آیت اللہ شیخ نمر کو پھانسی دینے کی وحشتناک خبر نے پوری دنیا کے مسلمانوں کو تعجب میں ڈال دیا ، خاص طور سے اس جرم کو خوارج ا ور تکفیر کے عنوان سے انجام دیا گیا ، اگر کسی کو ابھی تک شک تھا کہ پوری دنیا میں تکفیر اور فتنہ کا مرکز ، سعودی عرب ہے تو انہوں نے اس آشکار نمونہ سے سب پر واضح کردیا ۔
ہم اس ہولناک جرم کی شدید مذمت کرتے ہیں اور یقینا اس کا انتقام لیا جائے گا ، شیخ نمر کی گردن مارنے اور ان کے لاشہ کو سولی پر چڑھانے کا کام وہی تھا جو داعش کے لوگ انجام دیتے ہیں ۔
اس تفسیر کو مد نظر رکهتے ہوئےسعودی حکمرانوں کے جرائم اور شدت پسندی سے مقابلہ کرنے کیلئے حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی کی بنیادی حکمت عملی اور پالیسیاں پہلے سے زیاده خود نمایی کررہی ہیں جن میں سے اہم حکمت عملی کو ہم یہاں پر بیان کررہے ہیں
امت اسلامی کے اتحاد کو قائم کرکے سعودیوں کے فرقہ وارانہ اختلاف کو ختم کیا جائے
امریکہ اور اسرائیل ،اسلامی مذاہب خصوصا شیعہ اور اہل سنت کے درمیان تفرقہ ایجاد کرنے کی کوشش میںلگے ہوئے ہیں اور یہ لوگ اس واقعہ اور اس کے نتائج سے خوشحال ہیں(٥) ۔ لیکن اس مسئلہ میں سعودی عرب کا امریکہ اور ا سرائیل سے رابطہ ہے اور ایک طرف استکباری طاقتیں ، سعودی عرب کو اختلاف افکنی کی دعوت دیتی ہیں ، دوسری طرف سعودی حکومت ، مفتیوں کو اختلاف اور تفرقہ ایجاد کرنے پر مجبور کرتے ہیں ، لہذا مسلمانوں کے درمیان اختلاف اور تفرقہ ایجاد کرنے میں سعودی عرب کو اس کا علمبردار کہا جاسکتا ہے (٦) ۔
لیکن سعودی حکومت کے ان دشمنانہ فتنوں کو مدنظر رکھتے ہوئے حقیقت یہ ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک میں شیعہ مسلمان موجود ہیں جیسے خود سعودی عرب کے مشرقی علاقہ میں شیعوں کی بہت بڑی تعداد زندگی بسر کرتی ہے جن کے اسلامی فرقوں سے بہت اچھے تعلقات ہیں (٧) ۔ یقینا اگر اسلامی مذاہب کے ماننے والے تمام لوگ بیدار اور ہوشیار ہوجائیں تو اس خطرناک فتنہ کو ختم کرسکتے ہیں (٨) ۔
سعودی حکومت کی تکفیر ستیزی کے خلاف اسلامی امت کی ذمہ داری
اس حقیقت سے غفلت نہیں رکھنا چاہئے کہ شیعوں پر بے بنیاد ، غلط اور تکفیری تہمتوں سے وہ اسلام کے سب سے بڑے دشمن امریکہ اور ا سرائیل کی خدمت کر رہے ہیں ، کیونکہ اس کا نتیجہ وہی چیز ہے جس کا اسلام کے دشمنوں کو انتظار ہے ، وہ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کے درمیان مذہبی جنگ وجدال شروع ہوجائے اور پھر وہ بہت ہی آسانی سے اس علاقہ کی عظیم ثروت کو لوٹ کر لے جائیں (٩) ۔ مثال کے طور پر یمن کے مسلمانوں پر کفر کے فتوے لگانے میں سعودی مفتی ایک دوسرے سے آگے نکلنا چاہتے ہیں اور سب یمن کے مسلمانوں کو کافر بتا رہے ہیں (١٠) ۔
افسوس کی بات ہے کہ سعودی عرب کی فتوی دینے کی کمیٹی کو حجاز میں بہت زیادہ اختیارات حاصل ہیں اور وہ اہل بیت علیہم السلام سے توسل کرنے والوں پر کفر کا فتوی لگاتے ہیں اور بہت ہی صراحت کے ساتھ اس بات پر اصرار کرتے ہیں (١١) ۔
لہذا آج کے زمانہ میں کوئی دن ایسا نہیں ہے کہ جب عراق، شام اور یمن سے شدت پسندی کی وحشتناک خبریں شوشل میڈیا پرمنتشر نہ ہوتی ہوں ، بلکہ روزانہ بہت سے لوگ گروہ تکفیری کی شدت پسندی کا لقمہ بن رہے ہیں (١٢) افسوس کی بات ہے کہ ان کے غلط کاموں کی وجہ سے پوری دنیا میں بہت سے لوگوں کے اذہان مسلمانوں کو شدت پسند سمجھتے ہیں اور اس کی وجہ سے اسلام کے دشمنوں کو بہت غلط بہانہ مل گیا ہے ، یہاں تک کہ بعض ممالک ، مسلمانوں کو ''انسانیت کا قتل عام کرنے والوں'' کے عنوان سے پہچانتے ہیں (١٣) ۔
جبکہ اسلام ، مسلمانوں کے مال، جان اور ناموس کو محترم سمجھتا ہے اور کسی کو بھی ان پر حملہ کرنے یا تجاوز کرنے کا حق نہیں ہے اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے حجة الوداع کے خطبہ میں مسلمانوں کو جو حکم دیا تھا وہ یہ تھا کہ تمہارے اوپر ایک دوسرے کا مال، خون اور ناموس اسی طرح محترم ہیں جس طرح آج (عید قربان) کے دن کا احترام ہے جس طرح اس (حرام) مہینہ اور اس سرزمین (مکہ) کا احترام ہے ، پھر تاکید کرتے ہوئے فرمایا : خدایا ! گواہ رہنا (مجھے جو کہنا چاہئے تھا وہ )میں نے کہدیا ! اس حدیث پرتمام محدثین متفق ہیں (١٤) ۔
اس بنیاد پر پوری دنیا کے مسلمانوں کو متحد ہوجانا چاہئے اور تکفیر و تفسیق کو ختم کردینا چاہئے اور ان دشمنوں کے خلاف قیام کرنا چاہئے جو قرآن کریم ، اسلام اور خدا کو اپنے حملوں کا ہدف بنا رہے ہیں اور اسلام کی تعلیمات کو ہر طرح کے شرک سے پاک و پاکیزہ، ہر طرح کی زیادہ روی اور غلو سے محفوظ کرتے ہوئے دنیا کے مسلمانوں کے سامنے پیش کرنا چاہئے (١٥) ۔
آل سعود کی مجنون قدرت کے خلاف مسلمانوں کو کھڑا ہوجانا چاہئے
پہلے مرحلہ میں کہنا چاہئے کہ آل سعود یہ بات جان لیں کہ انہوں نے جو متعدد جرائم انجام دئیے ہیں خصوصا شیخ نمر کو پھانسی دینے کا جرم بھی ایسا ہے جو کبھی فراموش نہیں ہوگا اور اس احمقانہ کام کے نتائج مستقبل میں نظر آئیں گے ۔فقط شیعہ ہی نہیں بلکہ اہلسنت بھی اس جرم کی شدید مذمت کرتے ہیں ،بلکہ پوری دنیا کے آزاد لوگ اس کی مذمت کر یں گے ۔ (١٦) ۔
اسی طرح یہ بھی کہنا ضروری ہے کہ سعودی حکومت کی طرف سے یمن کے مظلوم لوگوں پر جو جرائم انجام دئیے جارہے ہیں اس کو بھی جنون کے علاوہ کچھ اور نہیں کہا جاسکتا ۔ اسلام کے نام پر عرب ممالک کے بعض حکمران متحد ہوکر اسلامی اور عربی ممالک کو ویران کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور ان کے پیچھے امریکہ اور اسرائیل ہے جو ان کی کھل کر حمایت کررہا ہے (١٧) ۔
اس سے بھی بری بات یہ ہے کہ اقوام متحدہ ابھی بھی خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے گویا کہ مرگیا ہے ، کوئی بھی دنیا کے کسی گوشہ میں اسرائیل کے خلاف کچھ کہتا ہے تو ایک شور مچ جاتا ہے ، لیکن اس وقت آباد ملک کو ویران کررہے ہیں لیکن کوئی اعتراض کرنے والا نہیں ہے ، صرف چند ممالک ایسے ہیں جنہوں نے اسلام اور بشریت کی بنیاد کو پہچان لیا ہے اور وہ اس حکومت کے خلاف اعتراض کررہے ہیں اوردوسرے ممالک خاموش ہیں (١٨) ۔ لیکن تمام مسلمان ، سعودی عرب کے ان جرائم کا انتقام ضرور لیںگے (١٩) ۔
سعودی عرب کے جرائم کو عیاں کرنے میں روشن گری بنیادی قدم ہے
میں تمام علمائے اسلام کے سامنے سرتسلیم خم کرتا ہوں اور سب سے درخواست کرتا ہوں کہ سب متحد ہوجائیں اورایک آواز ہو کر کہیں یہ چھوٹا سا متعصب وہابی گروہ جو سعودی عرب کی ظالم حکومت کی سیاست کے ساتھ اپنے علاوہ سب کو مشرک سمجھتا ہے ، اسلام کا حقیقی نمایندہ نہیں ہے ،اسی وجہ سے وہ دوسروں کے مال اور خون کو مباح سمجھتا ہے ، ایسے مذہب کی آج کی دنیا میں کوئی جگہ نہیں ہے اور یہ سقوط کی طرف گامزن ہے اوراس کی عمر ختم ہونے والی ہے (٢٠) ۔
اس مسئلہ کی وضاحت میں آل سعود کے حکمرانوں اور مفتیوں کو مخاطب کرتے ہوئے یہ سوال پیش کرنا چاہئے کہ سعودی عرب کے مفتی وہابی ، علمائے اسلام، علمائے الازہر، علمائے دمشق، قم اور نجف و اشرف کے ساتھ بحث و گفتگو کرنے کیلئے آمادہ کیوں نہیں ہیں کیونکہ اس سے ان کی حقیقت واضح ہوجائے گی (٢١) ۔
ان کی بحثیں اس طرح کیوں آغاز ہوتی ہیں جس طرح ان کے بعض راہنمائوں نے جواب دئیے ہیں جیسے ''ایھاالمشرک الجاھل'' اور ان کے جاہل بزرگ پہلے سامنے والوں کو مہدور الدم، مشرک اور نادان سمجھتے ہیں ، اس کے بعد بحث کرتے ہیں (٢٢) ۔
یہ لوگ قرآن کے حکم کے مطابق بحث کرنے پر کیوں حاضر نہیں ہیں ، قرآن کریم فرماتا ہے : ''فَبَشِّرْ عِبادِالَّذینَ یَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَیَتَّبِعُونَ أَحْسَنَہُ'' ۔ (ان کے لئے ہماری طرف سے بشارت ہے لہذا پیغمبر آپ میرے ان بندوں کو بشارت دے دیجئے جو باتوں کو سنتے ہیں اور جو بات اچھی ہوتی ہے اس کا اتباع کرتے ہیں) (٢٤) ۔یقینا اگر یہ ایسا کرتے تو مسلمانوں کا یہ پاک وپاکیزہ خون اس طرح نہ بہتا اوران کے مال کو برباد نہ کیا جاتا (٢٥) ۔
آخری بات :
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ سعودی حکمراں ، پورے علاقہ میں اپنے ناپاک اور غلط اہداف و سیاست میں ناکام ہوگئے ہیں اور اب انتقام لینا چاہتے ہیں، فرمایا : اس وجہ سے ان کو جان لینا چاہئے کہ انہوں نے جو متعدد جرائم انجام دئیے ہیں خصوصا شیخ نمر کو پھانسی دینے اور یمن پر بمباری کرکے وہ کسی نتیجہ تک نہیں پہنچ سکتے، یہ لوگ شام، یمن اور عراق میں اپنی شکست کا انتقام لینا چاہتے ہیں ، لیکن یہ بات بھی جان لیں کہ اس بے گناہ شیخ کی شہادت کا ان کو بہت بڑا تاوان دینا پڑے گا(٢٦) ۔
سعودی عرب کی ظالم حکومت کو جان لینا چاہئے کہ اس شیخ کی شہادت کے نتیجہ میں تمہیں بہت بڑا نقصان اٹھانا پڑے گا اور آخرکار خداوندعالم کے انتقام کا ہاتھ اس کے عدل کی آستین سے باہر آئے گا اور ان حملہ کرنے والوں اور قتل کرنے والوں کو مزہ چکھائے گا (٢٧) ۔
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.