اہل سنت کے مشہورعلماء اور حديث غدير

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
ولايت کي واضح سند، حديث غدير
۱۱۰ راويان حديثموليٰ سے کيا مراد ہے ؟

اہل سنت کے مشہورعلماء اور حديث غدير :

احمد بن حنبل شيباني ،ابن حجر عسقلاني،جزري شافعي،ابوسعيد سجستاني،امير محمد يمني،نسائي،ابو الاعلاء ہمداني اور ابو العرفان حبان نے اس حديث کو بہت سي سندوں [1] کے ساتھ نقل کيا ہے ۔
شيعہ علماء نے بھي اس تاريخي واقعہ کے بارے ميں بہت سي اہم کتابيں لکھيں ہيں اور اہل سنت کي مشہور کتابوں کا حوالہ ديا ہے ۔ ان ميں سے جامع ترين کتاب ” الغدير“ ہے ،جو عالم اسلام کے مشہورمؤلف مرحوم علامہ امينيۺ کے قلم کا شاہکار ہے ۔ (اس کتابچہ کو لکھنے کے لئے اس کتاب سے بہت زيادہ استفادہ کياگيا ہے (.
بہرحال پيغمبر اسلام (صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم )نے امير المومنين علي (عليہ السلام) کو اپناجانشين بنانے کے بعد فرمايا:” اے لوگو! ابھي ابھي جبرئيل امين يہ آيت لے کر نازل ہوئے
<اليوم اکملت لکم دينکم واتممت عليکم نعمتي ورضيت لکم الاسلام ديناً [2] آج ميں نے تمھارے دين کو کامل کرديا اور تم پر اپني نعمتوں کوبھي تمام کيا اور تمھارے لئے دين اسلام کو پسند کيا ۔
اس وقت پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم )نے تکبير کہي اور فرمايا :” اللہ کاشکرادا کرتا ہوں کہ اس نے اپنے آئين اور نعمتوں کو پورا کيا اور ميرے بعد علي (عليہ السلام) کي وصايت و جانشيني سے خوشنود ہوا ۔
اس کے بعد پيغمبر اسلام (صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم )بلندي سے نيچے تشريف لائے اور حضرت علي (عليہ السلام) سے فرماياکہ:” جاؤ خيمے ميں جاکر بيٹھو، تاکہ اسلام کي بزرگ شخصيتيں آپ کي بيعت کرتے ہوئے مبارکباد پيش کريں ۔
سب سے پہلے شيخين (حضرت ابوبکر و حضرت عمر) نے حضرت علي (عليہ السلام) کو مبارکباد پيش کي اور ان کو اپنا مولا تسليم کيا ۔
حسان بن ثابت نے موقع سے فائدہ اٹھايا اور پيغمبر اسلام (صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم )کي اجازت سے ايک قصيدہ کہہ کر اس کوپڑھا ،يہاں پر اس قصيدے کے صرف دواہم اشعا ر بيان کررہے ہيں :
فقال لہ قم يا علي فانني
فاني رضيتک من بعدي اماما ً وہادياً
فمن کنت مولاہ فہٰذا وليہ
فکونو لہ اتباع صدق مواليا
يعني علي (عليہ السلام) سے فرمايا :” اٹھو ميں نے آپ کو اپني جانشيني اور اپنے بعد لوگوں کي امامت و راہنمائي کے لئے منتخب کرليا ۔ “
جس جس کا ميں مولا ہوں اس اس کے علي مولا ہيں ۔
تم ،کہ ان کو دل سے دوست رکھتے ہو ،بس ان کي پيروي کرو۔ [3]
يہ حديث علي (عليہ السلام) کي تمام صحابہ پرفضيلت اور برتري کے لئے سب سے بڑي دليل ہے ۔
يہاں تک کہ امير المومنين (عليہ السلام) نے مجلس شورائے خلافت ميں (جو کہ دوسرے خليفہ کے مرنے کے بعد منعقد ہوئي) [4] اور عثمان کي خلافت کے زمانہ ميں اور اپني خلافت کے دوران بھي اس پر احتجاج کيا ۔ [5]
اس کے علاوہ حضرت زہراء سلام اللہ عليہا جيسي عظيم شخصيت نے بھي حضرت علي (عليہ السلام) کي والا مقامي سے انکار کرنے والوں کے سامنے، اسي حديث سے استدلال کيا ۔ [6]

[1] سندوں کا يہ مجموعہ الغدير کي پہلي جلد ميں موجود ہے جو اہل سنت کي مشہور کتابوں سے جمع کيا گيا ہے ۔
[2] سورہٴ مائدہ آيہ/ ۳.
[3] حسان کے اشعار بہت سي کتابوں ميں نقل ہوئے ہيں ان ميں سے کچھ يہ ہيں :مناقب خوارزمي ،ص/ ۱۳۵ ،مقتل الحسين خوارزمي ،ج/ ۱ ،ص/ ۴۷ ،فرائد السمطين ج/ ۱ ،ص/ ۷۳ و ۷۴ ،النور المشتعل ،ص/ ۵۶ ،المناقب کوثر ج/ ۱ ،ص/ ۱۱۸ و ۳۶۲.
[4] يہ احتجاج جس کو اصطلاح ميں” مناشدہ “کہا جاتا ہے حسب ذيل کتابوں ميں بيان ہوا ہے : مناقب اخطب خوارزمي حنفي ص/ ۲۱۷ ،فرائد السمطين حمويني باب/ ۵۸ ،الدر النظيم ابن حاتم شامي ،وصواعق المحرقہ ابن حجر عسقلاني ص/ ۷۵ ، امالي بن عقدہ ص/ ۷ و ۲۱۲ ، شرح نہج البلاغہ ابن الحديد ج/ ۲ ص/ ۶۱ ، الاستيعاب ابن عبد البر ج/ ۳ ،ص/ ۳۵ ،تفسير طبري ج/ ۳ ص/ ۴۱۸ ،سورہ مائدہ کي ۵۵ آيہ کے تحت
[5] فرائد السمطين سمط اول باب / ۵۸ ،شرح نہج البلاغہ ابن ابي الحديد ج/ ۱ ص/ ۳۶۲ ،اسد الغابہ ج/ ۳ ۲ ص/ ۳۰۷ وج/ ۵ ص/ ۲۰۵ ،الاصابہ ابن حجر عسقلاني ج/ ۲ ص/ ۴۰۸ و ج/ ۴ ص/ ۸۰ ،مسند احمد ج/ ۱ ص/ ۸۴ و ۸۸ ،البدايہ والنہايہ ابن کثير شامي ج/ ۵ ص/ ۲۱۰ و ج/ ۷ ص / ۳۴۸، مجمع الزوائد ہيتمي ج/ ۹ ص/ ۱۰۶ ، ذخائر العقبيٰ ص/ ۶۷ ،(الغدير ج/ ۱ ص/ ۱۶۳ و ۱۶۴ )
[6] اسني المطالب شمس الدين شافعي طبق نقل سخاوي في الضوء اللامع ج/ ۹ ص/ ۲۵۶ ، البد رالطالع شوکاني ج/ ۲ ص/ ۲۹۷ ، شرح نہج البلاغہ اب ابي الحديد ج/ ۲ ص/ ۲۷۳ ، مناقب علامہ حنفي ص/ ۱۳۰ ،بلاغات النساء ص/ ۷۲ ،العقد الفريد ج/ ۱ ص/ ۱۶۲ ، صبح الاعشيٰ ج/ ۱ ص/ ۲۶۹ ،مروج الذہب ابن مسعود شافعي ج/ ۲ ص/ ۴۹ ، ينابيع المودة ص/ ۴۸۶.
۱۱۰ راويان حديثموليٰ سے کيا مراد ہے ؟
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma