۳۔ تخلیق کائنات کے متعلق، نزول قرآن کے زمانے میں موجودہ مفروضے

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
پیام امام امیرالمؤمنین(ع) جلد 1
۲۔ تخلیق کائنات کی کیفیت۴۔ سات آسمان سے کیا مراد ہے؟

قابل توجہ نکات میں سے ایک اچھا نکتہ یہ ہے کہ نزول قرآن کے ماحول میں (یا صحیح لفظوں میں جس زمانے میں قرآن نازل ہوا ہے) تخلیق کائنات کے بارے میں دو مشہور نظریے موجود تھے: ایک نظریہ ”بطلمیوس“ کے علم نجوم کا تھا جو تقریباً پندرہ صدیوں تک دنیا کی علمی محفلوں پر سایہ فگن اور قرون وسطیٰ کے آخری دور تک باقی رہا ، اس نظریہ کے مطابق کائنات کا محور، زمین تھی اور نو فلک (سیارے) اُس کے اردگرد گردش کرتے تھے ۔
یہ افلاک پیاز کے چھلکوں کے مانند، صاف وشفّاف اور ایک دوسرے کے اوپر لپٹے ہوئے تھے جبکہ متحرک ستاروں (عطارد، زہرہ، مریخ اور زحل) میں سے ہر ایک ستارہ کی جگہ اپنے مخصوص فلک میں تھی، نیز چاند اور سورج کا بھی اپنا اپنا ایک مخصوص فلک تھا، اس کے علاوہ ساکن ستاروں سے مربوط سات فلک اور بھی تھے (ساکن ستاروں سے مراد ستاروں کا وہ مجموعہ ہے جو ایک ساتھ طلوع اور غروب ہوتے ہیں اور آسمان میں اپنی جگہ نہیں بدلتے، اُن ستاروں کے برخلاف جن کا نام شروع میں بیان کیا جاچکا ہے) آٹھویں فلک یعنی فلک ثوابت کے بعد، فلک اطلس تھا، جس میں کوئی ستارہ نہیں تھا، اس کا کام دنیا کے فوقانی مجموعہ کو زمین کے گرد گھمانا تھا، اس کا دوسرا نام فلک الافلاک تھا ۔
دوسرا مفروضہ، عقول عَشَرہ کے مفروضہ پر مشتمل تھا، اس نظریہ میں بھی ’بطلمیوس“ کے اس نظریہ سے مدد لی گئی تھی جو کائنات کی طبیعت پر ناظر تھا ۔
اس نظریہ کے مطابق جو بعض یونانی فلسفیوں کی جانب سے بیان کیا گیا تھا، خداوندعالَم نے شروع میں فقط ایک چیز پیدا کی اور وہ عقل اوّل تھی (فرشتہ یا روح عظیم اور مجرد جس کا نام شروع میں عقل اوّل رکھا گیا) اِس عقل نے دو چیزوں، عقل دوّم اور نویں فلک کو پیدا کیا، اس کے بعد عقل دوّم نے عقل سوّم اور آٹھویں فلک کو خلق کیا اور اس ترتیب سے دس عقلیں اور نو فلک پیدا ہوئے اور پھر دسویں عقل نے اس کائنات کی دیگر موجودات کو پیدا کیا ۔
حقیقت میں مفروضہ مراتب کے اس سلسلہ کی کوئی دلیل نہیں تھی، جیساکہ ”بطلمیوس“ کے مفروضے کی بھی بقدر کافی دلیل نہیں تھی، بہرحال جو کچھ بھی تھے کئی صدیوں تک یہ مفروضے، افکار پر حاکم اور غالب رہے ۔
لیکن قرآن مجید اور اسلامی احادیث نے نہ پہلے مفروضہ کو قبول کیا اور نہ دوسرے نظریہ کو مانا، چونکہ آیات قرآنی اور مشہور حدیثوں (خصوصاً نہج البلاغہ) میں ان نظریوں کا ہمیں کوئی اثر نہیں ملتا اور یہ بات بذات خود، قرآن اور اسلامی احادیث کی عظمت اور مستقل مزاجی پر بہترین گواہ ہے، نیز شاہد ہے کہ قرآن وحدیث کا سرچشمہ، وحی ہے بشری افکار نہیں، ورنہ یہ بھی وہی رنگ اختیار کرلیتے ۔(1)
تخلیق کائنات کی کیفیت کو ”امیرالمومنین علیہ السلام“ کے کلام میں جو دوسری بہت سی احادیث سے ہماہنگ ہے، آپ نے مشاہدہ کیا ہے ۔
قرآنی آیات اور اسلامی احادیث میں سات آسمانوں کا ذکر ملتا ہے، نہ کہ نو افلاک اور دس عقلوں کا، بہرحال آئندہ گفتگو میں سات آسمانوں کی تفسیر بیان ہوگی ۔
لیکن افسوس کہ نہج البلاغہ کی شرح کرنے والے قدیم علماء (جو تخلیق کائنات کے سلسلہ میں دس عقلوں کے فرضیہ یا ”بطلمیوس“ کے نظریہ سے متاثر ہوگئے تھے) ان نظریات کو شرح نہج البلاغہ میں لے آئے اور انھیں کے اوپر مذکورہ خطبہ کو تطبیق دینے کی کوشش کی، حالانکہ اس بات پر مُصر رہنے کی کوئی ضرورت بھی نہیں تھی، چونکہ یہ دونوں نظریے فقط مفروضے ہی تو تھے، جن کا باطل ہونا دور حاضر میں ثابت ہوچکا ہے ۔
عصر حاضر کے علمی مشاہدات اور علم نجوم کے ماہرین کے تجربات نے واضح طور پر ثابت کردیا ہے کہ فلک کے جو معنی بطلمیوس گمان کرتا تھا اُس معنی میں کوئی فلک موجود نہیں ہے اور ساکن یا متحرک ستارے، جن کی تعداد اُس سے کہیں زیادہ ہے جو قدیم علماء سمجھتے تھے، خلاء میں (سیّارے زمین کے نہیں بلکہ سورج کے گرد اور ساکن ستارے دوسرے محور پر) گردش کرتے ہیں جبکہ زمین یہ ہی نہیں کہ وہ کائنات کا محور نہیں ہے بلکہ منظومہ شمسی کے سیّاروں میںسے ایک چھوٹا سا سیّارہ ہے جو خود اپنے حساب سے ایک چھوٹا منظومہ ہوتے ہوئے بھی کائنات کے کروڑوں اور اربوں منظوموں سے بڑا منظومہ ہے ۔
جبکہ عقول عشرہ (دس عقلوں) کا نظریہ رکھنے والے حضرات نے اگرچہ اپنے اس نظریہ کا ایک ستون ”بطلمیوس“ کے علم نجوم سے حاصل کیا ہے (جس کا باطل ہونا آج کے دور میں ثابت ہوچکا ہے) اور دوسرے ستون کو بعض عقلی قواعد ”اَلْوَاحِدُ لایَصْدُرُ مِنہُ الّا الْوَاحِد“ کی بنیاد پر رکھا ہے کہ یہاں پر اس قاعدہ کی وضاحت کرنے کا موقع نہیں ہے ۔
بہرحال بہت سے دانشمندوں کے نظریہ کے لحاظ سے چونکہ مذکورہ قاعدہ پر بقدر کافی دلیل نہیں ہے لہٰذا اس مفروضہ کا دوسرا ستون بھی غیر معتبر اور بے اثر ہوجائے گا (دقّت فرمائیں) ۔

 


1۔بلکہ قرآن کریم کی بعض آیتوں میں زمین کے متحرک ہونے کا اشارہ ملتا ہے، جیسے سورہٴ نمل کی آیت نمبر ۸۸ <وَتَرَی الْجِبَالَ تَحْسَبُھَا جَامِدَةً وَھِیَ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِ صُنْعَ اللهِ الَّذِی اٴَتْقَنَ کُلَّ شَیْءٍ اور سورہٴ مرسلات کی پچیسویں آیت <اٴَلَمْ نَجْعَلْ الْاٴَرْضَ کِفَاتًا (البتہ بعض تفسیروں کی بناپر اور بعض آیات چاند اور سورج کے عالَم بالا کی فضا میں تیرنے پر دلالت کرتی ہیں، جیسے سورہٴ یٰسین کی چالیسویں آیت < لَاالشَّمْسُ یَنْبَغِی لَھَا اٴَنْ تُدْرِکَ الْقَمَرَ وَلَااللَّیْلُ سَابِقُ النَّھَارِ وَکُلٌّ فِی فَلَکٍ یَسْبَحُونَ (مزید تشریح کے لئے تفسیر نمونہ ملاحظہ فرمائیں ۔
2۔ مرحوم ”خواجہ نصیر الدین طوسی“ نے ”تجرید الاعتقاد“ نامی کتاب میں ”عقول عشرہ“ پر مشتمل مفروضہ کے دلائل کا تذکرہ کرتے ہوئے اور انھیں غلط شمار کیا ہے، وہ مختصر لفظوں میں کہتے ہیں: ”وَاَدِلَّةُ وُجُودِہِ مَدخُولة“ مزید وضاحت کے لئے، خواجہ کے کلام اور اس کی شرح کو ملاحظہ فرمائیں جو علامہ حلّیۺ نے کی ہے ۔
 
۲۔ تخلیق کائنات کی کیفیت۴۔ سات آسمان سے کیا مراد ہے؟
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma