چھٹاسبق:امامت ،سنّت نبی کی روشنی میں

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق
پانچواں سبق:قرآن اور امامت ساتواں سبق:حدیث ”منزلت“اور حدیث ”یوم الدار“

اسلامی احادیث سے مربوط کتابوں ،بالخصوص اہل سنت بھائیوں کی طرف سے تاٴلیف کی گئی کتابوں کا مطالعہ کر نے کے دوران انسا ن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کی گئی احادیث کی ایک کثیر تعداد سے روبرو ہو تا ہے جو واضح طور پر حضرت علی(ع) کی امامت و خلافت کو ثابت کرتی ہیں۔
حیرت کی بات ہے کہ اتنی احادیث موجود ہو نے کے باوجود اس مسئلہ کے بارے میں کسی قسم کا شک وشبہہ باقی نہیں رہ جاتا تو پھر ایک گروہ اہل بیت(ع) کی راہ سے ہٹ کر کو ئی دوسری راہ کیسے اختیار کر لیتاہے؟
یہ احادیث ،جن میں سے بعض کے اسناد سینکڑوں تک ہیں (جیسے حدیث غدیر) اور بعض کے اسناد دسیوں تک اور دسیوں مشہور اسلامی کتا بوں میں نقل ہو ئی ہیں ،ایسی واضح اور روشن ہیں کہ اگر ہم تمام گفتگوؤں کو نظر انداز کردیں اور کسی کی تقلید کر نا چھوڑ دیں،تو ہ مسئلہ ہمارے لئے ایسا واضح ہو جائے گا کہ کسی اور دلیل کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔
ان احادیث کے مخزن سے ہم یہاں پر چند مشہور احادیث کو نمونہ کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اس موضوع پر بیشتر اور گہرے مطالعہ کا شوق رکھنے والوں کے لئے ہم بعض منابع(کتابوں) کی نشاندہی کرتے ہیں تاکہ ان سی استفادہ کریں۔(۱)
۱۔حدیث غدیر
مورخین اسلام کی ایک بہت بڑی تعداد نے لکھا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی زندگی کے آخری سال حج بجا لائے ۔فریضہ حج کو بجالانے کے بعد جبکہ حجاز کے مختلف علاقوں سے حج کے لئے آئے ہوئے آپ کے نئے اور پرانے صحابیوںاور اسلام کے عاشقوں کی ایک بڑی تعداد آپ کے ساتھ تھی ۔مکہ سے واپسی پر یہ عظیم اجتماع ،مکہ اور مدینہ کے در میان واقع ”جحفہ“نامی ایک جگہ سے گزرتے ہوئے ”غدیر خم“کے نام پر ایک خشک اور گرم بیابان میں پہنچ گیا ۔در حقیقت یہ ایک چورا ہا تھا ۔جہاں پر حجاز کے تمام لوگوں کے راستے جدا ہوتے تھے۔
یہاں پر حجاز کے مختلف علاقوں کی طرف جانے والے مسلمانوں کے ایک دوسرے سے جدا ہونے سے پہلے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سب کو رکنے کا حکم دیا۔ جو آگے بڑھے تھے انھیں واپس آنے کا حکم دیا اور پیچھے سے آنے والوں کا انتظار کیا گیا،اس طرح سب ایک جگہ جمع ہو گئے ۔ہوا انتہائی گرم اور دھوپ نہایت جھلسا دینے والی تھی۔بیابان میں دوردور تک کہیں کوئی سائبان نظر نہیں آرہا تھا۔مسلمانوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امامت میں ظہر کی نماز پڑھی ۔جب ان سب نے نماز کے بعد اپنے خیموں کی طرف جانا چاہا تو پیغمبر اسلام نے حکم دیا کہ سب لو گ ٹھہر جائیں اور ایک مفصل
۱۔بیشتر وضاحت کے لئے کتاب”المراجعات“،”الغدیر“اور ”نوید امن وامان“کی طرف رجوع کریں۔
خطبہ کے ضمن میں ایک اہم الہٰی پیغام کو سننے کے لئے آمادہ ہو جائیں ۔
اونٹوں کے پالانوں کا ایک منبر بنایا گیا اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس پر تشریف لے گئے آپ نے حمد وثنائے الہٰی کے بعد لوگوں سے مخاطب ہو کر فرمایا:
میں خدا کی دعوت کو لبیک کہتے ہوئے جلدی ہی تمھارے درمیان سے رخصت ہونے والا ہوں۔ میں ذمہ دار ہوں اور تم لوگ بھی ذمہ دار ہو ۔ تم لوگ میرے بارے میں کس طرح کی شہادت دیتے ہو؟
لوگوں نے بلند آواز سے کہا:
” نشہد انک قد بلغت و نصحت و جہدت فجزاک اللّٰہ خیرا“
”ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے رسالت کی ذمہ داریاں نبھائیں اور ہماری بھلائی کے لئے ہماری نصحیت کی اور ہماری ہدایت میں نہایت کوشش کی،خداوند متعال آپ کو جزائے خیردے۔“
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تم لوگ خدا کی وحدانیت ، میری رسالت اور قیامت کی حقیقت اور اس دن مردوں کے دوبارہ زندہ ہونے کی شہادت دیتے ہو؟
جواب میں سب نے یک زبان ہوکر کہا: جی ہاں ، ہم گواہی دیتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: خداوندا! گواہ رہنا
آپ نے دوبارہ فرمایا: اے لوگوں ! کیا میری آواز سن رہے ہو؟انہوں نے کہا: جی ہاں۔
اس کے بعد پورے بیابان میں چاروں طرف خاموشی چھاگئی اور ہوا کی سنسناہٹ کی آواز کے علاوہ کوئی دوسری آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔
پیغمبرا سلام نے فرمایا: اب بتاؤ کہ ان دو گرانقدر چیزوں کے ساتھ تم لوگ کیسا سلوک کروگے جومیں تمھارے درمیان یادگارکے طور پر چھوڑے جارہاہوں؟
مجمع میں سے کسی نے بلند آورز سے سوال کیا: کون سی دوگرانقدر چیزیں، یا رسول اللہ؟!
پیغمبر نے فرمایا: پہلی چیز ”ثقل اکبر“ یعنی کتاب الہی”قرآن مجید“ہے۔ اس کے دامن کو ہرگز نہ چھوڑنا تا کہ گمراہ نہ ہوجاؤ۔ اور دوسری گرانقدر یادگار چیز میرے اہل بیت ہیں۔ خداوند لطیف و خبیر نے مجھے خبردی ہے کہ یہ دوچیزیں ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہیں ہونگیں یہاں تک کہ بہشت میں مجھ سے مل جائیں، ان دو نوں سے آگے بڑھنے کی کوشش نہ کرنا ورنہ ہلاک ہوجاؤگے۔ اور ان سے پیچھے بھی نہ رہنا، کیونکہ اس صورت مین بھی ہلاک ہوجاؤگے۔
اس دوران اچانک آپ(ع) نے اپنی نظریں ادھر اُدھردوڑائیں، جیسے کہ آپ کوکسی کی تلاؤ تھی۔ جوں ہی آپ کی نظرحضرت علی(ع) پر پڑی، آپ جھک گئے اور ان کا ہاتھ پکڑ کر انہیں اتنا بلند کیا کہ دونوں کی بغلوں کی سفیدی دکھائی دے رہی تھی۔ سب لوگوں نے حضرت علی (ع) کو دیکھا اور انھیں پہچان لیا۔
اس موقع پر آنحضرت نے اور زیادہ بلند آواز کے ساتھ رفرمایا:
ایّھا الناس ! من اولی النّاس بالمومنین من انفسھم؟
لوگو! لوگوں میں سے کون شخص مومنین پر خود ان سے بھی زیادہ سزاورا ہے؟
سب نے جواب میں کہا: خدا اور س کا رسول(ع) بہتر جانتاہے۔
پیغمبر نے فرمایا:
” خداوند متعال میرامولا اور رہبر ہے، اور میں مؤمنین کا مولا ورہبر ہوں اور ان کی نسبت خود ان سے بھی زیادہ حق رکھتاہوں۔“
اس کے بعد فرمایا:
”فمن کنت مولاہ فعلی مولاہ“
”جس جس کا میں مولا اور رہبر ہوں، اس اس کے علی(ع) بھی مولاہیں“
آنحضرت نے اس جملہ کوتین مرتبہ دہرایا، بعض راویان حدیث کے مطابق اس جملہ کو چار مرتبہ دہرایا، اس کے بعد اپنے سر کو آسمان کی طرف بلند کرکے فرمایا:
”اللّہم وال من والاہ و عاد من عاداہ واحب من احبہ، وابغض من ابغضہ، وانصرمن نصرہ، واخذل من خذلہ، وادار الحق معہ حیث دار“
”خداوندا! اس کے دوستوں کو دوست رکھ اور س کے دشمنوں سے دشمن رکھ، جو شخص اسے محبوب رکھے اسے محبوب رکھ اور اس شخص سے بغض رکھ جس کے دل میں اس کا بغض ہو، اس کے دوستوں کی یاری فرما اور اس کا ساتھ چھوڑنے والوں کو محروم فرما، حق کو اس کے ساتھ پھیر جدھر وہ پھرے “
اس کے بعد فرمایا:
”تمام حاضرین اس خبر کو ان لوگوں تک پہنچائیں جو اس دقت یہاں پر حاضر نہیں ہیں۔“
ابھی لوگ متفرق نہیں ہوئے تھے کہ جبرئیل امین وحی الہی لے کرنازل ہوئے اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے یہ آیہ شریفہ لے آئے:< الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی(سورہ مائدہ/۳))
”آج میں نے تمھارے لئے تمھارے دین کو کامل کردیا ہے اور اپنی نعمتوں کو تم پر تمام کردیاہے“
اس موقع پر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فر مایا:
”اللّٰہ اکبر ،اللّٰہ اکبر ،علی اکمال الدین واتمام النعمة ورضی الرب برسالتی والو لایة لعلی من بعدی۔“
”خدا کی بزرگی کا اعلان کرتا ہوں ،خدا کی بزرگی کا اعلان کر تا ہوں، اس لئے کہ اس نے اپنے دین کو کامل اور اپنی نعمت کو ہم پر تمام کر دیا ہے اور میری رسالت اور میرے بعد علی(ع) کی ولا یت سے راضی ہو نے کا اعلان فر مایا ہے۔“
اس وقت لوگوں میں شور وغوغا بلند ہوا،لوگ حضرت علی (ع) کو اس مرتبہ کی مبارک باد دے رہے تھے ،یہاں تک کہ ابوبکر اور عمر نے لوگوں کے اجتماع میں علی(ع) سے مخاطب ہو کر یہ جملہ کہا:
”بخ بخ لک یابن ابیطالب اصبحت و امسیت مولای ومولا کل مؤمن ومؤ منة“
”مبارک ہو آپ کو ،مبارک ہو آپ کو ،اے فرزند ابیطالب آپ میرے اور تمام مومنین و مومنات کے مولا اور رہبر ہو گئے ہیں۔
مذکورہ بالاحدیث کو علمائے اسلام کی ایک بڑی تعداد نے مختلف عبارتوں میں، کہیں مفصل اور کہیں خلاصہ کے طور پراپنی کتا بوں میں درج کیا ہے ۔یہ حدیث متواتر احادیث میں سے ہے اور کوئی بھی شخص اس کے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے صادر ہونے پر شک وشبہہ نہیں کرسکتا ہے ،یہاں تک کہ مصنف و محقق ”علامہ امینی “نے اپنی مشہور کتاب ”الغدیر“ میں اس حدیث کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک سو دس اصحاب اور تین سو ساٹھ اسلامی علماء کی کتابوں سے نقل کیا ہے۔یہ حدیث اہل سنت بھائیوں کی اکثرتفسیر و تاریخ اور حدیث کی کتا بوں میں درج ہے ،یہان تک کہ علمائے اسلام کی ایک بڑی تعداد نے اس حدیث کے سلسلہ میں مستقل کتا بیں لکھی ہیں۔مرحوم علامہ امینی نے اس سلسلہ میں ایک گرانقدر اور بے نظیر مستقل کتاب لکھی ہے اور اس میں چھبیس ایسے علمائے اسلام کے نام درج کئے ہیں جنہوں نے ”حدیث غدیر “کے متعلق مستقل کتا بیں لکھی ہیں۔
بعض اشخاص نے حدیث کی سند کو ناقابل انکار پاتے ہوئے اس کی امامت وخلافت پر دلالت کے بارے میں شک وشبہہ ایجاد کر نے کی کوشش کی ہے ،اور مولا کے معنی کو ”دوست“کے عنوان سے جھوٹی تو جیہ کر نے کی کو شش کی ہے،جبکہ حدیث کے مضمون ،زمان ومکان کے شرائط اور دوسرے قرائن پر غور کر نے سے بخوبی معلوم ہو تا ہے کہ” مولا“کا مقصد ،بمعنی مکمل رہبری و قیادت اورمسئلہ امامت و ولایت کے علاوہ کچھ نہیں ہے:
الف:آیہ تبلیغ ،جس کا ہم نے گزشتہ سبق میں ذکر کیا ،اس واقعہ سے پہلے نازل ہوئی ہے۔ اس میں موجود تندوسخت لہجہ اور قرائن اس بات کی بخوبی گواہی دیتے ہیں کہ یہ عام دوستی اور رفاقت کی بات نہیں ہے ،کیونکہ یہ امر پریشان کن نہیں تھا اور اس کے لئے اتنی اہمیت اور تاکید کی ضرورت نہیں تھی۔اسی طرح اس واقعہ کے بعد نازل ہو نے والی آیہ ”اکمال الدین“ اس امر کی گواہ ہے کہ یہ مسئلہ ایک غیر معمولی مسئلہ تھا اور رہبری وپیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانشینی کے علاوہ کوئی اور مسئلہ نہیں تھا۔
ب۔اس حدیث کا ان تمام مقد مات کے ساتھ اس تپتے ہوئے بیان میں ایک تفصیلی خطبہ کے بعد بیان کیا جانا اور اس حساس زمان و مکان میں لوگوں سے اقرار لینا یہ سب ہمارے دعویٰ کی مستحکم دلیل ہے۔
ج۔مختلف گرہوں اور شخصیتوں کی طرف سے حضرت علی (ع)کو مبارک باد دینے کے علاوہ اس سلسلہ میں اسی روز اور اس کے بعد کہے گئے اشعار،اس حقیقت کے گویا ہیں کہ یہ مسئلہ علی علیہ السلام کی امامت و ولایت کے بلند منصب پر منصوب ہو نے سے مربوط تھا نہ کسی اور چیز سے۔


غورکیجئے اور جواب دیجئے
۱۔داستان غدیر کو بیان کیجئے۔
۲۔”حدیث غدیر “پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کتنے اسناد سے اور کتنی اسلامی کتابوں میں نقل ہوئی ہے؟
۳۔”حدیث غدیر“میں ”مولا“ کیوں ”رہبر و امام“ کے معنی میں ہے اور دوست کے معنی میں کیوں نہیں ہے؟
۴۔غدیر کے واقعہ کے بعد رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی(ع) کے حق میں کون سی دعاکی؟
۵۔ ”غدیر“اور ”جحفہ“کہاں پر ہیں؟

پانچواں سبق:قرآن اور امامت ساتواں سبق:حدیث ”منزلت“اور حدیث ”یوم الدار“
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma