مسجد الحرام کی توسیع

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 03
”بکّہ“ سے کیا مراد ہے ؟ خانہ کعبہ کی خوصوصیات

پیغمبر اسلام کے زمانے سے لے کر جس قدر مسلمان بڑھتے گئے تو فطری طور پر خانہ کعبہ کے زائرین کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا گیا ۔ لہٰذا حکام ِ وقت کی طرف سے مسجد الحرام کی بھی توسیع ہو تی رہی۔
تفسیر عیاشی میں منقول ہے کہ عباسی خلیفہ منصور کے زمانے میں حجاج کی کثرت کی بناء پر پروگرام بنا یا گیا ہے کہ ایک دفعہ پھر مسجد الحرام کو وسیع کیا جائے ۔ خلیفہ نے ان لوگوں کو بلا یا جن کے گھر مسجد کے ارد گرد تھے تاکہ ان کے گھر خرید لئے جائیں لیکن وہ کسی قیمت پر بھی انہیں بیچنے کے لئے تیار نہ ہوئے ، منصور بڑی مشکل میں گرفتار ہوا کیونکہ ایک طرف وہ یہ نہیں چاہتا تھا کہ طاقت کے ذور سے ان کے گھر خراب کرے کیونکہ اس کا اچھا اثر نہ ہوتا اور دوسری طرف وہ لوگ اپنے گھر دینے کے لئے تیار بھی نہ تھے ۔ اس سلسلے میں اس نے حضرت امام صادق علیہ السلام سے استفسار کیا۔ آپ (ع) نے فرمایا کہ اس بارے چنداں فکر کی ضرورت نہیں اس ضمن میں واضح دلیل موجود ہے جس سے تم استدلال کرسکتے ہو۔
اس نے پوچھا وہ کونسی دلیل ہے ۔ فرمایا کلام ِ خدا ۔ پوچھنے لگا کلامِ الہٰی میں کہا سے استدل لایا جاسکتا ہے ؟ آپ (ع) نے فرمایا کہ آیت:
”ان اول بیت وضع للناس للذی ببکة مبارکاً “
سے استدلال کیا جاسکتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ پہلا گھر جو لوگوں کے لئے بنایا گیا وہ خانہ کعبہ ہے ۔ اس لئے کہ اگر خانہ کعبہ سے پہلے ان کے گھر یہاں موجود ہوتے تو خانہ کعبہ کے اطراف ان کی ملکیت میں ہوتے لیکن خانہ کعبہ ان سے پہلے ہے تو یہ حریم ( جہاں تک خانہ کعبہ کے زائرین کی ضرورت ہے ) کعبہ سے تعلق رکھتا ہے۔
منصور نے ان لوگوں کو بلواکر ان کے سامنے اسی انداز سے استدلال کیا وہ یہ سن کر لاجواب ہو گئے اور کہنے لگے جس طرح آپ کی مرضی ہو ہم آپ کی موافقت کریں گے ۔
اسی تفسیر میں یہ بھی منقول ہے کہ اس قسم کا واقعہ مہدی عباسی کے دورمیں پیش آیا۔ اس نے اس دور کے فقہاء سے رجوع کیا ۔ ان سب نے کہا کہ اگر گھروں کے مالک اس پر راضی نہ ہوں توغصب شدہ جگہ کو مسجد الحرام میں داخل کرنا مناسب نہیں ۔ علی بن یقطین نےاس مسئلہ کو حضرت امام موسیٰ بن جعفر(ع) سے حل کرانے کے لئے اجازت چاہی ۔ مہدی نے والی مدینہ کو لکھا کہ وہ اس مشکل کاحل امام موسیٰ کاظم (ع) سے طلب کرے ۔ حضرت (ع) نے ارشاد فرمایا لکھو ۔
” بسم اللہ الرحمن الرحیم اگر خانہ کعبہ پہلے بنا ہے اور لوگ بعد میں اس کے اطراف وکنار میں سکونت پذیر ہوئے ہیں تو اس کے اطراف کی فضا کا تعلق خانہ کعبہ سے ہے اور اگر لوگوں کی سکونت وہاں خانہ کعبہ سے پہلے تھی تو وہ اس کے زیادہ حقدار ہیں ۔“
جب یہ جواب مہدی عباسی کو موصول ہوا تو اس کو اتنی مسرّت ہوئی کہ اس نے وہ پروانہ لے کر اسے بوسہ دیا اور حکم دیا کہ ان کے گھروں کو مسمار کیا جائے ۔ گھروں کے مالک برافرختہ ہو کر موسیٰ بن جعفر (ع) کی خدمت ِ اقدس میں حاضر ہو ئے اور ان سے درخواست کی کہ آپ مہدی کو خط لکھیں کہ وہ گھرو ں کی قیمت انہیں واپس کردے ۔ حضرت (ع) نے اس کی خواہش پوری کردی اور مہدی نے بھی انہیں راضی کیا ۔
یہ دو آیات ایک بار یک استدلال پر مشتمل ہیں جوحقوق کے بارے میں مروجہ قوانین سے بھی مطابقت رکھتا ہے البتہ جب تک یہ احتیاج ضرورت کا پہلو پیدا نہیں کرتی دوسرے لو گ بھی اس کے جوار سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں ۔ لیکن جب ضرورت ہو تو اس کے حق اولویت سے فائدہ اٹھا یا جا سکتا ہے ۔

”بکّہ“ سے کیا مراد ہے ؟ خانہ کعبہ کی خوصوصیات
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma