بعض مفسرین نے اس آیت '' یا اَیُّهَا
الَّذینَ آمَنُوا تُوبُوا اِلَى اللّهِ تَوْبَهً نَصُوحاً '' (١) اے ایمان لانے والوں
خدا کی بارگاہ میں خالص توبہ کرو ۔ کی تفسیر میں ''نصوح '' کے معنی اس طرح کئے ہیں
: توبہ نصوح سے مراد وہ توبہ ہے جس کی لوگوں کو نصیحت کی جاتی ہے کہ اس کی طرح توبہ
کریں کیونکہ اس کے آثار توبہ کرنے والے میں ظاہر ہوجاتے ہیں ، یا توبہ کرنے والے کو
نصیحت کرتے ہیں کہ گناہوں کو بالکل ختم کردے اورکبھی بھی گناہوں کی طرف نہ جائے اور
بعض علماء نے اس کو خالص توبہ سے تفسیر کی ہے اور بعض علماء اس کو مادہ نصاحت سے سلائی
کے معنی میں سمجھتے ہیں ، کیونکہ گناہوں کی وجہ سے دین اور ایمان کے ٹوٹے ہوئے رشتوں
کو توبہ دوبارہ سے سی دیتی ہے۔یا توبہ کرنے والے کو اولیاء اللہ سے الگ کردیا گیا تھا
اور اب دوبارہ اس کو ان میں واپس پلٹا دیا گیا ہے (٢) ۔ (٣) ۔ تمام علمائے
اسلام کا اتفاق ہے کہ اگر توبہ جامع الشرائط ہو تو وہ خدا کی بارگاہ میں مقبول ہے اور
آیات و روایات بھی واضح طور پر اس بات پر دلالت کرتی ہیں لیکن اس سلسلہ میں بہت سی
بحثیں ہوئی ہیں کہ توبہ کو قبول کرنا عقلی ہے یانقلی یا عقلائی ہے ۔
تمام علماء کا اعتقاد ہے کہ توبہ کے بعد عقاب
اور مجازات کے ساقط ہونے میں خدا کے فضل و احسان کا پہلو پایا جاتا ہے ، اگر خداوندعالم
ارادہ کرلے کہ توبہ کے بعد اپنے بندہ کے گناہ کو نہ بخشے تو ممکن ہے جس طرح لوگوں کے
درمیان رائج ہے کہ جب کوئی کسی کے حق میں ظلم کرتا او رپھر عذر خواہی کرتا ہے تو وہ
اس کو بخشے یا نہ بخشے۔
جبکہ دوسرے بعض علماء توبہ کے ذریعہ عقاب کے
ساقط ہونے کو واجب اور ضروری سمجھتے ہیں ، یہاں تک کہ مجرم کے عذر خواہی کرنے کے بعد
توبہ کے قبول نہ کرنے کو برا اور ناپسند سمجھتے ہیں اور یہ کام حقیقت میں خداوندعالم
پر جائز نہیں ہے ۔
ممکن ہے یہاں پر تیسرے نظریہ کو قبول کرلیا
جائے اور وہ یہ ہے کہ توبہ قبول کرنے کا ضروری ہونا عقلی امر ہے یعنی اگر چہ توبہ قبول
کرنے اور عذر خواہی کو عقل واجب اور ضروری نہیں سمجھتی لیکن دنیا کے عقلاء کا نظریہ
یہ ہے کہ اگر کوئی غلط کام انجام دے اور پھر عذر خواہی کرنے کیلئے تیار ہوجائے اور
اپنے غلط کاموں کے تمام برے آثار کی اس طرح تلافی کرے کہ گناہ کی کوئی چیز باقی نہ
رہے ، اگر کسی کی عزت و آبرو چلی گئی ہو تو اس کی عزت و آبرو کو واپس لائے ، اگر کسی
کا کوئی حق پائمال ہوگیا ہو تو اس کے حق کو کامل طور پر تلافی کرے اور اگر سامنے والا
ناراض ہوگیا ہو تو مختلف طریقوں سے اس کی ناراضگی کو دور کرے ، ایسے حالات میں دنیا
کے تمام عقلاء کا نظریہ ہے کہ اس کی توبہ او رعذر کو قبول کرلینا چاہئے اور اگر کوئی
قبول نہ کرے تو اس کو کینہ توز اور انسانیت و اخلاق سے خارج سمجھتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ قادر مطلق اور ہر
چیز سے بے نیاز خدا وند عالم کے لئے سزاوار ہے کہ وہ اس طرح کے امور میں توبہ کرنے
والوں کی توبہ اور عذرخواہی کو قبول کرے او ران کے عقاب کو نظر انداز کرے ۔
بلکہ ممکن ہے کہ اس سے آگے قدم بڑھایا جائے
اور توبہ کے قبول کرنے کو عقلی شمار کیا جائے اور اس کو ''قاعدہ قبح نقض غرض'' پرحمل
کیا جائے۔یعنی ہم جانتے ہیں کہ خداوندعالم بندوں کی اطاعت اور عبادت سے بے نیاز ہے
اور تکالیف الہی ، بندوں کی تربیت اور کمال حاصل کرنے کیلئے ایک لطف ہے ، نماز ، روزہ
اور تمام عبادات ہماری روح و جان کی پرورش کرتی ہیں اور روزانہ خدا سے نزدیک کرتی ہیں
، تمام واجبات او رمحرمات ہمارے کمال میں بہت زیادہ موثر ہیں۔