اس سے بڑھ کر اور کيا دليل ہو سکتي
ہے کہ شيخين(حضرت ابوبکر و حضرت عمر) و رسول اکرم (صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم )کے
اصحاب نے حضرت کے منبر سے اترنے کے بعد علي (عليہ السلام) کو مبارکباد پيش کي اور
مبارکبادي کايہ سلسلہ مغرب تک چلتا رہا ۔شخين وہ پہلے افراد تھے جنھوں نے امام کو
ان الفاظ کے ساتھ مبارکباد دي
”ہنيئاً لک ياعلي بن ابي طالب اصبحت
و امسيت مولاي وموليٰ کل مومن ومؤمنة“
[1] يعني اے علي بن ابي طالب آپ کو مبارک ہو کہ صبح وشام ميرے اور ہر مومن مرد و
عورت کے مولا ہوگئے ۔
علي (عليہ السلام) نے اس دن ايسا کونسا مقام حاصل کيا تھا کہ اس مبارکبادي کے مستحق
قرارپائے ؟ کيامقام خلافت ،زعامت اور امت کي رہبري ،کہ جس کا اس دن تک رسمي طور پر
اعلان نہيں ہوا تھا، اس مبارکبادي کي وجہ نہيں تھي؟محبت و دوستي تو کوئي نئي بات
نہيں تھي ۔
[1] شيخين کي تہنيت کے اسناد کو الغدير ج/ ۱ ص/ ۲۷۰ ، ۲۸۳ پر ديکھيں.