خائنان اور امینان اهل کتاب

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 02
پرانی سازشیں حقیقت کو چهپانے والے

یہ آیت اہل کتاب کے ایک اور چہرے سے نقاب پلٹتی ہے اور وہ یہ کہ بعض یہودی عقیدہ رکھتے تھے کہ وہ دوسروں امانتوں کی حفاظت کے جواب وہ نہیں ہیں ۔ یہاں تک کہ وہ سمجھتے تھے کہ انہیں حق پہنچتا ہے کہ وہ امانتوں کو اپنی ملکیت بنالیں ۔
وہ کہتے تھے : ہم اہل کتاب ہیں ۔ پیغمبر ہم میں سے ہیں اور آسمانی کتاب ہمارے پاس ہے لہٰذا دوسرو ں کے اموال ہمارے لئے کوئی احترام نہیں رکھتے ۔ یہ خیال ان کے ہاں اتنا مسلم تھا کہ وہ اعتقادی اور مذہبی رخ اختیار کرچکا تھا ۔
” وَیَقُولُونَ عَلَی اللهِ الْکَذِب“یعنی وہ اللہ پر جھوٹ باندھتے تھے ۔ یہ جملہ ان کے اسی رخ کی طرف اشارہ کررہا ہے ۔
یہودی کہتے تھے ہم عربوں کے مال میں تصرف کرنے اور انہیں غصب کرنے کے مجاز ہیں کیونکہ وہ مشرک ہیں اور حضرت موسیٰ کے پروگرام پر عمل نہیں کرتے
یہاں بات کا ایک اور پہلو بھی ہے اوروہ یہ ہے کہ یہودیوں کا عربوں سے اقتصادی معاہدہ تھا اور وہ عربوں سے تجارت کرتے تھے ۔ جب عرب اسلام لے آئے تو یہود یوں نے ان کے حقوق کی ادائے گی سے انکار کردیا اور یہ استدلال پیش کیا کہ معاملہ کے وقت تم ہمارے مخالف نہیں تھے ، اب جب کہ تم نے نیا مذہب اختیار کرلیا ہے تمہارا حق ساقط ہو گیا ہے ۔
یہ بات قابل توجہ ہ کہ آیت تصریح کرتی ہے کہ تمام اہل کتاب اس غیر انسانی طرز ِ فکر کے موافق نہیں تھے ۔ بلکہ ان میں سے بعض لوگ دوسروں کے حقوق ادا کرنا اپنی ذمہ داری سمجھتے تھے ۔ یہ اس امر کی علامت ہے کہ قرآن ہرگز نہیں چاہتا کہ ایک گروہ کی غلط کاری کی بناء پر سب کی مذمت کی جائے ۔ اسی لئے فرمایا گیا ہے:
”وَمِنْ اٴَہْلِ الْکِتَابِ مَنْ إِنْ تَاٴْمَنْہُ بِقِنطَارٍ یُؤَدِّہٓ إِلَیْکَ وَمِنْهم مَنْ إِنْ تَاٴْمَنْہُ بِدِینَارٍ لاَیُؤَدِّہٓ إِلَیْکَ إِلاَّ مَا دُمْتَ عَلَیْہِ قَائِمًا ۔“
یعنی بعض اہل کتاب ایسے کہ اگر انہیں کثیردولت بھی امانت کے طور پر دی جائے تو وپ واپش کردیں گے اور کچھ زیادہ طاقتور ہو ۔ 2
”ا ِلاَّ مَا دُمْتَ عَلَیْہِ قَائِمًا“۔ یعنی جب تک تم ان کے سر پر مسلط نہ رہو ) آیت کے اس حصے سے یہود یوں کے بارے میں ایک کلی اصول بھی معلوم ہوتا ہے اور وہ یہ کہ ان میں سے بہت سے لوگ ایسے ہیں جو دوسروں کے حقوق کی ادائگی کے بارے میں وہ طاقت و قدرت کے علاوہ کسی طریقے کو نہیں پہچانتے ۔ مسلمانوں کے پاس ان سے اپنی حقوق کے لئے اس کے علاوہ کو ئی چارہ نہیں کہ وہ طاقت حاصل کریں اسی طرح یہودی ان کے حقوق ادا کرنے کے لئے آمادہ ہو سکیں گے ۔ حالیہ سالوں میں ایشیا میں جو بہت سے حوادث رونما ہوئے ہیں انہوں نے یہ حقیقت پایہٴ ثبوت کو پہنچا دی ہے کہ عالمی رائے عامہ دنیا بھر کے لوگوں کے افکار و نظر یات اور حق و عدالت اور ایسی کوئی چیز ہمارے دشمنوں کے لئے کوئی مفہوم نہیں رکھتی اور وہ صرف طاقت کے سامنے جھکتے ہیں ، کسی اور چیز کو خاطر میں نہیں لاتے اور یہ ان کے قابل توجہ حقائق میں سے ایک ہے جن کی قرآن میں پیش گوئی کی گئی ہے ۔
” ذَلِکَ بِاٴَنَّهم قَالُوا لَیْسَ عَلَیْنَا فِی الْاٴُمِّیِّینَ سَبِیلٌ “
اس جملے میں ان کی وہ منطق بیان کی گئی ہے جو وہ دوسروں کا مال کھانے کے لئے اختیار کئے ہوئے تھے اور وہ یہ کہ ” اھل الکتاب “ امّیین “ ( مشرکین اور عرب جو عمو ماً لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے ) بر تری رکھتے ہیں لہٰذا کوئی حرج نہیں گار اہل کتاب ان کے مال کو اپنی ملکیت بنالیں ، ان کا عقیدہ تھا کہ اس پر کوئی مواخذہ نہیں ہو گا یہاں تک کہ جھوٹ امتیاز کی وہ خدا کی طرف نسبت دیتے تھے ۔
مسلم ہے کہ یہ منطق تو امانت کرنے سے زیادہ خطر ناک ہے کیونکہ وہ خود کو اس معاملے میں حق بجانب سمجھتے تھے ۔ قرآن ان کے جواب میں صراحت سے کہتا ہے : ۔
” وَیَقُولُونَ عَلَی اللهِ الْکَذِبَ وَهم یَعْلَمُونَ“۔
یعنی  وہ جان بوجھ کر خدا پر جھوٹ باندھتے ہیں اور اس کی طرف ناروا نسبت دیتے ہیں ۔ وہ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ ان کی آسمانی کتب میں دوسروں کے مال میں خیانت کرنے کی کوئی اجازت نہیں دی گئی لیکن وہ اپنے برے اعمال کی توجیہ کے لئے ایسی دروغ سازی کرتے ہیں اور اس کی نسبت خدا کی طرف دیتے ہیں ۔
” بَلَی مَنْ اٴَوْفَی بِعَہْدِہِ وَاتَّقَی فَإِنَّ اللهَ یُحِبُّ الْمُتَّقِینَ “۔
عربی میں ”بلی ٰ“کسی مطلب کے ثابت کرنے کے لئے آتاہے لیکن عام طور پر ایسے موقع پر آتا ہے کہ جہاں سوال منفی صورت میں ہو ۔ جیسا کہ خدا فرماتا ہے ۔
” الستُ بربِّکم “
کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں؟
” قالوا بلیٰ “  انہوں نے کہا ہاں ۔ جیسے لفظ ” نعم “ اثبات کے لئے آتا ہے
مثلاً فھل وجدتم ماوَعَد رَبّکُم حقاً قالوا نعم “
کیاجس چیز کا تمہارے پروردگار نے وعدہ کیا اسے تم نے حقیقی طور پر پالیا انہوں نے کہا ہاں ۔ ( اعراف۔ ۴۴)
مذکورہ آیت یہودیوں کے کلام کی نفی ہے ۔ وہ کہتے تھے : ” لیس علینا فی الامیینَ سبیل“ ( یعنی  غیر اہل کتاب کا مال کھانا ہمارے لئے حرام نہیں ہے )

یہ کہہ کر وہ اپنے آپ کو عملی طور پر آزاد سمجھتے تھے ۔ اسی بے دلیل اور غیر مناسب دعوے کی بنیاد وہ دوسروں کے حقوق پر تجاوز کرنے سے باز نہیں آتے تھے ۔
اس دور میں بھی جو لوگ انسانوں کی قسمت سے کھیل رہے ہیں ، انسانی حقوق پامال کرتے ہیں اور تمام اصول اور معاہدے ان کے لئے بازیچہ اطفال ہیں اور انہیں فقط اپنی خاشحالی سے غرض ہے ، شاید یہ بھی اسرائیلی منطق پر کار بند ہیں ۔
اس کے بر عکس قرآن نسلی اور شخصی پہلو وٴں کو اہم نہیں سمجھتا اور خدا کے حقیقی دوست انہیں قرار دیتا ہے جو گناہ سے دور رہتے ہیں ، معاشرے کے حقوق کا احترام کرتے ہیں اور اپنے مقام و منصب سے غلط فائدہ نہیں اٹھاتے ۔
آیت میں در اصل انسان کی حقیقی قیمت اور خدا کی دوستی کی میزان ایفائے عہد بالخصوص امانت میں خیانت نہ کرنے اور ہر موقع پر تقویٰ اختیار کئے ہنے کو قرار دیا ہے :
”مَنْ اوفیٰ بعھدہ و اتّقیٰ فَانّ اللہ یحب المتقینَ “۔
آج بھی ایسے شواہد موجود ہیں جوظاہر کرتے ہیں کہ ان منصب کے پیروکار کی ایک جماعت دنیا کے دیگر انسانوں کے بارے میں وہی عقیدہ رکھتی ہے اور دوسروں کے مال و دولت اور تمام چیزوں کو اپنے لئے مباح سمجھتی ہے ۔ یہ شواہد ان سے متعلقہ مقالوں اور مختلف کتب میں جمع کئے گئے ہیں ۔ شوق رکھنے والے لوگ ، ان سے رجوع کرسکتے ہیں ۔
ایک اشکال اور اس کی وضاحت ممکن ہے یہاں یہ سوال پیدا ہو کہ اسلام میں بھی دوسروں کے مال کے متعلق یہی حکم نظر آتا ہے کیونکہ اسلام اجازت دیتا ہے کہ مسلمان دوسروں کے اموال کو اپنی ملکیت بنالیں ۔
بلا شبہ اسلام کی طرف ایسی نسبت دینا تہمت ہے کیونکہ اسلام کے قطعی احکام میں سے ہے کہ امانت میں خیانت کرنا جائز نہیں چاہے وہ مسلمان کی ہو یا غیر مسلم کی یہاں تک کہ وہ مشت و بت پرست ہی کی کیوں نہ ہو ۔
ایک مشہور حدیث میں امام سجاد (علیه السلام) سے منقول ہے :
” علیکم بِاَ دآءِ الامانةِ فوَالذی بعثَ محمداً بالحق نبیّاً لو ان قاتل ابی الحسین بن علی بن ابی طالب التمننی علی السّیفِ الذی قتلہ بہ لا دیتہ الیہ “۔:

( امالی صدوق :صفحہ ۱۴۹۔ )
امانت ادا کرنا تم سب پر لازم ہے قسم ہے اس خدا کی جس نے محمد کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ۔ اگر میرے والد حسین بن علی بن ابی طالب

( علیہم السلام ) کا قاتل وہی تلوار جس سے اس نے انہیں شہید کیاہے میرے پاس بطور امانت رکھتا ( اور میں قبول کرلیتا ) تو (بھی) میں اس کی امانت اسے ادا کرتا ۔
دوسری روایت میں امام صادق (علیه السلام) سے منقول ہے ۔ آپ (علیه السلام) نے فرمایا:۔
” انّ اللہ لم یبعث نبیاًقط الاّ بصدقِ الحدیثِ و ادآءُ الامانة ِ سوٴداتاً الیٰ البرِّ و الفاجرِ“ 3
خد انے کسی پیغمبر کو مبعوث نہیں کیا مگر یہ کہ ہر نیک و بد کے ساتھ راست گوئی اور امانت کی ادائے گی اس کے پروگراموں میں شامل تھی ۔
اس لئے جو کچھ مندرجہ بالا آیت میں یہودیوں کی طرف سے امانت میں خیانت کرنے کے بارے میں بیان کیا گیا ہے ، کسی طرح بھی مسلمانوں کو اس کی اجازت نہیں دی گئی ہے اور مسلمان ذمہ دار ہیں کہ وہ بلا استثنا کسی کی اما نت میں خیانت نہ کریں ۔

۷۷۔ إِنَّ الَّذِینَ یَشْتَرُونَ بِعَہْدِ اللهِ وَاٴَیْمَانِہِمْ ثَمَنًا قَلِیلًا اٴُوْلَئِکَ لاَخَلاَقَ لَهم فِی الْآخِرَةِ وَلاَیُکَلِّمُهم اللهُ وَلاَیَنْظُرُ إِلَیْہِمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ وَلاَیُزَکِّیہِمْ وَلَهم عَذَابٌ اٴَلِیمٌ ۔
ترجمہ
۷۷۔ جو لوگ خدا سے باندھا ہوا عہد و پیمان اور (خدا کے مقدس ناموں سے کھائی گئی ) اپنی قسموں کو تھوڑی سی قیمت پر فروخت کردیتے ہیں ان کا آخرت میں کوئی حصّہ نہیں ہوگا ، خدا ان سے بات نہیں کرے گا، قیامت کے دن ا ن کی طرف (رحمت کی ) نظر نہیں کرے گا ، انہیں ( گناہ سے ) پاک نہیں کرے گا اور ان کے لئے درد ناک عذاب ہے ۔

شان نزول ;

بعض علماء یہود نے جن میں ابو رافع ،حی بن احظب اور کعب بن اشرف شامل تھا، جب دیکھا کہ ان کی اجتماعی حیثیت یہودیوں کے درمیان خطرے میں ہے تو کوشش کی کہ تورات میں آخری پیغمبر کے بارے میں جو نشانیوں تھیں اور تورات کے جو نسخے خود انہوں نے لکھے تھے ان میں تحریف کردیں یہاں تک کہ وہ اس بات پر قسم بھی کھاجاتے کہ وہ تحریف شدہ جلے خدا کی طرف سے ہیں ۔ اسی بناء پر مندرجہ بالا آیت نازل ہوئی اور انہیں شدت سے خطرے کا الارم دیا گیا ۔
بعض مفسرین نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ آیت اشعث بن قیس کے بارے میں نازل ہوئی جو جھوٹے طریقے سے کسی کی زمین پر قبضہ کرنا چاہتا تھا اور اس کے لئے جب وہ جھوٹی قسم کھانے پر آمادہ ہوا تو مندرجہ بالا آیت نازل ہو ئی ۔ اس پر اشعث ڈر گیا اور اعتراف ِ حق کرلیا اور زمین اس کے مالک کو واپس کردی ۔

 


۱”قنطار “ کے معنی کے سلسلے میں اسی سورہ کی آیہ ۱۴ کے ذیل میں بحث ہو چکی ہے ۔
2.اوقیہ : جمع اواقی، رحل کے بارھویں حصّے کو کہتے ہیں جو سات مثقال کے برابر ہوتا ہے ۔
3. ”مشکوٰة الانوار“ بہ نقل از ” سفینة البحار “

 

پرانی سازشیں حقیقت کو چهپانے والے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma