گناہ رحمت کو نہیں روک سکتے

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 21
سُورہ آغاز میں ہم ایک بار پھر حروف مقطعات ( حٰم) کو پاتے ہیں . یہ چوتھی سُورت ہے ، جس کا آغاز ” حٰم “ سے ہو رہاہے . تین اور سُورتوں کا آغاز بھی انہی دوحروف سے ہواہے . مجموعی طورپر یہ ساتوں سُور تیں ” حٰم کاخاندان “ تشکیل دیتی ہیں . سُورتیں بالترتیب یہ ہیں ۔۱۔ موٴمن ۲،حم سجدہ ۔۳، شوریٰ۔ ۴، زخرف ۔ ۵، دخان ۔ ۶، جاثیہ ۔ ۷، احقاف ۔
حروف ِ مقطعات کے بار ے میں ہم پہلے ہی تفصیل کے ساتھ بحث کرچکے ہیں ( ملاحظہ ہو تفسیر نمونہ کی جلد اوّل سورہٴ بقرہ کاآغاز ، جلد دوم سُورہ آلِ عمران کی ا بتداء ، جلد ششم سورہ اعراف کاآغاز اور جلد ۲۰ سُورہ حٰم سجدہ کی ابتداء ) ۔
اسی سلسلے کی دوسر ی آیت میں قرآن مجید کی قسم کاتے ہوئے ارشاد فر مایاگیا ہے : قسم ہے اس آشکار کتاب کی (وَ الْکِتابِ الْمُبینِ) ۔
اس کتاب کی قسم جس کے حقائق آشکار ، مفہوم واضح ، اس کی سچائی کے دلائل نما یاں اوراس کی ہدایت کی راہیں واضح روشن ہیں ۔
ہم نے اسے ایک عربی قرآن قرار دیاہے تاکہ تم اسے سمجھ سکو. (إِنَّا جَعَلْناہُ قُرْآناً عَرَبِیًّا لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُونَ) (۱) ۔
قرآن کاعربی ہونا یا تو اس لحاظ سے ہے کہ وہ عربی زبان میں نازل ہواہے جو حقائق بیان کرنے کے لیے دُنیا کی وسیع او ر جامع ترین زبانوں میں سے ہے اور باریک سے بار یک مطالب نہایت ہی ظرافت اور لطافت کے ساتھ بیان کرتی ہے ۔
یا ” عربی “ بمعنی ” فصاحت “ کے ہے ( کیونکہ لفظ ” عربی “ کاایک معنی ” فصیح “ بھی ہے ) اور یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ہم نے اس قرآن ک نہایت ہی فصاحت کے انداز میں نازل کیاہے تاکہ جملا ت اور کلمات کے ذ ریعے اچھے سے اچھے حقا ئق کوظاہر کرلے اور سب لوگ اسے بخوبی سمجھ سکیں ۔
یہاں پرایک دلچسپ بات اور بھی ہے اور وہ یہ کہ قسم اور جواب قسم دونوں ایک چیز ہیں ،قرآن کی قسم اُٹھا ئی جارہی ہے کہ یہ کتاب عربی قرار دی جاچکی ہے ، تاکہ سب لوگ اس کے مطالب سمجھ سکییں ، اور یہ بات شاید اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ قرآن سے بڑھ کر اور کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کی قسم اٹھا ئی جاسکے . اگرقرآن سے بڑھ کر کوئی اورچیز ہوسکتی ہے تووہ صرف قرآن پاک ہی ہے . کیونکہ یہ خدا کاکلام ہے اور یہ کلام ِ الہٰی اسی کی ذات اقدس کامظہر ہے ۔
” لعل“ ( شاہد ہو سکتاہے وغیرہ ) کی تعبیر اس لیے نہیں ہے کہ خدا وندِ عالم کو قرآن مجید کی تاثیر میں کسی قسم کاشک ہے ، یا امیدو آ زادی کی آرزو کی کوئی صُورت ہے کہ جس تک پہنچنے کے لیے کسی قسم کی مشکل کاسامنا ہوتاہے .ایسی بات نہیں ہے ، بلکہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ آیاتِ قرآنی سُننے والوں کی فکری اوراخلاقی سطح مختلف ہوتی ہے ، لہذا قرآن کی تاثیر بھی ان کی اسی سطح کے مطابق ہوتی ہے کہ جس طرف ” لعل “ کے ساتھ اجمالی اشارہ کیاگیاہے (اس بات کی مزید تفصیل کے لیے تفسیر نمونہ جلد سوم سُورہٴ آل ِ عمران کی آیت نمبر ۲۰۰ کی تفسیر کی طرف رجوع فرمائیں ) ۔
پھراس آسمانی کتاب کی تین اورصفات کو بیان فرماتے ہوئے فرمایاگیاہے : اوروہ اصل کتاب لوح محفوظ میں ہمار ے پاس ہے جو بلند مرتبہ اورحکمت آموز ہے (وَ إِنَّہُ فی اٴُمِّ الْکِتابِ لَدَیْنا لَعَلِیٌّ حَکیمٌ ) ۔
پہلی صفت میں تو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ قرآن مجید ” ام الکتاب “ میں پر وردگار عالم کے پاس ثبت اور محفوظ ہے ، جیسا کہ سُورہ ” بروج “ کی آیات ۲۱ ، ۲۲ ،میں بھی ہے ۔
” بل ھو قراٰن مجید فی لوح ٍ محفوظ “
وہ قرآن مجید ہے جولوح ِ محفوظ ہے ۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ ” اُم الکتاب “ یا” لوح محفوظ “ سے کیا مراد ہے ؟
لغت میں ” اُم “ کالفظ ہرچیز کی اصل ، بنیاد اوراساس کے معنی میں آ تاہے .اگر اہل عرب ماں کو ” اُم “کالفظ ہرچیز کی اصل ، بنیاد اوراساس کے معنی میں آ تاہے .اگر اہل عرب مال کو ” اُم “ کہتے ہیں تواس لیے کہ وہ خاندان کی بُنیاد اوراولاد کے لیے جائے پناہ ہوتی ہے .اسی لیے ” اُم الکتاب “ کامعنی ایسی کتاب ہے جوتمام آسمانی کتابوں کی اصل واساس ہے اور وہ وہی لوح ہے جوخدا کے نزدیک ہرقسم کے ۔
تغیّر ، تبدل اور تحریف سے محفوظ ہے اورایسی کتاب ” پروردگار ِ عالم کاعلم “ ہے ، جو خوداُسی کے پاس ہے اور تمام کائنات کے حقائق ، کا ئنات میں ماضی اورحال ومستقبل میں وقوع پذیر ہو نے والے حالات اور تمام آسمانی کتابیں اس میں درج ہیں اوراس حد تک خداکے علاوہ کسی کو رسائی حاصل نہیں ہے مگرجنہیں خداخود آگاہ کرے ۔
یہ قرآن مجید کی بہت بڑی عظمت ہے جس کا سرچشمہ حق تعالیٰ کا بے پایاں علم ہے ، جس کی اصل واساس خود خدا کے پاس ہے اسی دلیل کی بناء پر قرآن مجید کی دوسری صفت کو بیان کرتے ہوئے فرمایاگیاہے : یہ بلند مرتبہ کتاب ہے ( لعلی) ۔
تیسری صفت کے بارے میں فرمایاگیاہے :حکمت آموز مستحکم ، بختہ اورحساب شدہ ہے (حکیم ) ۔
اور جس چیز کا براہ راست تعلق خدا کے لامتناہی علم سے ہو ، اسے ایسی اوصاف کاحامل ہونا ہی چاہیئے ۔
بعض مفسرین قرآن مجید کو اس بناپر بلند مرتبہ کتاب سمجھتے ہیں کہ وہ دوسری تمام آسمانی کتابوں پر فو قیّت رکھتی ہے اور ان پر سبقت حاصل کر گئی ہے اوران سب کومنسُوخ کرکے اعجاز ک بلند ترین مقام پر فائز ہوچکی ہے ۔
کچھ اور مفسرین کے نزدیک یہ ہے کہ یہ اس لیے بلند مقام کی حامل کتاب ہے کہ اس کے مندر جات ایسے حقائق پرمشتمل ہیں جوانسانی انکار کی رسائی سے بالا ہیں ( ان حقائق کے علاوہ جن کاظاہری مفہوم ہرشخص سمجھ لیتاہے ) ۔
یہ نکتہ بھی قابلِ توجہ ہے کہ لفظ ” حکیم “ عام طورپر انسان کی یاشخص کی صفت کے لیے استعمال ہوتاہے ، کتاب کے لیے نہیں ، لیکن چونکہ یہ آسمانی کتاب بذا ت خود ایک عظیم معلم اورحکمت آموز کی حیثیت رکھتی ہے لہٰذا اس کے لیے یہ تعبیر نہایت ہی موزوں اور بجاہے ۔
البتہ ”حکیم “ کامعنی ” مستحکم “ اور ہرقسم کے خلل سے محفوظ بھی ذکر ہوا ہے اور یہ تمام مفہوم اور مطالب مذکورہ لفظ میں موجُود ہیں اورقرآن پرصحیح معنوں میں صادق آتے ہیں ، کیونکہ قرآن ان معانی کے لحاظ سے حکیم ہے ۔
بعد کی آیت میں قرآن سے مُنہ موڑ نے اوراس کاانکار کرنے والوں کومخاطب کرتے ہُوئے فر مایاگیاہے : آ یا ہم قرآن کوجو کہ تمہار ی بیداری اور توجہ کاسبب ہے مُنہ موڑ نے اوراس کاانکار کرنے والوں کومخاطب کرتے ہُو ئے فرمایاگیاہے : آ یا ہم قرآن کو جو کہ تمہاری بیداری اور توجہ کا سبب ہے ، تم سے اس لیے واپس لے لیں کہ تم اسراف اور تجاوز کرنے والے لوگہ ہو ( اٴَ فَنَضْرِبُ عَنْکُمُ الذِّکْرَ صَفْحاً اٴَنْ کُنْتُمْ قَوْماً مُسْرِفینَ) ۔
یہ ٹھیک ہے کہ تم نے حق کی مخالفت اور دشمنی میں کوئی دقیقہ فرد گذاشت نہیں کیااور مخالفت کو افراط و اسراف کی حد تک پہنچا چکے ہو ، لیکن خدا کا لطف و کرم اوررحمت و مہر بانی بھی اس قدر وسیع ہے کہ وہ تمہاری ایسی باتوں کو اپنی رحمت کے آگے سدراہ نہیں سمجھتا اوراس بیدار کرنے والی آسمانی کتاب کو مسلسل تمہارے لیے بھیجتارہتاہے تاکہ جن دلوں میں تھوڑی سی آماد گی پا ئی جاتی ہے ان میں حرکت پیدا ہو اوروہ سیدھی راہ پر آ جائیں اورپروردگار عالم کی عمومی رحمت اور رحمانیت کایہی معنی ہے جو دوست اور دشمن دونوں کے لیے ہے ۔
” اٴَ فَنَضْرِبُ عَنْکُم“ کا معنی ” اٴَ فَنَضْرِبُ عَنْکُم“ ( آ یا ہم تم سے منصرف کردیں یاپھردیں ) کیاگیاہے . کیونکہ جب کوئی سوار اپنی سواری کوایک راستے سے دوسرے کی طرف پھیرناچاہتا ہے تواسے چابک مار تاہے ، لہذااس جیسے مقام پر” ضرب “ کالفظ ” صرف “ (پھیرنے) کے معنی میں استعمال ہوتاہے ( ۲) ۔
” صفح “ در اصل ” جانب “ اور کسی طرف ( side)کے معنی میں استعمال ہوتاہے اور” عرض “ یعنی چوڑ ائی کے معنی میں استعمال ہوتاہے لیکن اس آیت میں پہلے پہلے معنی استعمال ہواہے کیاہم اس قرآن کوجو تذ کرکا موجب ہے ، تمہار ی طرف سے دوسری جانب پھیردیں ؟
” مسرف “” اسراف “ کے مادہ سے ہے ، جس کامعنی حد سے بڑھ جاناہے اور یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مشرکین اوررسُول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کے دشمن اپنی عداوت اور مخالفت میں اس حد تک بڑھ گئے ہیں کہ وہ مخالفت اور عناد کی کسی حد کو نہیں پہچانتے ۔
پھر مذ کورہ فر مان کے لیے شاہد کے طور پر بھی اور رسُول پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی تسلی اور تشفی کے لیے بھی اورساتھ ہی ہٹ دھرم منکرین کو تنبیہ اور تہدید کے طورپر بھی مختصر لیکن محکم انداز میں فر مایا گیاہے :
ہم نے گزشتہ قوموں میں ہدایت کی خاطر بہت سارے انبیاء کو بھیجا ہے ( وَ کَمْ اٴَرْسَلْنا مِنْ نَبِیٍّ فِی الْاٴَوَّلینَ ) ۔
لیکن ان کے پاس کوئی پیغمبر نہیں آ تاتھا مگر یہ اس کامذاق اڑاتے تھے (وَ ما یَاٴْتیہِمْ مِنْ نَبِیٍّ إِلاَّ کانُوا بِہِ یَسْتَہْزِؤُنَ ) ۔
اس قسم کے مخالفین ،مذاق اور تمسخر لطفِ الہٰی سے ہرگز مانع نہ ہوئے یہ وہ فیض الہٰی ہے جو ازل سے ابد تک جاری و ساری ہے اورایسی سخاوت ہے جو تمام بندگانِ خدا کے لیے یکساں ، بلکہ اصولی طورپر خدا نے انہیں خلق ہی رحمت کے لیے فر مایاہے ۔
) ولذالک خلقھم ) ۔ ( ہود ۔ ۱۱۹)
اسی لیے تمہاری رو گردانی ہٹ دھرمی کبھی اس کے لطف وکرم کی سدِّ راہ نہیں بن سکتی اوررسُو ل پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اور موٴ منین کو بھی مایوس و پریشان نہیں ہوناچاہیئے ، کیونکہ حق سے ر و گر دانی اورخو اہشات نفسانی کی پیرو ی آج کی پیدا وار نہیں ، بلکہ زمانہٴ قدیم سے چلی آ رہی ہے ۔
البتہ یہ بات بھی ان ( کفار ) کو نہیں بھولنی چاہیئے کہ خدا وندِ کریم کا بے حد و حساب لطف وکرم اس کی سزا سے مانع بھی نہیں ہوسکتا کیونکہ مجرم کوسزا بھی اس کی حکمت کاتقاضا ہوتی ہے . اسی لیے بعد کی آ یت میں فر مایاگیا : ہم نے توان لوگوں کو بھی ہلاک اور نیست و نابُود کردیاہے جو ان سے زیادہ طاقت ور تھے (فَاٴَہْلَکْنا اٴَشَدَّ مِنْہُمْ بَطْشاً ) ۔
اور گزشتہ لوگوں کی داستان بھی گزرچکی ہے ۔ (وَ مَضی مَثَلُ الْاٴَوَّلینَ ) ۔
جو آ ہات ہم نے اس سے پہلے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )پر نازل فرمائی ہیں ان میں ایسی ہی سرکش قوموں کی سرکشی اور نافر مانی کے بہت سے نمونے پیش کیے گئے ہیں اور وحی کے ذریعے ان کے تفصیلی حالات آپ تک بے کم وکاست پہنچ چکے ہیں .ان اقوام میں کچھ ایسی قومیں بھی تھیں جومشرکین عرب سے کئی گنازیادہ طاقتو ر تھیں ۔ ان کے پاس ذر ائع اوروسائل کی فر ا وانی تھی . افرادی قوّت کی کوئی کمی نہیں تھی فوج کے لحاظ سے بھی وہ بہت قوی تھیں ، استعداد بھی ان کی زیادہ تھی . جیسے فرعون اوراس کی قوم اورطاقت کے لحاظ سے عادو ثمود کی قومیں ، لیکن اب تم جاؤ اوران کے شہروں کوکھنڈرات کی صُورت میں جاکر دیکھو ، ان کی سرگزشت تاریخ کی کتابوں میں پڑھو اوران سب سے واضح کیفیّت قرآن میں موجود ہے اس کامطالعہ کرو اوراس میں غور وخوض سے کام لو . پھر تمہیں معلوم ہوگا کہ ہٹ دھرم اور سرکش افراد اللہ کے در دناک عذاب سے ہرگز نہیں بچ سکتے ۔
” بطش “ ( بروزن ” فرش“ ) کامعنی جیسا کہ راغب نے ” مفردات “ میں تحریر کیاہے ” کسی چیز کو طاقت کے ساتھ پکڑناہے “ ۔
اور یہاں پر ” اشد “ کاکلمہ بھی ساتھ استعمال ہوا ہے ، جس سے طاقت میں شدت بتانا مقصُود ہے ۔
” منھم “ میں موجُود ضمیر مشرکین ِ عرب کی طرف لو ٹ رہی ہے ، جو اس سے پہلے آیات میں مخاطب تھے .لیکن یہاں پرضمیر کوغائب اس لیے لایاگیاہے کہ وہ خدا کے مسلسل خطاب کے اہل نہیں ہیں ۔
بعض بزرگ مفسرین ” مَضی مَثَلُ الْاٴَوَّلین“ (گذشتہ اقوام کاانجام پہلے گزرچکا ہے ) کے جُملے کواس سے پہلی سُورت شوریٰ کی طرف اشارہ سمجھتے ہیں جو اس سے پہلے گزرچکی ہے اوراس میں اس قسم کے لوگوں کاکچھ ذکر موجود ہے ،لیکن اس قسم کی محدود یت پرکوئی دلیل موجُود نہیں ہے ۔ خاص کرجب کہ سُورہ شوریٰ میں گزشتہ اقوام کی سرگزشت کی جانب بہت ہی کم اشارہ ہو اہے . اور دوسری قرآنی سُورتوں میں ان کے تفصیلی حالات درج ہیں ۔
بہرحالا یہ آ یت سُورہ ٴ قصص کی ۷۸ ویں آ یت سے ملتی جُلتی ہے، جس میں فر مایاگیاہے :
قالَ إِنَّما اٴُوتیتُہُ عَلی عِلْمٍ عِنْدی اٴَ وَ لَمْ یَعْلَمْ اٴَنَّ اللَّہَ قَدْ اٴَہْلَکَ مِنْ قَبْلِہِ مِنَ الْقُرُونِ مَنْ ہُوَ اٴَشَدُّ مِنْہُ قُوَّةً وَ اٴَکْثَرُ جَمْعاً ۔
” آ یا قارُون نہیں جانتا تھا کہ خدانے اس سے پہلے کی کئی قوموں کو نیست و نابود کردیا ، جو اس طاقت میں بھی زیادہ تمہیں اور مال و دولت میں بھی “ ؟
یاپھر سُورہ ٴ موٴ من کی آ یت ۲۱ سے ملتی جُلتی ہے ، جس میں مشرکین عرب کوخبر دار کرتے ہو ئے فر مایاگیا ہے :
اٴَ وَ لَمْ یَسیرُوا فِی الْاٴَرْضِ فَیَنْظُرُوا کَیْفَ کانَ عاقِبَةُ الَّذینَ کانُوا مِنْ قَبْلِہِمْ کانُوا ہُمْ اٴَشَدَّ مِنْہُمْ قُوَّةً وَ آثاراً فِی الْاٴَرْضِ فَاٴَخَذَہُمُ اللَّہُ بِذُنُوبِہِمْ وَ ما کانَ لَہُمْ مِنَ اللَّہِ مِنْ واقٍ۔
” آ یا انہوں نے زمین کی سیر نہیں کی تاکہ وہ دیکھتے کہ ان سے پہلے لوگوں کاانجام کیاہواہے ؟وہ اِن سے طاقت میں بھی زیادہ تھے اور زمین پراپنے آثار میں بھی . لیکن خدا نے انہیں ان کے گناہوں کی وجہ سے اپنی گرفت میں لے لیا اورانہیں عذاب ِ الہٰی سے بچانے والا کوئی نہ تھا ۔
۱۔ ” وَ الْکِتابِ الْمُبینِ“ میں ” واؤ “ کے لیے ہے اور ” اإِنَّا جَعَلْناہُ قُرْآناً عَرَبِیًّا ) کا جُملہ جواب قسم ہے ۔
۲۔تفسیر مجمع البیان النبی آ یات کے ذیل میں ۔ 
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma