بعض مفسرین نے اس آیت '' یا اَیُّهَا
الَّذینَ آمَنُوا تُوبُوا اِلَى اللّهِ تَوْبَهً نَصُوحاً '' (١) اے ایمان لانے والوں
خدا کی بارگاہ میں خالص توبہ کرو ۔ کی تفسیر میں ''نصوح '' کے معنی اس طرح کئے ہیں
: توبہ نصوح سے مراد وہ توبہ ہے جس کی لوگوں کو نصیحت کی جاتی ہے کہ اس کی طرح توبہ
کریں کیونکہ اس کے آثار توبہ کرنے والے میں ظاہر ہوجاتے ہیں ، یا توبہ کرنے والے کو
نصیحت کرتے ہیں کہ گناہوں کو بالکل ختم کردے اورکبھی بھی گناہوں کی طرف نہ جائے اور
بعض علماء نے اس کو خالص توبہ سے تفسیر کی ہے اور بعض علماء اس کو مادہ نصاحت سے سلائی
کے معنی میں سمجھتے ہیں ، کیونکہ گناہوں کی وجہ سے دین اور ایمان کے ٹوٹے ہوئے رشتوں
کو توبہ دوبارہ سے سی دیتی ہے۔یا توبہ کرنے والے کو اولیاء اللہ سے الگ کردیا گیا تھا
اور اب دوبارہ اس کو ان میں واپس پلٹا دیا گیا ہے (٢) ۔ (٣) ۔توبہ کرنے والوں کو چار گروہ میں تقسیم کیا
جاسکتا ہے : پہلا گروہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گناہوں سے توبہ کرتے ہیں لیکن ایک مدت کے
بعد اپنی توبہ کو توڑ دیتے ہیں اور گناہوں کی طرف پلٹ جاتے ہیں اور ان کسی طرح کا کوئی
افسوس یا ندامت نہیں ہوتی ، یہ لوگ حقیقت میں نفس امارہ کے مرحلہ میں ہوتے ہیں اور
ان کی عاقبت اور سرانجام کامل طور پر مبہم ہوتا ہے کیونکہ ممکن ہے کہ توبہ کا کوئی
ایک مرحلہ اور خدا کی طرف پلٹنا ایسے وقت میں ہو جب ان کی عمر کا آخری حصہ ہوتا ہے
، دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ ان کا انجام اچھا ہوجائے ، لیکن کبھی کبھی ان کی
عمر کا اختتام توبہ شکنی کے زمانہ میں ہوجاتا ہے اور ان کا انجام بہت ہی تاسف انگیز
اور دردناک ہوجاتا ہے اور وہ بہت ہی بری عاقبت کے ساتھ دنیا سے جاتے ہیں ۔
دوسرا گروہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گناہوں سے توبہ
کرتے ہیں اور اطاعت و بندگی کے راستہ کو جاری رکھتے ہیں لیکن کبھی کبھی بعض گناہوں
میں شہوت ان پر غالب آجاتی ہے اور وہ توبہ کو توڑ دیتے ہیں کیونکہ ان میں ابھی تک شہوات
پر غلبہ حاصل کرنے کی طاقت نہیں آئی ہے ، لیکن اس کے باوجود وہ اپنی توبہ کو توڑنے
پر نادم اور پشیمان ہوتے ہیں اور ہمیشہ اپنے آپ سے کہتے ہیں کہ اے کاش ہم نے یہ گناہ
نہ کیا ہوتا اور انشاء اللہ بہت جلد توبہ کرلیں گے اس طرح کے افراد بھی حقیقت میں نفس
امارہ کے مرحلہ میں ہوتے ہیں لیکن ان کی نجات کی امید بہت زیادہ ہے ۔
تیسرا گروہ وہ لوگ ہیں جو توبہ کے بعد بڑے گناہوں سے
پرہیز کرتے ہیں اور اطاعت کے اصولوں پر پابند ہوتے ہیں لیکن کبھی کبھی بعض گناہوں میں
مبتلا ہوجاتے ہیں اور وہ توبہ کو توڑنے کا قصد کئے بغیرتوبہ کو توڑ دیتے ہیں ، لیکن
بلافاصلہ وہ پشیمان ہوجاتے ہیں اور اپنے نفس کی سرزنش کرتے ہیں اور توبہ کے لئے اپنے
ارادہ کو مصمم کرتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ گناہ کے اسباب سے دوری اختیار کریں ،
یہ گروہ نفس لوامہ کے بلند ترین درجہ پر فائز ہوتے ہیں اور نفس مطئمنہ سے نزدیک ہوجاتے
ہیں اور ان کی نجات کی امید بہت زیادہ ہوتی ہے ۔
چوتھا گروہ وہ لوگ ہیں جو توبہ کے بعد بہت
ہی محکم ارادہ کے ساتھ خدا کی بندگی اور اطاعت پر قدم جمائے رکھتے ہیں ، صحیح ہے کہ
وہ معصوم نہیں ہیں اور ممکن ہے کہ ان میں کبھی کبھی فکر گناہ اور لغزش پیدا ہوجاتی
ہے لیکن عمل میں وہ گناہ کی آلودگیوں سے پرہیز کرتے ہیں کیونکہ ان کی عقل او رایمان
کی طاقت اس قدر زیادہ ہوتی ہے کہ وہ ہوائے نفس پر غلبہ حاصل کرلیتے ہیں اور اس کو مہار
کرلیتے ہیں ۔
یہ گروہ نفس مطمئنہ کا مالک ہے جن کو سورہ
فجر کی ٢٧ تا ٣٠ویں آیات میں بہت ہی بلند و بالا اور افتخار آمیز لہجہ میں مخاطب کیا
گیا ہے : '' فَادْخُلى فى عِبادى وَ ادْخُلى جَنَّتى '' ۔ اے نفس مطمئن ، اپنے رب کی
طرف پلٹ آ اس عالم میں کہ تواس سے راضی ہے اور وہ تجھ سے راضی ہے ، پھر میرے بندوں
میں شامل ہوجا ، اور میری جنت میں داخل ہوجا(١) ۔
تو بہ قائم ودائم رہنی چاہئے اور جب بھی نفس
امارہ کے وسوسوں کی وجہ سے انسان سے کوئی غلطی سرزد ہوجائے تو فورا توبہ کرے اور
''نفس لوامہ'' کے مرحلہ میں داخل ہوجائے ، یہاں تک کہ ''نفس مطمئنہ '' کے مرحلہ تک
پہنچ جائے اور وسواس کی جڑیں ختم ہوجائیں ۔
دوسری طرف ہر گناہ سے توبہ کرتے وقت بہت ہی
زیادہ غور وفکر کرے اور اس بات کا خیال رکھے کہ توبہ باقی رہے اور خداوندعالم کی بارگاہ
میں گناہوں کو ترک کرنے کے وعدہ پر باقی رہے ، دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ اگر
توبہ کے بعد ابھی بھی اس کے دل و جان میں کوئی شک و شبہ باقی رہ گیا ہے تو اس سے مقابلہ
کرے اور جہاد بالنفس کو اپنے پروگرام کا جزء قرار دے اور اس طرح تائبین اور مجاہدین
کی صفوں میں شامل ہوجائے ۔
توبہ کرنے کے بعد دوبارہ گناہ نہ کرنے سے بچنے کے لئے
چند امور کی رعایت کرنا ضروری ہے :
١۔ گناہ کے ماحول سے الگ ہوجائیں اور معصیت کی مجالس
میں شرکت نہ کریں ۔ کیونکہ توبہ کرنے والا ابتدائی مراحل میں نقصان اٹھاتا ہے اور اس
کی مثال ایسے بیمار کی طرح ہے جو ابھی ابھی بستر بیماری سے اٹھا ہو اور اگر وہ اپنے
پیروں سے گندی اور آلودہ جگہ پر چلا جائے گا تو دوبارہ بیمار ہونے کا خطرہ ہے ، اس
کی مثال ایسے نشہ آور شخص کی ہے جس نے نشہ سے چھٹکار پایا ہو لیکن جب بھی نشہ آور علاقہ
میں چلا جائے گا تو بہت جلد دوبارہ اسی میں مبتلا ہوجائے گا ۔
٢