مختصر جواب:
بنی امیہ نے کئی سالوںتک پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے زمانے میں بڑی بڑی جنگوں میں شکست کھائی تھی اور پھر آخر کار ہار مان کر بعنوان ""طلقا"" یعنی پیغمبر اکرم کے آزاد شدہ)مسلمانوں کے درمیان بدنامی اور ذلت کی زندگی گذارنے لگے تھے، پیغمبر اکرم کی رحلت کے وقت لوگوں کے سامنے ان کا کوئی اعتبار نہیں تھا جو یہ اسلام کے سامنے کھڑے ہوتے ۔
مفصل جواب:
بنی امیہ نے کئی سالوںتک پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے زمانے میں بڑی بڑی جنگوں میں شکست کھائی تھی اور پھر آخر کار ہار مان کر بعنوان ""طلقا"" یعنی پیغمبر اکرم کے آزاد شدہ)مسلمانوں کے درمیان بدنامی اور ذلت کی زندگی گذارنے لگے تھے، پیغمبر اکرم کی رحلت کے وقت لوگوں کے سامنے ان کا کوئی اعتبار نہیں تھا جو یہ اسلام کے سامنے کھڑے ہوتے ۔
لیکن پیغمبر اکرم کی رحلت کے بعد سقیفہ میں جو حادثہ رونما ہوا اور جس کے نتیجہ میں بنی ہاشم سے اسلامی حکومت اور نئے معاشرہ کی مسؤلیت کو چھین لیا گیا جس کی وجہ سے بنی امیہ قطعی طور سے اسلامی معاشرہ پر حاکم ہوگئی ۔
لہذا ہم یہاں پر اس بات کو اہل سنت کے معتبر ترین مآخذ یعنی صحیح بخاری سے آپ کے سامنے بیان کرتے ہیں:
اس دن انصار کا ایک گروہ سقیفہ میں جمع ہوا تاکہ مسلمانوں کے لئے ایک امیر بنائے، ان کا مقصد تھا کہ سعد بن عبادة انصاری(قبیلہ خزرج کے رئیس)کو امیر کے عنوان سے منتخب کریں، لیکن ابوبکر نے قریش کی فضیلت کا جھنڈا بلند کرکے انصار کو شکست دیدی، اس نے پیغمبر اکرم کی اس بات کو پیش کرتے ہوئے کہا کے پیغمبر نے فرمایا: مسلمانوں کا امیر قریش سے ہوگا(١) لہذا اس نے قریش کے اصل امتیاز کو عرب کی تمام قوموں پر فوقیت دیتے ہوئے انصار کو مغلوب کردیا، ایسی اصل جس سے اسلام نے جنگ کی تھی اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے امت کی زعامت اور رہبری صرف اہل بیت عصمت و طہارت (علیہم السلام) کے سپرد کی تھی ۔
اس روز سقیفہ کی گفتگو کے متعلق جو روایاتیں ہمیں ملتی ہیں ان سے یہ پتہ چلتا ہے کہ خلیفہ کو منتخب کرنے کا اصلی معیار قرشی ہونا تھا ۔
ابن ابی الحدیدنے نہج البلاغہ کے خطبہ ٢٦ کے ذیل میں بیان کیا ہے:
عمر نے انصار سے کہا: خدا کی قسم! عرب کبھی بھی تمہاری حکومت پر راضی نہیں ہوں گے کیوں کہ پیغمبر تمہارے قبیلہ سے نہیں ہیں لیکن عرب اس مرد سے جو پیغمبر کے خاندان سے ہے، تسلیم کرنے میں کوئی عذر پیش نہیں کریں گے، کون ہے جو محمدی میراث وحکومت میں ہم سے معارضہ کرے در حالیکہ ہم ان کے نزدیکی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں؟(٢) ۔
ابن اسحاق کی روایت میں اس طرح بیان کیاگیاہے:
تم اچھی طرح جانتے ہو کہ عرب کی دوسری قوموں میں یہ جماعت، قریش سے زیادہ مقام ومنزلت نہیں رکھتی اور عرب کی قومیں قریش کے علاوہ کسی اور کو قبول نہیں کریں گی ۔
ابو بکر کے قول کے مطابق بیان ہوا ہے: قوم عرب، قریش کے علاوہ کسی اور کو رسول خدا کا خلیفہ قبول نہیں کرے گی(٣) ۔
اس بات کا مفہوم یہ ہے کہ مسلمانوں کی زمامداری کے لئے جو شرط ضروری ہے وہ تقوی اور فضیلت نہیں ہے بلکہ خلافت کے لئے جس چیز کی رعایت کرنی چاہئے وہ قبیلہ کی شرافت ہے اور وہ شرافت بھی صرف قریش میں پائی جاتا ہے کیونکہ یہ قریش ہی ہیں جو جاہلیت کے زمانے میں دینی اور مالی شرافت سے برخوردار تھے اور وہ بھی اس طرح کہ تمام قومیں انہی قوانین کو مانتی تھیں جن کو قریش بناتے تھے اور یہ قریش ہی تھے جو ا س زمانے میں حجاز کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے تھے لہذا اس بناء پر پیغمبر کے بعد بھی یہ حق قریش ہی کو ملتا ہے کہ وہ مسلمانوں کی باگ ڈور کو اپنے ہاتھوں میں لے اور ان پر حکومت کرے ۔
یہ سب سے مہم بات تھی کہ ابوبکر اور اس کے دوستوں نے قریش پر غلبہ پانے کے لئے بیان کی تھی ۔
اسلام کی پہلی صدی کے تمام حوادث کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ سقیفہ میں جو کچھ پیش آیا وہ قریش کی امتیاز طلبی کے مقابلہ میںصرف انصار کی شکست نہیں تھی بلکہ یہاں پر ایک ایسا قانون بنایا گیا جس نے دنیائے اسلام کو اور دوسری مشکلات کے سامنے کھڑا کردیا (٤) ۔
لیکن پیغمبر اکرم کی رحلت کے بعد سقیفہ میں جو حادثہ رونما ہوا اور جس کے نتیجہ میں بنی ہاشم سے اسلامی حکومت اور نئے معاشرہ کی مسؤلیت کو چھین لیا گیا جس کی وجہ سے بنی امیہ قطعی طور سے اسلامی معاشرہ پر حاکم ہوگئی ۔
لہذا ہم یہاں پر اس بات کو اہل سنت کے معتبر ترین مآخذ یعنی صحیح بخاری سے آپ کے سامنے بیان کرتے ہیں:
اس دن انصار کا ایک گروہ سقیفہ میں جمع ہوا تاکہ مسلمانوں کے لئے ایک امیر بنائے، ان کا مقصد تھا کہ سعد بن عبادة انصاری(قبیلہ خزرج کے رئیس)کو امیر کے عنوان سے منتخب کریں، لیکن ابوبکر نے قریش کی فضیلت کا جھنڈا بلند کرکے انصار کو شکست دیدی، اس نے پیغمبر اکرم کی اس بات کو پیش کرتے ہوئے کہا کے پیغمبر نے فرمایا: مسلمانوں کا امیر قریش سے ہوگا(١) لہذا اس نے قریش کے اصل امتیاز کو عرب کی تمام قوموں پر فوقیت دیتے ہوئے انصار کو مغلوب کردیا، ایسی اصل جس سے اسلام نے جنگ کی تھی اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے امت کی زعامت اور رہبری صرف اہل بیت عصمت و طہارت (علیہم السلام) کے سپرد کی تھی ۔
اس روز سقیفہ کی گفتگو کے متعلق جو روایاتیں ہمیں ملتی ہیں ان سے یہ پتہ چلتا ہے کہ خلیفہ کو منتخب کرنے کا اصلی معیار قرشی ہونا تھا ۔
ابن ابی الحدیدنے نہج البلاغہ کے خطبہ ٢٦ کے ذیل میں بیان کیا ہے:
عمر نے انصار سے کہا: خدا کی قسم! عرب کبھی بھی تمہاری حکومت پر راضی نہیں ہوں گے کیوں کہ پیغمبر تمہارے قبیلہ سے نہیں ہیں لیکن عرب اس مرد سے جو پیغمبر کے خاندان سے ہے، تسلیم کرنے میں کوئی عذر پیش نہیں کریں گے، کون ہے جو محمدی میراث وحکومت میں ہم سے معارضہ کرے در حالیکہ ہم ان کے نزدیکی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں؟(٢) ۔
ابن اسحاق کی روایت میں اس طرح بیان کیاگیاہے:
تم اچھی طرح جانتے ہو کہ عرب کی دوسری قوموں میں یہ جماعت، قریش سے زیادہ مقام ومنزلت نہیں رکھتی اور عرب کی قومیں قریش کے علاوہ کسی اور کو قبول نہیں کریں گی ۔
ابو بکر کے قول کے مطابق بیان ہوا ہے: قوم عرب، قریش کے علاوہ کسی اور کو رسول خدا کا خلیفہ قبول نہیں کرے گی(٣) ۔
اس بات کا مفہوم یہ ہے کہ مسلمانوں کی زمامداری کے لئے جو شرط ضروری ہے وہ تقوی اور فضیلت نہیں ہے بلکہ خلافت کے لئے جس چیز کی رعایت کرنی چاہئے وہ قبیلہ کی شرافت ہے اور وہ شرافت بھی صرف قریش میں پائی جاتا ہے کیونکہ یہ قریش ہی ہیں جو جاہلیت کے زمانے میں دینی اور مالی شرافت سے برخوردار تھے اور وہ بھی اس طرح کہ تمام قومیں انہی قوانین کو مانتی تھیں جن کو قریش بناتے تھے اور یہ قریش ہی تھے جو ا س زمانے میں حجاز کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے تھے لہذا اس بناء پر پیغمبر کے بعد بھی یہ حق قریش ہی کو ملتا ہے کہ وہ مسلمانوں کی باگ ڈور کو اپنے ہاتھوں میں لے اور ان پر حکومت کرے ۔
یہ سب سے مہم بات تھی کہ ابوبکر اور اس کے دوستوں نے قریش پر غلبہ پانے کے لئے بیان کی تھی ۔
اسلام کی پہلی صدی کے تمام حوادث کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ سقیفہ میں جو کچھ پیش آیا وہ قریش کی امتیاز طلبی کے مقابلہ میںصرف انصار کی شکست نہیں تھی بلکہ یہاں پر ایک ایسا قانون بنایا گیا جس نے دنیائے اسلام کو اور دوسری مشکلات کے سامنے کھڑا کردیا (٤) ۔
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.