت کرتی ہیں ۔کیونکہ ”جبر“کی صورت میں مذمت اور مدح و ستائش بے معنی ہو گی ۔
ج۔جن تمام آیات میں قیامت سے متعلق سوال ،اور اس دن کے فیصلے کا دن ہو نے اور پھر اس کے نتیجہ میں جزاو سزا اور جنت و جہنم کا ذکر ہوا ہے ،وہ انسان کے با اختیار ہو نے پر دلا لت کر تی ہیں ۔کیونکہ جبر کی صورت میں ان آیات کا کوئی مفہوم نہیں ہو گا اور سوال و جواب،روز قیا مت کی عدالت میں پیشی اور بد کاروں کو سزا ملنا ”ظلم محض“شمار ہو گا۔
د۔انسان کو اس کے ا عمال کا مرہوں منت قرار دینے والی آیات،جیسے:
”کل نفس بما کسبت رھینة “ ( سورہ مدثر/۳۸)
”ہر نفس اپنے اعمال میں گرفتار ہے“
”کلّ اُمری ءٍ بما کسبت رھین“ (سورہ طور/۲۱)
”ہرشخص اپنے اعمال کا گر وی ہے ۔“
یہ آیات واضح طور پر انسان کے صاحب اختیار ہونے کو ثابت کرتی ہیں ۔
ھ۔<إنا ھدینا السّبیل إمّا شاکراًوامّا کفوراً
( سورہ دہر/۳)
”یقینا ہم نے اسے راستہ کی ہدایت دیدی ہے چاہے وہ شکر گزار ہو جائے یا کفران نعمت کر نے والا ہوجائے“
مذکورہ آیت بھی ہمارے اس مدعا کو ثابت کرتی ہے
قرآن مجید میں بعض ایسی تعبیرات وارد ہو ئی ہیں جو”امر بین الامرین “کے عقیدہ پر دلالت کرتی ہیں ۔لیکن بعض ناآگاہ لوگوں نے غلط فہمی سے ان آیات کو عقیدہ جبر کے حق میں ثابت کر نے کی کوشش کی ہے،مثلاً:
<وما تشاء ون إلاّان یشاء اللّٰہ (سورہ دہر/۳۰)
”اور تم لوگ تو صرف وہی چاہتے ہو جو پرور دگار چاہتا ہے۔“
واضح ہے کہ مذکورہ آیت اور اس جیسی دوسری آیات انسان سے اختیار کو سلب کر نا نہیں چاہتی ہیں بلکہ اس حقیقت کو ثابت کرنا چاہتی ہیں کہ تم تمام اختیارات اور آزادی کے باوجود خدا وند متعال کے قبضہ قدرت میں ہو۔


غور کیجئے اور جواب دیجئے
۱۔”تفویض“سے کیا مراد ہے؟اور اس عقیدہ میں کونسا عیب ہے؟
۲۔”امربین الامرین“کے عقیدہ کی تعلیم ہم نے ائمہ اہل بیت (ع)سے حاصل کی ہے ،اس مطلب کی مثال کے ساتھ وضاحت کیجئے۔
۳۔”جبر“و”اختیار“ کے مسئلہ کے بارے میں قرآن مجید کی آیات کیا کہتی ہیں؟
۴۔اگر ہم جبر کے عقیدہ کو صحیح جان لیں تو پھر قیا مت کے دن،جنت و جہنّم اور سوال و جواب کے عقیدہ پر کیا اثر پڑے گا؟
۵۔کیا ”وما تشا ء ون الاّ ان یشاء اللّٰہ “اور اس جیسی دوسری آیات ”جبر“پر دلالت کرتی ہیں؟
 

ساتواں سبق : ارادہ و اختیارکی آزادی پر واضح ترین دلیل نواں سبق :ہدایت وگمراہی خدا کے ہاتھ میں ہے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma