طاغوت کا فیصلہ

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 03
احادیث کی گواہی احادیث کی گواہی

شان نزول

مدینہ منورہ کے ایک یہودی کو ایک منافق سے کسی چیز میں اختلاف تھا ۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ ایک شخص کو قاضی کے طور پر چن لیں ۔ یہودی چونکہ پیغمبر اسلام کی عدالت اور غیر جانبداری پر مطمئن تھا اس لئے اس نے کہا کہ میں تمہارے پیغمبر کے فیصلہ پر رضا مند ہوں لیکن منافق نے یہودیوں کے ایک بڑے آدمی کعب بن اشرف کو چنا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ رشوت دے کر اس کی رائے کو اپنی طرف پھیر لے گا ۔ غرض اس نے اس طرح رسول اکرم (ص) کے فیصلہ کرنے کی مخالفت کی اس پر یہ آیہٴ شریفہ نازل ہوئی جس میں ایسے افراد کی شدید مذمت کی گئی ۔ ۱
بعض مفسرین نے اس آیت کی دوسری شان نزول بھی نقل کی ہے اور وہ یہ کہ بعض نو مسلم زمانہٴ جاہلیت کی عادت کے مطابق اسلام کی ابتداء میں اپنے مقدمے یہودی علماء یا کاہنوں کے پاس لے جاتے تھے ۔ اس بناپر یہ آیت نازل ہوئی اور انہیں سختی سے منع کیا۔

طاغوت کا فیصلہ

زیر نظر آیت در حقیقت گذشتہ آیت کی تکمیل کرتی ہے ۔ کیونکہ گذشتہ آیت مومنین کو خدا تعالیٰ ، پیغمبر اور اولوالامر کی اطاعت اور کتاب و سنت سے فیصلہ کرانے کی دعوت دیتی ہے اور یہ طاغوت کی اطاعت ، پیروی اور اس سے فیصلہ کر وانے سے منع کرتی ہے ۔ جیسا کہ ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ طاغوت” طغیان “ کے مادہ سے ہے اور یہ لفظ اپنے تمام مشتقات کے ساتھ سر کشی حدود وقیود توڑ نے یا ہر اس چیز کے معنی میں جو بغاوت اور سر کشی کا سبب بنے استعمال ہوتا ہے ۔ اس وجہ سے جو باطل کے مطابق فیصلہ کرتے ہیں وہ طاغوت ہیں کیونکہ انہوں نے حق و عدالت کی خدائی حدود کو توڑ ڈالا ہے ۔
ایک حدیث میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا:
الطاغوت کل من یتحاکم الیہ ممن یحکم بغیر الحق
یعنی جو شخص حق کے خلات فیصلہ کرے اور لوگ اس کے پاس فیصلہ کروانے کے لئے جائیں وہ طاغوت ہے ۔
مندرجہ بالا آیت ان مسلمانوں کو جو اپنے فیصلے کروانے کے لئے ایسے حکام کے پاس جاتے تھے ملامت کرتے ہوئے کہتی ہے :اے رسول : کیا آپ ان لوگوں کو نہیں دیکھتے جو اپنے آپ کو مسلمان ظاہرکرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کہ ہم تمام کتابوں پر جو آپ پر اور آپسے پہلے بنیوں پر نازل ہوئی ہیں ایمان لے آئے ہیں لیکن اس کے باجود اپنے جھگڑوںکافیصلہ طاغوت سے کرواتے ہیں جب کہ انہیں یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ ہر گز طاغوت کا حکم نہ مانیں
(۔اٴَ لَمْ تَرَ إِلَی الَّذینَ یَزْعُمُونَ اٴَنَّہُمْ آمَنُوا بِما اٴُنْزِلَ إِلَیْکَ وَ ما اٴُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ یُریدُونَ اٴَنْ یَتَحاکَمُوا إِلَی الطَّاغُوتِ وَ قَدْ اٴُمِرُوا اٴَنْ یَکْفُرُوا بِہِ )
اس کے بعد قرآن مجید اعلان کرتا ہے کہ طاغوت کی طرف توجہ ایک ایسا شیطانی جال ہے جو چاہتا ہے کہ لوگوں کو سیدھی راہ سے ہٹا کر دور دراز کے گمراہی کے راستوں میں پھینک دے
(یرید الشیطان ان یضلھم ضلٰلا بعیداً)واضح ہے کہ مندرجہ بالاآیت دوسری قرآ نی آیتوں کی طرح تمام مسلمانوں کو سب زمانوں کے لئے خبردار کرتی ہے کہ حکام باطل کی طرف نہ جاوٴ اور طاغوت سے فیصلہ کروانا اور کتب آسمانی پر ایمان لانے کے خلاف ہے ۔ اس کے علاوہ یہ کام سیدھی راہ سے ہٹا کر ٹیڑھے راستوں پر ڈال دیتا ہے جو حق کے راستے سے بہت دور ہیں ۔ ایسے فیصلوں کی برائیاں اور خرابیاں انسانوں کے اجتماعی معاملات کو تباہ و برباد کرنے کے لحاظ سے کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہیں ۔ معاشروں کی پسماندگی کے اسبا ب میں سے ایک یہ بھی ہے ۔
۲



۱- تفسیر مجمع البیان اور اکثر مفسرین نے بھی یہی شانِ نزول نقل کی ہے ۔
۲- المنار جلد ۵ صفحہ ۲۲۲۔

 

احادیث کی گواہی احادیث کی گواہی
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma